بھٹو کی بیٹی کو رخصت ہوئے سترہ برس ہو گئے۔ ان سے میری آخری ملاقات کو کم و بیش اٹھارہ برس ہو چلے ہیں۔ اس طویل عرصے کے دوران کتنے ہی واقعات قصہ ماضی بن کر حافظے کی لوح سے محو ہو گئے۔ کتنی ہی یادیں وقت کا سیل تند رو بہا لے گیا۔ بے نظیر بھٹو کو میں نے کتنی ہی بار دیکھا ہوگا۔
باپ اور بھائیوں کی قبروں کے سرہانے پر کھڑے، ڈھلکتے آنسووں کو تھامتے دعا مانگتے، بڑے بڑے جلسوں سے آتشیں خطاب کرتے، پر جوش کارکنوں کے جھرمٹ میں مسکراتے ہوئے ہاتھ لہراتے، احتجاجی مظاہروں میں وقت کے فرعونوں کو للکارتے، وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے اور پارلیمنٹ میں بھرپور قدرت کلام کے ساتھ اپنا موقف پیش کرتے۔ لیکن یہ سب منظر دھندلا سے گئے ہیں۔ یادوں کے طاقچے میں بس ایک چراغ ابھی تک فروزاں ہے، چراغ کی لو میں تھرتھراتا بی بی کی ہنسی کا بے ساختہ پن اور اجلے افق سے پھوٹتی گہری شفق میں رنگا چہرہ، جیسے نقش ہو کر رہ گیا ہے۔
وہ بہت بڑی لیڈر تھیں۔ کسی اسلامی ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم۔ ان کی شخصیت کی قوس قزح کے کتنے ہی رنگ تھے۔ لیکن مجھے صرف وہ بے نظیر رہ رہ کے یاد آتی ہے جو دبئی کے ہوٹل میں آصفہ اور بختاور کے ہاتھ تھامے ہنستی ہوئی داخل ہوئی تھی جس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے تیر رہے تھے۔ وہ تب تین بچوں کی ماں بن چکی تھی لیکن اس دن اس کے چہرے پر بھرپور دوشیزگی کا جوبن چودھویں رات کے چاند کی طرح کھلا ہوا تھا۔ زندگی چھلکی پڑ رہی تھی۔ میں یہ کہانی پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔
یہ بی بی سے میری دوسری ملاقات تھی۔ آ صف زرداری لمبی قید سے رہا ہو کر دبئی جا چکے تھے۔ کچھ ہی دنوں بعد میں دبئی گیا تو انہوں نے مجھے دوپہر کے کھانے کی دعوت دی۔ میں مقررہ وقت پر ان کے ہاں پہنچ گیا۔ آصف اپنے دفتر میں بیٹھے تھے، وہیں گپ شپ ہوتی رہی۔ کچھ دیر بعد کہنے لگے، کھانا کہیں باہر چل کر کھاتے ہیں۔ پورچ کی طرف جاتے ہوئے جب ہم ڈرائینگ روم کے قریب سے گزرے تو مجھے اندر سے قرآن کریم کی تلاوت کی ہلکی ہلکی سی آوازیں آئیں۔ میں نے پوچھا" محترمہ کدھر ہیں؟ ان سے ملاقات ہی نہیں ہوئی"۔
زرداری صاحب کہنے لگے "آج جمعرات ہے اور وہ ہر جمعرات کو بڑے اہتمام سے قرآن مجید کا ختم کراتی ہیں۔ اس وقت بھی وہ اسی میں مصروف ہیں۔ واپس آکر ان سے مل لیں گے"۔ آصف نے گاڑی نکالی۔ ڈرائیور یا گارڈ وغیرہ کو بھی ساتھ نہ لیا۔ خود ہی ڈرائیو کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد ہم ایک عمدہ ریستوران میں آ بیٹھے۔ کھانا شروع ہی کیا تھا کہ آصف کو محترمہ کا فون آیا۔ انہوں نے میرے بارے میں پوچھا۔ زرداری صاحب نے بتایا کہ ہم فلاں ریستوران میں کھانا کھا رہے ہیں۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ دونوں بیٹیوں کے ہمراہ ریستوران پہنچ گئیں۔
ابھی تک محترمہ کا شگفتہ چہرہ میری نگاہوں میں گھوم رہا ہے۔ وہ بے طرح ہنس رہی تھیں۔ کہنے لگیں" میں خود گاڑی ڈرائیو کرکے لائی ہوں۔ دبئی میں پہلی بار گاڑی چلائی ہے۔ راستہ بھر بچے چیختے رہے کہ ماما کہیں مار دو گی"۔ وہ کھانے میں شریک ہوگئیں۔ ان دنوں خبریں آ رہی تھیں کہ پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف میں مفاہمت کے لئے مذاکرات چل رہے ہیں۔ گفتگو اس طرف مڑ گئی تو میں نے کہا، "دیکھیے محترمہ! سیاست میں کسی نے آپ کے خاندان سے زیادہ مصائب نہیں بھگتے۔ آپ کے والد پھانسی چڑھا دئیے گئے۔ آپ کے دو بھائی یکے بعد دیگرے قتل کر دئیے گئے۔ دو مرتبہ آپ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ آپ کے شوہر کو آٹھ سال زندانوں میں بند رہنا پڑا۔ خود آپ نے قید و بند کی صعوبتیں اٹھائیں۔ آپ کے کارکنوں نے کوڑے کھائے۔ خود سوزیاں کیں، جیلیں کاٹیں۔
آج بھی آپ اپنے خاندان کے ہمراہ جلاوطنی پر مجبور ہیں۔ مشکلات و مصائب کی یہ تاریخ آپ کا اور آپکی پارٹی کا قیمتی اثاثہ ہے۔ یہ آپ کے پرس میں رکھی آپ کی پونجی ہے جس میں آپ کے والد کی میراث بھی شامل ہے۔ اگر اس گراں قیمت پونجی کے عوض آپ مشرف سے کچھ رعا ئتیں لے لیتی ہیں یا وزیر اعظم بن جاتی ہیں تو بہت ہی خسارے کا سودا ہوگا۔ یہ ایسے ہی ہوگا جیسے آپ ہیروں سے بھرا پرس لئے مارکیٹ جائیں اور جوتوں کا ایک عام سا جوڑا خرید کر لے آئیں"۔
میں نے ذرا سا دم لیا تو وہ اپنے دائیں ہاتھ بیٹھے آصف زرداری کی طرف رخ کرتے ہوئے بولیں۔ "Asif، Are you listening" (آصف! کیا آپ سن رہے ہیں)۔ آصف نے اثبات میں سر ہلایا۔ محترمہ بولیں۔۔ " دیکھیں صدیقی صاحب! میں جو کہنے لگی ہوں وہ چاہیں تو ڈائری میں لکھ لیں۔ نمبر ایک، میں کسی بھی قیمت پر مشرف کو وردی میں قبول نہیں کروں گی۔ نمبر دو۔ میں کسی بھی صورت اس کے موجودہ نظام یا بندوبست کا حصہ نہیں بنوں گی اور نہ چور دروازے سے اقتدار میں آوں گی۔ نمبر تین۔ میں صرف وہ کردار ادا کروں گی جو آزادانہ انتخابات کے ذریعے پاکستان کے عوام سونپیں گے۔ " میں نے ڈائری میں کچھ نہیں لکھا لیکن محترمہ نے اپنا وعدہ نبھایا۔
طویل ملاقات کے آخر میں گفتگو لطیف پیرائے میں ڈھلنے لگی تو محترمہ نے اپنے مخصوص شوخ لہجے میں کہا۔ "سنا ہے آپ کے دوست نے دوسری شادی کرلی ہے"۔ اشارہ سمجھتے ہوئے میں نے شرارت سے کہا۔ " ایک بار تو آصف نے بھی مجھ سے کہا تھا کہ میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں"۔ محترمہ نے آصف کی طرف دیکھا جو ہنس رہا تھا۔ میں نے کہا" لیکن آصف کہتا ہے کہ مجھے بی بی سے بڑا ڈر لگتا ہے"۔ اس پر وہ کھل اٹھیں جیسے آصف کی یہ بات بہت اچھی لگی ہو۔
میں نے شرارت میں ایک اور چنگاری بوتے ہوئے کہا " لیکن مجھے آصف کا جواب اچھا نہیں لگا"۔ محترمہ نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا اور بولیں۔ "کیوں۔ اسے کیا کہنا چاہیے تھا؟"۔ میں نے کمال سنجیدگی سے کہا۔ "اسے کہنا چاہیے تھا کہ میں دوسری شادی کرنا تو چاہتا ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں بی بی سے بے پناہ محبت کرتا ہوں"۔ بی بی کا چہرہ خالص مشرقی خاتون کی طرح گلنار ہوگیا اور وہ آصف کی طرف رخ کرکے بولیں۔ " Yes Asif! you should have said this"
(ہاں آصف! تمہیں یہ کہنا چاہیے تھا)۔
دبئی ہی میں، کوئی بیس برس قبل، اپنی پہلی ملاقات میں بی بی نے مجھ سے پوچھا تھا " پاکستان کا کیا حال ہے"۔ تین دن پہلے 27 دسمبر کی یخ بستہ شام، ڈرائنگ روم کے گوشے میں پڑے صوفے پر نیم دراز، میں جانے کس دنیا کو نکل گیا۔ یکایک جیسے سرخ گلابوں کے حاشیے میں جڑا ایک دریچہ سا کھلا۔ وہی گلنار چہرہ، وہی زندگی سے معمور دوشیزگی۔ بی بی کے ترشے ہوئے ہونٹوں میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔ "پاکستان کا کیا حال ہے؟"۔
میں نے ایک بے سرو پا سی کہانی سنا دی۔ آنکھ اٹھا کر بی بی کے چہرے کی طرف دیکھا۔ شفق کے رنگ پھیکے پڑنے لگے تھے۔ بڑی بڑی آنکھوں میں ساون رت کی نمی تیرنے لگی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے شہزادی کے ہونٹ کپکپائے۔ سمندر کی اتھاہ گہرائیوں سے سرگوشی نما، مدھم سی آواز ابھری۔ " میرے قاتلوں کا کیا بنا؟" میرا سر منوں بوجھ سے آپ ہی آپ جھکتا چلا گیا۔ دیر بعد گردن اٹھا کر دیکھا۔ سرخ گلابوں میں جڑا دریچہ خالی پڑا تھا۔