پاکستان کے غریب اور پسماندہ عوام کو "حقیقی آزادی" اور "جمہوری حقوق" دلوانے ان دنوں کچھ لوگ امریکہ میں پناہ گزین ہوئے سوشل میڈیا کے محاذ پر جارحانہ پیش قدمیوں میں مصروف ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں سلمان احمد نامی ایک شخص بھی شامل ہے۔ خود کو وہ "صوفی" قرار دیتا ہے۔ سنا ہے جوانی میں کسی بینڈ میں بھی شامل تھا جس نے بڑے غلام علی خان، پٹیالہ گھرانے کے استاد امانت علی وفتح علی خان کے علاوہ شام چوراسی کے گھرانے کی متعارف کردہ روایات کے ہوتے ہوئے بھی ہم "اجڈ" لوگوں کو "جدید موسیقی" سے روشناس کروانے کی کوشش کی تھی۔
دیسی کو انگریزی کے ساتھ ملانے کے اس عمل کو "فیوژن" پکارا گیا۔ اس کی بدولت بلھے شاہ جیسے نادرِ روزگار صوفی شاعروں کو جس انداز میں ذبح کیا گیا وہ اپنی جگہ ایک دلخراش داستان ہے۔ "جذبہ اور جنون" کی یہ علامتیں مگر ہمارے متوسط طبقے کے "کاٹھے انگریزوں" کو بہت بھائیں۔ قومی سلامتی کے بارے میں متفکر چند ادارے بھی ان کے فن سے قوم میں جذبہ حب الوطنی اجاگر کرنے کو مجبور ہوئے۔ دوکان کھل گئی۔ سودا مگر اس کا ریاضتوں کے بغیرتیار ہوا تھا۔ اسی لئے زیادہ دنوں تک چل نہ پائی۔
سلمان احمد مگر بے سُرے گویے سے "صوفی" ہونے کے بعد پوری قوم میں جنون پھیلانے کے لئے تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ اس جماعت کے لئے موصوف نے کیا خدمات سرانجام دیں ان کی خبر مجھ بدنصیب تک پہنچ نہیں پائی ہے۔ اپریل 2022ء میں عمران حکومت کی تحریک عدم اعتماد کے ہاتھوں فراغت کے بعد مگر یہ "صوفی" انقلابی ہوگیا۔ شاہ حسین جیسے ملامتی کی طرح اپنے ہی وطن میں رہتے ہوئے گلیوں میں دھمال ڈالنے کی مگر ہمت نہ ہوئی۔ نہ ہی بلھے شاہ کی طرح برسرعام ناچتے ہوئے "یار" منانے کی جرات نصیب ہوئی۔ موقعہ ملتے ہی پاکستان چھوڑ کر سات سمندر پار چلے گئے۔ اب وہاں مقیم ہوئے سوشل میڈیا پر دندناتے ہیں۔ پاکستان کو غلاموں کا ملک قرار دیتے ہوئے ہم جیسے ملنگوں کو آقائوں کا نمک خوار ہونے کے طعنے دیتے ہیں۔ ربّ کریم انہیں شاد رکھے۔
ان دنوں موصوف بہت خوش ہیں۔ ایلون مسک کے خریدے ٹویٹر پر جسے اب Xکہا جاتا ہے یہ دعویٰ کردیا ہے کہ انہیں امریکہ کے نو منتخب صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت ملی ہے۔ یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس تقریب کے لئے چینی صدر کو مدعو کرنا چاہ رہے تھے حالانکہ امریکی تاریخ میں کسی صدر کی تقریبِ حلف برداری میں کسی غیر ملکی کو کبھی شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔ ٹرمپ مگر روایت شکن آدمی ہے۔ چینی صدر کو مدعو کرلیا اور اپنی جانب سے بھیجی دعوت کی تصدیق بھی نیویارک سٹاک ایکس چینج کی ایک تقریب کے دوران فراہم کردی۔ چینی صدر نے مگر شریک ہونے سے معذوری کا پیغام بھجوادیا۔ غالباََ چینی صدر کی معذرت سے ٹرمپ کا دل ٹوٹ گیا ہوگا۔ اسی لئے دُکھ کی گھڑی میں دورِ حاضر کے "تان سین" یعنی لگڑبگے صوفی سلمان احمد کو مدعو کرلیا۔ امریکی صدر کا حلف اٹھالینے کے بعد وہ ہمارے "صوفی" سے شاہ حسین کی "درد وچھوڑے دا حال" والی کافی سننے کی فرمائش بھی کرسکتے ہیں۔
وہ فرمائش کریں یا نہیں "حقیقی آزادی" کا یہ علم بردار گلے میں ڈھول ڈالے دنیا کو بتائے چلے جارہا ہے کہ اسے ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں مدعو کیا گیا ہے۔ اس نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ مذکورہ تقریب میں شرکت کے دوران وہ ایک سیلفی بھی بنائے گا۔ ہوسکتا ہے یہ سیلفی وہ نئے امریکی صدر کے ساتھ بنوائے۔ وہ سیلفی بن گئی تو نجانے کون طے کرے گا کہ وہ کس کے لئے باعث فخر ہے۔ ہمارے "صوفی" کے لئے یا دنیا کی واحد سپرطاقت کہلواتے ملک کے نو منتخب صدر کے لئے۔
ہمارے ہاں سے مفرور ہوئے "صوفی" کی امریکی صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کا پتہ یوں چلا کہ گزرے ہفتے کے آخری تین دن میں نہایت توجہ سے امریکہ میں مقیم "انقلابیوں" کی سوشل میڈیا کے لئے اختیار کردہ حکمت عملی کا مشاہدہ کرتا رہا ہوں۔ چند ایک سے دل بہلانے کو جان بوجھ کر پنگا بھی لیتا رہا۔ وجہ اس کی بنیادی طورپر رچرڈ گرنیل ہے۔ اس ریٹائرڈ کرنل کو ٹرمپ نے اپنا خصوصی سفیر تعینات کیا ہے۔ موصوف کی تعیناتی کا اعلان کرتے ہوئے نو منتخب صدر نے دو ملکوں کا خصوصاََ ذکر کیا- وینزویلا اور شمالی کوریا- ان ممالک کے ساتھ امریکہ کیسے ڈیل کرے اسے طے کرنے کی ذمہ داری گرنیل کے سپرد کردی۔
امریکہ میں قیام پذیر ہوکر پاکستان میں "حقیقی آزادی" کے خواہاں مگر یہ فرض کربیٹھے ہیں کہ نو منتخب امریکی صدر نے گرنیل کو پاکستان "ٹھیک" کرنے کا فرض بھی سونپا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ موصوف اکثر عمران خان کی رہائی کے لئے بیان وغیرہ دیتے رہتے ہیں۔ جب سے ان کی نامزدگی ہوئی ہے تقریباََ جنون کے عالم میں "عمران خان کو رہا کرو" والا پیغام Xپر دہرائے چلے جارہے ہیں۔ ان کے بارے میں منفی بات لکھو تو پاکستان اور امریکہ کے درمیان وقت کا طویل فرق ہونے کے باوجود ترنت جواب دیتے ہیں۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ گویا گرنیل صاحب ایک لمحے کو بھی نہیں سوتے۔
دن کے 24گھنٹے عمران خان کی رہائی کے بارے میں سوچتے اور متحرک رہتے ہیں۔ ایسا مشینی مداح تو خان صاحب کو پاکستانیوں میں سے بھی نصیب نہیں ہواہوگا۔ ان کے ہوتے ہوئے بانی تحریک انصاف کی زندگی میں آسانی اور راحت آجائے تو ذاتی طورپر مجھے خوشی ہوگی۔ ان کی سیاست کے بارے میں ہزاروں تحفظات کے باوجود اس حقیقت کو جھٹلانہیں سکتا کہ ان دنوں وہ پاکستان کے مقبول ترین سیاستدان ہیں۔ جیل مگر جیل ہوتی ہے اس سے رہائی مل جائے تو مزید مقبول ہوجائیں گے۔ شاید رہا ہونے کے چند ماہ بعد وزارت عظمیٰ کے منصب پر دو تہائی اکثریت کے ساتھ لوٹ آئیں اور پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں۔
خان صاحب کی سیاست کے بارے میں اپنے تحفظات کے باوجود ان کے لئے بھلے اور خیر کی دُعا مانگتا ہوں۔ ان کے امریکہ میں مقیم حامیوں کا رویہ مگر یہ سوچنے کو مجبور کررہا ہے کہ وہ بانی تحریک انصاف کی زندگی آسان بنانے کے بجائے ان کے لئے مزید مشکلات کے انبار کھڑا کررہے ہیں۔ اس حقیقت کو فی الحال سمجھانا مگر ناممکن ہے۔ ٹرمپ کی حلف برداری کا انتظار کرلیتے ہیں۔ شاید اس میں شرکت کے بعد وہاں مقیم دو نمبر کا "صوفی" اپنے ہاتھ میں ان کی رہائی کا پروانہ لے کر وائٹ ہائوس سے لوٹے۔ وہ پروانہ بھی لیکن اڈیالہ جیل راولپنڈی سے رہائی کی "روبکار" کی صورت کیسے اختیار کرے گا؟ اس سوال کا جواب فی الوقت میرے کند ذہن میں آ نہیں رہا۔