مومن کا دل عشقِ رسول ﷺمیں سرشار ہونا لازمی امر ہے اور یہ محبت تمام دنیاوی و مادی نسبتوں اور نعمتوں سے بڑھ کر ہے، نبی اکرمﷺ نے فرمایا تھا کہ "تم سے کوئی کمالِ ایمان کو اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جائوں"۔
یہ بات آیاتِ قرآنی و احادیث میں بار بار بتائی جا چکی کہ رسول اللہ ﷺ سے محبت کے بغیر ایمان کی تکمیل ممکن ہی نہیں، آپ سے محبت بھی ایسی کہ دنیا ایک طرف اور عشقِ رسول ﷺ ایک طرف۔ سوال یہ ہے کہ ہماری محبت اورعشق کیسا ہے، عملی یا زبانی کلامی؟ عاشقِ رسول بننا اور عاشق ہونے کے نعرے لگانا، دو الگ رویے ہیں، ان دونوں رویوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
صرف زبانی دعوے اور محض لسانی اقرار سے کام چلتا ہوتا تو عہدِ نبوت ﷺ سے آج تک کوئی منافق اور کافر نہ ہوتا، ہر دور میں ایسے لوگ موجود رہے جو عشقِ رسول کے زبانی دعوے دار تو رہے، عملی سطح پر صفر تھے، ایسے لوگوں کو منافق کہا گیا کیوں کہ وہ خدا اور رسولﷺ کو دھوکہ دینا چاہتے تھے لہٰذاعمل ہی واحد پیمانہ ہے جو صادق و منافق اور مواحد و مشرک کے درمیان لکیر کھینچتا ہے، یہ لکیر کیسی ہے؟ اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
ربیع الاول کا مہینہ آتے ہی ہم گھروں اور گلیوں محلوں میں چراغاں کرتے ہیں، لنگر کا بھی انتظام ہوتا ہے اور جلسوں کے لیے سبیلوں کا بھی، اب تو ریت کے فرضی ٹیلے اور پہاڑیاں بنانے کی رسم بھی چل نکلی، بچوں کو عربی لباس پہنا کر تلواریں بھی پکڑائی جاتی ہیں، ایک فرضی جنگ بھی لڑی جاتی ہے، روضہ رسولﷺ کی شبیہ بنا کر اس کی نمائش بھی شروع ہو چکی، کچھ علمی یتیم تو نماز بھی شرع کروا چکے، غرض یہ کہ اپنے اپنے انداز میں نبی ﷺسے محبت کے دعوے داروں نے عشق کی تفہیم کی اور اس پر عمل کرنے لگے۔
اس سب کے باوجود راقم کا سوال یہی ہے کہ ہماری زندگیوں میں اتباعِ رسولﷺ کہاں ہے؟ میں صبح سے شام تک حقوق العباد اور حقوق اللہ کی خلاف ورزی کروں، خدا کے بندوں کو ذلیل و رسوا کروں، جھوٹ بولوں اور کم تولوں، حق ماروں اور کرپشن کروں، اپنے فرائض سے کنارہ کروں، والدین کے حقوق پورے نہ کروں، اپنے ماتحت لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا دوں، اپنی کرسی اور اقتدار کے لیے کمزور طبقے کا استحصال کرتا رہوں اس سب کے باوجود "غلامیِ رسول میں موت بھی قبول ہے"کا نعرہ لگاتا رہوں، کیا اسے عشق کہنا چاہیے؟
اہلِ عقل کے نزدیک عشق کا دعویٰ اور محبت کی باتیں اگر عمل و اطاعت سے خالی ہوں تو بالکل ناقابلِ قبول ہیں، محبت و مودت کے ساتھ اگر فرماں برداری اور اتباع کی چاشنی مل جائے تو کارگر ثابت ہوتی ہے، ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ عشق رسول ﷺ یہ ہے کہ پیغمبرِ اسلام کی تعلیمات کو من و عن تسلیم جائے، ان میں کمی یا زیادتی سے گریز کیا جائے کیوں کہ دین صرف وہی ہے جو ہمارے نبی ﷺ کی زندگی میں مکمل ہو چکا۔
ہمیں اپنے نبی ﷺ کی شریعت کو دنیامیں نافذ کرنا ہے مگر صد حیف کہ ہم شریعت کے نفاذ کی بجائے شریعت سازی، میں لگ گئے، 'جس رسول ۖ کی بعثت زمینی خدائوں کی بنائی ہوئی فرسودہ اقدار و رسومات کے قلع قمع کرنے کے لیے ہوئی تھی'آج اسی کی محبت کے نام پر درجنوں من گھڑت رسومات کو فروغ دیا جانے لگا، کاش ہم عشق کی بات کرتے ہوئے اس کی لفظی معنویت سے بھی واقف ہوتے، عشق ایسا والہانہ جذبہ ہے جو انسان کو دوسرے لوگوں اور اقوام سے ممتاز کرتا ہے، جب یہ جذبہ نبی کریمﷺ کے لیے ہو تو انسان بناوٹ، عیاری، لالچ، جھوٹ اور نمود و نمائش سے ماورا ہو جاتا ہے۔
عشق تو آپ سے تقاضا کرتا ہے کہ آپ خود کو معشوق کی ہستی میں گم کر دیں، اس کے بن جائیں، اس کی آواز پر لبیک کہیں، اس کی تعلیمات پر سرتسلیم خم کریں۔ نبی کریم ﷺ کی ہستی بحرِ ذخار کی مانند ہے جس کی موجیں آسمان کو چھوتی ہیں، جس کی تعلیمات محبت، اخوت، مساوات ار رواداری کا درس دیتی ہیں۔
پیغمبرآخر الزمانﷺ کی ہستی جس نے عالم انسانیت کو حیات نو کا درس دیا اور دنیاوی خدائوں اور ان کی فرسودہ اور من گھڑت رسومات کا قلع قمع کیا۔ ایسی ہستی سے محبت کو صرف دعووں تک محدود کرنا کس قدر افسوس ناک رویہ ہے، آپﷺ کی عظمت کو دل میں بسانا، آپﷺ کے عشق میں سر مست رہنا، ہمارے ایمان کی بنیاد ہے، ہمیں اس بنیاد کو مضبوط کرنا ہوگا، ہمیں عشق رسولﷺ کے لیے کسی بھی شارٹ کٹ، کی بجائے اتباع کا راستہ چننا ہوگا تاکہ ہم دنیائے عالم کو بتا سکیں کہ سچا مسلمان کیسا ہوتا ہے، ہمیں ظاہری نمود و نمائش اور زبانی دعووں سے آگے نکل عملی سیرت کو اپنانا ہوگا اور یہی وہ عشق ہے جو صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں نظر آتا تھا۔
ہمیں اپنے رویوں کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا اور عشق کے معانی بدلنے ہوں گے، ہمیں اس بارے میں بھی سوچ بچار کرنا ہوگی کہ اگر ہماری نئی نسل نبی کریم ﷺ سے محبت میں اس قدر پیچھے رہ گئی ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟ حالانکہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ربیع الاول اس قدر جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، جہاں ربیع الاول کا پورا مہینہ مذہبی اجتماعات جاری رہتے ہیں، اس کے باوجود نئی نسل عشقِ رسولﷺ میں زبانی دعوو ں سے آگے نہیں بڑھ سکی، آخر کہاں پر کمی ہے جس کی وجہ سے ہم اس قوم کو عملی محبت کی طرف نہیں لا سکے؟
ہمارے علمائے کرام، اساتذہ کرام اور مذہبی اسکالرز کو اس پریشان کن صورت حال کے بارے حکمت عملی طے کرنی ہوگی تاکہ ہم اسلاموفوبیا میں گھرے ممالک کو اسلام کی اصل روح اور تفہیم بتا اور دکھا سکیں۔ علمائے کرام اور دانشوروں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ حضور ﷺ کی سیرت پاک کے عملی پہلوئوں کو نمایاں کریں، آپ ﷺ کی سیرت طیبہ قیامت تک کے لئے انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ کے اسوۂ حسنہ کو انسانیت کا رہنمابنا دیا ہے لہذا دنیا و آخرت کی کامیابی کا انحصار صرف اور صرف آپکے بتائے ہوئے قول فعل اور عمل پر عمل پیرا ہونے میں رکھ دیا گیا ہے۔