امریکہ کی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ایلس ویلز نے گزشتہ ماہ پاکستان کا دورہ کیا۔ میری ان سے پاک بھارت تعلقات، چین پاکستان اقتصادی راہداری، افغانستان اور پاک امریکہ تعلقات کے امکانات کے متعلق غیررسمی گفتگو ہوئی۔ میں یہاں اپنے تاثرات اور انہیں اپنی طرف سے پیش کردہ کچھ تجاویز کا ذکر کروں گا۔ یوں محسوس ہوا جیسے امریکہ مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے کیلئے پاکستان اور بھارت کی حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ دونوں ممالک پر زور دیتا رہا کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کریں جو کشیدگی میں اضافہ اور دوطرفہ فضا میں مزید بگاڑ کا باعث بنے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر دونوں ممالک میں ثالثی کرانے کی پیش کش بھی جہاں ایک طرف بھارت کو مذاکرات کی طرف دھکیلنے کی امریکی حکمت عملی ہے تو دوسری طرف افغانستان میں پاکستان کے تعاون کو یقینی بنانا بھی ہے۔ میں نے ایلس ویلز کو بتایا کہ میں موجودہ صورتحال میں پاکستان کو بھارت سے مذاکرات شروع کرتے نہیں دیکھ رہا۔ وزیراعظم عمران خان نے مسئلہ کشمیر پر ایک اصولی موقف اپنایا ہوا ہے۔
اسلام آباد کیلئے بھارت کے 5 اگست 2019ءکے اقدام کو تسلیم کرنا ناممکن ہے جس کے ذریعے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے دو یونین علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ میں نے واضح کیا کہ اسلام آباد کے نزدیک اگر دونوں ممالک نے ایک اور تعطل کا ہی سامنا کرنا ہے تو پھر نئی دہلی سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بھارت سے بے فائدہ دو طرفہ مذاکرات بشمول بیک چینل ڈپلومیسی کا مطلب یہ ہو گا کہ بھارت کے غیرآئینی اقدامات کو پاکستان جائز قرار دے رہا ہے۔ اس سے بھارت کی مزید ہمت افزائی ہو گی کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں اپنے سفاکانہ اقدامات جاری رکھے۔
میں نے مزید کہا کہ اب مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی ثالثی ناگزیر ہو چکی ہے اور اس کام کے لیے اقوام متحدہ موزوں ترین ہے بشرطیکہ اس کے سیکرٹری جنرل کو سلامتی کونسل اس امر کا مناسب اختیار تفویض کر دے۔ علاوہ ازیں امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی اس ضمن میں پس پردہ رہ کر کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ کھلے عام ثالثی کروانے سے اس بات کا امکان رہے گا کہ کسی سنجیدہ پیش رفت سے پہلے ہی یہ عمل تعطل کا شکار ہو جائے۔ ثالثی کا کچھ تجربہ رکھنے والے ممالک مثلاً ناروے بھی اس کام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاہم ضروری ہے کہ منطقی انجام تک پہنچنے سے قبل اس سارے عمل کو صیغہ راز میں رکھا جائے۔ بظاہر مس ایلس ویلز بھارت کی طرف سے ثالثی یا مقبوضہ کشمیر میں پہلے والے سٹیٹس کو بحال کرنے پر اتفاق کرنے کے بارے غیر یقینی کا شکار دکھائی دیں۔ تاہم میں نے زور دیا کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا تب تک یہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان اور بھارت کبھی باہمی ہم آہنگی سے زندگی گزار سکیں۔ میں نے مزید کہا کہ امریکہ سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن قائم رکھنے میں دلچسپی لے گا۔ مزید یہ کہ وہ نہیں چاہے گا کہ ان دونوں ہمسایوں میں مستقل طور پر کشیدگی برقرار رہے۔
جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے، امریکہ پاکستان پر دباﺅ ڈال رہا ہے کہ وہ طالبان کو جنگ بندی، بین الافغان مذاکرات اور بالآخر تصفیے پر رضامند کرے۔ امریکہ افغانستان اور اس کے بیش بہا قدرتی وسائل کو چین اور روس کیلئے چھوڑ کر جانا پسند نہیں کرے گا۔ امریکہ کی جانب سے افغانستان کو ناقابل مدافعت حالت میں چھوڑ جانا بھی قرین قیاس نہیں ہے۔ افغان حکومت اور بھارت تو اس خیال کے بطور خاص مخالف ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کچھ اندرونی اور بیرونی عناصر افغانستان میں عدم استحکام جاری رہنے کو ترجیح دیں گے کیونکہ موجودہ صورتحال ان کے فوری اور طویل المیعاد مفادات کے لیے سازگار ہے۔
پاکستان کی کچھ اپنی مجبوریاں ہیں اور امریکہ کو چاہئے کہ ان کا ادراک کرے۔ پاکستان کا طالبان پر کچھ اثرورسوخ تو ہو سکتا ہے لیکن وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ طالبان کو ایسی شرائط قبول کرنے پر مجبور کر سکے جو افغان حکومت میں انہیں ثانوی حیثیت حاصل ہونے پر منتج ہو۔ طالبان ایک نظریاتی تحریک ہے اور اگر ایسی تحریکیں اپنی غایتِ وجود کے بنیادی اصولوں پر مصالحت کر لیں تو اپنی اہمیت کھو بیٹھتی ہیں۔ چنانچہ افغانستان میں قیام امن کے اگر کوئی امکانات ہیں تو بہت کمزور ہیں خاص طور پر اس صورتحال میں جب امریکہ میں یہ انتخابات کا سال ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے معاملے پر ایلس ویلز کی سوچ یہ تھی کہ پاکستان پر پڑنے والے دباﺅ کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور اس نے بتدریج دہشت گردی کو مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے اپنے قوانین پر موثر طریقے سے عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس نے اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان اس سمت ضروری اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے گا کیونکہ امریکہ کی بڑی خواہش ہے کہ پاکستان جلد از جلد گرے لسٹ سے باہر آ جائے۔
ہم نے مختصراً پاکستان میں ممبئی حملوں کے مقدمے پر بھی بات کی۔ میں نے انہیں آگاہ کیا کہ نئی دہلی میں اپنی تعیناتی کے دوران میں یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا کہ بھارت اس مقدمے کے جلد خاتمے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا کیونکہ اس کی بنیاد پر اسے پاکستان پر دہشت گردی کی معاونت کا الزام لگانے کا موقع ملتا رہے گا۔ لہٰذا عمومی طور پر بھارت نے گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے اور ٹھوس ثبوت مہیا کرنے کے حوالے سے تعاون کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں، میں نے ایلیاس ڈیوڈسن کی کتاب بعنوان "The Betrayal of India" کا حوالہ بھی دیا جس میں اس نے 26 نومبر کو ممبئی میں ہونے والے حملوں کے واقعہ کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے بھارت کے کردار پر بہت سے سوالات اٹھائے ہیں۔ میں نے کہا کہ سمجھوتہ ایکسپریس کے سانحہ جس میں 42 پاکستانیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا، کے تمام ملزمان کو بری کر دینے کے عمل سے حالات کی بہتری میں کوئی مدد نہیں ملی۔ حیرت کی بات ہے کہ امریکہ نے اس معاملے پر چپ سادھے رکھی۔
جہاں تک چین پاکستان تعلقات کی بات ہے، امریکہ خصوصاً چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے واضح طور پر بے چینی محسوس کرتا ہے۔ سی پیک، بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہے اور چین کے صدر شی جن پنگ کے وژن کے مطابق موخر الذکر آنے والے سالوں میں چین کی بالادستی کیلئے ناگزیر حیثیت کا حامل ہے۔ چنانچہ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کیوں امریکہ سی پیک پر تسلسل کے ساتھ تنقید کرتا رہتا ہے اور اسے پاکستان کے طویل المیعاد اقتصادی مفادات سے متصادم قرار دیتا ہے۔ پاکستان کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ محتاط رہے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے پاس بھی سری لنکا کی طرح کوئی آپشن باقی نہ رہے جسے اپنی ہمبن ٹوٹا بندرگاہ کے حوالے سے بادل نخواستہ سمجھوتہ کرنا پڑا ہے۔
یہ کہنے کی چنداں حاجت نہیں کہ پاکستان سی پیک کو ایک گیم چینجر کے طور پر دیکھتا ہے جس کی بدولت اس کے دن پھر جائیں گے۔ اس کی تکمیل سے نہ صرف پاکستان کو اس خطے میں ایک معاشی مرکز کی حیثیت حاصل ہو جائے گی بلکہ وہ چین کی عالمی معاشی طاقت بننے کی جدوجہد میں ایک محور کا کردار ادا کرے گا۔ مزید برآں اسلام آباد میں امریکہ کے برعکس چین کو ایک قابل اعتماد تزویری اتحادی کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو مشکل حالات میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔
اس خطے اور پوری دنیا کے جغرافیائی تزویری اور جغرافیائی معاشی حقائق کے پیش نظر کوئی گنجائش دکھائی نہیں دیتی کہ پاکستان کبھی بھی امریکہ کا تزویری اتحادی بن سکے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دونوں ممالک جہاں کہیں ان کے مفادات میں یکسانیت پائی جائے، باہمی طور پر فائدہ مند تعلقات قائم نہ کر سکیں۔ پاکستان کیلئے یہ یا وہ کی کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔ اسے اپنی موجودہ مشکلات پر قابو پانے کی خاطر چین اور امریکہ دونوں کی ضرورت ہے۔
ایک سپر پاور کی حیثیت سے امریکہ کو پاکستان کو لاحق چیلنجز کا ادراک کرنا چاہئے۔ اسے اس خطے میں اپنی کچھ پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر امریکہ نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کے لیے پاکستان کی حمایت کرتا ہے تو اس کی بدولت باہمی اعتماد قائم کرنے کے عمل پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکہ کے لیے یہ بہت اچھا موقع ہے کہ وہ ماضی کو بھول کر ایک نئی شروعات کرے۔