لکھنا تو میں کسی اور موضوع پر چاہ رہا تھا لیکن صبح سویرے گائوں سے آنیوالے ایک ٹیلیفون کے ذریعے میرے ایک عزیز نے وادیٔ سون میں بہار کی رنگینیوں کا جو نقشہ کھینچا، اس کو سن کر لاشعوری طور پر میں گائوں پہنچ گیا اور اب گائوں سے اپنے قارئین سے مخاطب اور گزارش کر رہا ہوں کہ وہ میرا یہ کالم برداشت کر لیں۔ جنہوں نے پہاڑوں پر موسلا دھار بارش دیکھی ہے اور اس بارش کے بعد ندی نالوں کا شور سنا ہے۔
بارش کے ریلے میں بہتے ہوئے پتھروں کا آپس میں ٹکرائو اور ٹوٹ پھوٹ اور بارش تھم جانے کے بعد جنگلی پرندوں اور ہرنوں کا رقص دیکھا ہے، وہ گونج سنی ہے جو پرندوں کے چہچہانے اور پروں کے پھڑ پھڑانے سے پیداہوتی ہے۔ راتوں کو درختوں کی شاخوں پر آرام لینے والے پرندوں کی وہ ہلکی ہلکی آوازیں سنی ہیں کہ جب ہوا کے کسی تند جھونکے سے شاخیں ہلتی ہیں تو پرندوں کو بے چین کر دیتی ہیں، کیا صبح کے دھندلکے میں قریب کے درختوں پر رات بسر کر کے جاگنے والے پرندوں کی آوازوں سے آپکی آنکھ کھلی ہے۔
کیا آپ نے چکوروں اور تیتروں کو گھاس کے پتوں پرسے بارش کے قطرے چنتے دیکھا ہے، کیا آپ نے کبھی ہرنیوں کی آنکھوں میں کسی ڈر سے پیدا والی وحشت دیکھی ہے۔ کیا آپ نے کبھی ہرن کے بچے کو کھیلتے دیکھ کر اس کی ماں کی چشم غزال میں مسکراہٹ دیکھی ہے اور کیا آپ نے یکم بیساکھ کو جب ہرنیاں بچے پیدا کرتی ہیں اور کوئی چرواہا اس سے پہلے کہ یہ بچہ ماں کا دودھ پی کر انسانی گرفت سے محفوظ ہو جائے اسے پکڑتے اور ماں کو پتھروں سے سر ٹکراتے دیکھا ہے، کیا آپ نے کبھی کسی بھیڑیئے کو بھیڑ کی دم چبا چبا کر کھاتے اور مردہ بھیڑ کی آنکھوں میں بے کسی اور اس کی ممیاہٹ میں فریاد سنی ہے، کیا آپ نے کبھی کسی چرواہے کی بانسری سنی ہے جس کی آواز پہاڑوں میں گونج پیدا کردیتی ہے، وہی بانسری جس کی مدح میں تصوف کی سب سے بلند مثنوی کا آغاز ہوتا ہے…
بشنواز نے چوں حکایت می کند
وز جدائی ہا شکایت می کند
مولانا روم نے چرواہوں کی اس پرانے ساز کو ابدی زندگی دی ہے۔ یہ صوفی بھی کیا لوگ تھے، حضرت امیر خسرو نے ہند کے سب سے بڑے ساز ستار کو ایجاد کیا اس کے تار تاا بد جادو جگاتے رہیں گے۔
بات وادیٔ سون کے چرواہے کی ہورہی تھی جسے مولانا روم کی کچھ خبر نہیں مگر وہ انھی کے قبیلے کا فرد ہے اور اسی بے خبری میں سلسلہ مولودیہ کا پیروکار ہے لیکن رقص نہیں کرتا صرف ماہیا کی دھن بجاتا ہے اور مست ہو جاتا ہے، اسے کون بتائے اور سمجھائے کی اس کی بانسری نے تصوف کی دنیا ہی بدل دی ہے اور مدر سے کے ایک فاضل استاد اور مولوی کو شاعر اور رقاص بنا دیا ہے۔ آج دنیا میں سب سے زیادہ کام مولانا روم کی شاعری پر ہورہا ہے مگر یہ چرواہا کچھ نہیں جانتا اس کی یہ بے خبری کتنی دلکش ہے اور دلچسپ ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ انسان نے کھڑے ہونا اور دو قدم چلنا اسی وادی کے قرب و جوار میں سیکھا تھا۔ کوہستان نمک تہذیب اور قدیم تمدن کا گہوارا رہا ہے، انسان کے قدیم ترین آثار اسی وادی میں ملے ہیں۔ ان پہاڑوں کی ترائیوں اور نیلی جھیلوں کے آس پاس وادیٔ سون کی ان جھیلوں پر جو موتیوں کی طرح چمکتی ہیں جب روس اور وسطی ایشیاء کی مرغابیاں سردیاں بسر کرنے کے لیے یہاں ان کے نیلے پانیوں پر جھومتی ہوئی اترتی ہیں تو نیلگوں پانی پر ان کا سفید عکس تیرنے لگتا ہے۔
یہ مرغابیاں یہاں کی تینوں جھیلوں کی مہمان ہوتی ہیں اور سردی ختم ہوتے ہی کسی صبح کو اچانک اپنے وطن کو پرواز کر جاتی ہیں۔ میں نے ان روسی مہمانوں کو اترتے دیکھا ہے مگر ان کی واپسی نہیں دیکھی وہ چہکتے ہوئے آتے ہیں مگر نہایت خاموشی اور رازداری سے لوٹ جاتے ہیں۔ سردیاں وادیٔ سون میں بھی خوب پڑتی ہیں اور جھیلوں پر کہرے کی تہہ جم جاتی ہے مگر سائبیریا کے پانیوں کی طرح یہ منجمد نہیں ہوتیں، پرندے تیرتے رہتے ہیں۔
میرے گائوں اور ان جھیلوں کے بیچ میں پہاڑ حائل ہیں مگر فاصلہ چند کلومیٹر کا ہے۔ کچھ وقت پہلے تک ان جھیلوں پر نئے زمانے کی پرچھائیاں بھی نہیں پڑی تھیں مگر اب سنا ہے کہ محکمہ سیاحت والے یہاں بھی پہنچ گئے ہیں اور جیسی یہ کبھی تھیں اب ویسی نہیں رہیں۔ جدید زمانہ ان پر بھی اثرانداز ہو رہا ہے۔ بارشوں میں کمی بیشی کی وجہ سے ان جھیلوں کا پانی گھٹتا بڑھتا رہتا ہے، کنارے پھیلتے سکڑتے رہتے ہیں سوائے سردیوں میں پردیسی پرندوں کی آمد ورفت کے ان منظر میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، اب گرمیوں میں پنجاب سے لوگ وادیٔ سون کی سیاحت کو جاتے ہیں اور ان جھیلوں کے سحر میں گم ہو جاتے ہیں۔
پہاڑوں کی طرح یہ بھی خالص اور پوتر ہیں اور پہاڑوں کے بیچ میں جہاں کبھی اور بھی جھیلیں ہوں گی، مٹی کی تہوں نے کاشت کی جانے والی زمین بنا دی ہے جو پانچ چھ ایکڑ کی ملکیت والے ’جاگیرداروں، کے پاس ہے جس پر وادیٔ سون کے جفا کش اعوان محنت کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔