Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Meri Hasraton Ki Dilli, Mera Balda e Karachi

Meri Hasraton Ki Dilli, Mera Balda e Karachi

پاکستان بھر میں کراچی ہی اُردو گو، شہر مشہورہے۔ کوئی دلی والا کہتا تو یوں کہتا کہ "کراچی شہر اُردو گو شہر کہاتا، ہے میاں! "

میرؔ صاحب کہتے تھے:

شہروں ملکوں میں جو یہ میرؔ کہاتا ہے میاں
دیدنی ہے، پہ بہت کم نظر آتا ہے میاں

بے شک کراچی بھی اُردوکا میر، کہاتا ہے اور دیدنی بھی ہے، مگر اب کی بار ہم کراچی آئے تو دیکھا کہ اب یہ شہر اُردو بولتے ہوئے ہکلاتا ہے۔ روانی سے بول نہیں پاتا۔ بار بار اور بیچ بیچ میں انگریزی کے پچّر، لگاتا ہے۔ رُکتا ہے، ہکلاتا ہے، پھر انگریزی کے پچر لگاتا ہے۔ پھر آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر بلبلاتا ہے۔ بلبلانے کی وجہ شاید یہ ہو کہ اس شہر کا ہر دوسرا تیسرا شہری پان کھاتا یا گٹکا چباتا ہے، لہٰذا ہر دو کی پیک منہ میں لیے گُڑگُڑاتا جاتا ہے۔ آسماں کی سمت چہرہ کرکے گِڑگِڑانے سے کام نہ چلے اور پتا سمجھانے کے لیے پیک تھوکنا پڑے توپیک کے ساتھ ساتھ اُردو بھی تھوک بیٹھتا ہے۔ کہتا ہے:

"لیفٹ کو جا کر رائٹ کو مُڑ جاؤ"۔

اُردو اور اُردو گو، کی یہ حالت دیکھ کر ہمت نہیں پڑتی کہ جاتے جاتے پوچھ لیا جائے: "کیوں بھئی کیوں رائٹ کو مڑ جاؤ؟ بائیں کو جا کر دائیں مڑگئے تو کیا کہیں اور پہنچ جائیں گے؟"

اہلِ زبان کی بے زبانی کہاں تک جاپہنچی ہے، اس کا اندازہ خواتین کی زبان سن کر ہوتا ہے۔ اس شہر کی خواتین کی زبان سند سمجھی جاتی تھی۔ کتنی ہی خوش گو خواتین تھیں، جن کے ناموں کی فہرست بنائیے تو کالم تمام ہوجائے اور فہرست ناتمام رہ جائے۔ مگر اب خوبانِ کراچی بلکہ "خوبانیانِ کراچی" بھی اپنے بچوں سے کرخت آواز میں کہتی دکھائی اور سنائی دیتی ہیں کہ "وے کَپ، وے کَپ۔ گیٹ اَپ، سنی! گیٹ اپ۔ جاؤ ماؤتھ واش کرو۔ ہینڈ واش کرو۔ بیڈ سے باہرآؤ۔ بریک فاسٹ کرو"۔

یہی وہ شہر تھا جہاں بچپن میں ہم نے ماؤں کی مترنم زبانوں سے محبت بھری مدھر لوریاں اور جگوریاں سنی تھیں۔ آج بڑھاپے میں بھی حافظے کی وادیوں میں وہ سریلی صدائیں گونج رہی ہیں۔ مثلاً:

اُٹّھو بیٹا آنکھیں کھولو
بستر چھوڑو اور منہ دھو لو

بیبیو! ان الفاظ میں سے کون سا لفظ ایسا ہے جو آج ناقابلِ فہم ہوگیا ہے؟

کراچی کے کسی کوچے میں نکل جائیے۔ اب ہر کوچہ، بازار بن گیا ہے۔ بازار کی ہر دکان کا نام انگریزی میں ہے۔ گویا ہمارے ہاں انگریزی کو اب بازاری زبان، کا درجہ بھی دے دیا گیا ہے۔ کہیں کسی دکان کا نام اُردو میں لکھا نظر آیا تب بھی الفاظ انگریزی ہی کے نکلے۔ مثلاً "فلاں، بُک سیلرز"۔ ہمارے بچپن، بلکہ لڑکپن اور نوجوانی و جوانی تک یہ معزز لوگ اپنے آپ کو فخر سے "تاجرانِ کتب" لکھا کرتے تھے۔ اُس زمانے میں جو "بُک پبلشرز" ہوتے تھے، وہ "ناشرانِ کتب" کہلاتے تھے اور جو "بُک ٹریڈرز" تھے وہ "سوداگرانِ کتب"۔

آج چلتی سڑک کے دونوں طرف جتنی دکانیں نظر آتی ہیں اور اُن کے جتنے بورڈ دکھائی دیتے ہیں، اُن پر نظر پڑتی ہے تو گمان گزرتا ہے کہ غریبِ شہر کوئی خرچہ کیے بغیر کسی برطانوی بازار میں آنکلا ہے۔ ہر سودائی، کے سرمیں انگریزوں کی نقالی کا سودا سمایا ہوا ہے۔ یہ شہر، وہ شہر تو نہیں رہا، جو وطنِ عزیز پاکستان کا تہذیبی، ثقافتی، علمی، ادبی اور لسانی مرکز گردانا جاتا تھا۔ اب یہ ساری گردان اہلِ زبان کی گردن پر انگریزی زبان میں سواری گانٹھ رہی ہے۔ اُردو زبان اس سواری کو سر پر بٹھا کر Suffer کر رہی ہے۔ نہیں معلوم کہ اس کایا کلپ یا اِس قلب ماہیت سے بھلا کس کا بھلا ہو رہا ہے اورکیا بھلا ہو رہا ہے؟

ان حالات میں "قلب ماہیت" کی ترکیب استعمال کرنے والے کو شرمندہ ہونا چاہیے، سو ہم ہوئے۔ ماہیت، کسی شے کی حقیقت یا اصلیت کو کہتے ہیں۔ اُردو میں قلب، کے معنی کبھی دل لیے جاتے ہیں، کبھی دماغ اور کبھی روح۔ لیکن قلب، کے ایک معنی اُلٹ پلٹ جانے اور پلٹا کھا جانے کے بھی ہیں۔ یوں قلب ماہیت، کا مطلب ہوا اصلیت بدل جانایاحالت پِھر جانا۔ تقلب، کا مطلب ہے تبدیلی، اُتار چڑھاؤ، گردشِ زمانہ۔ زیر و زبر ہو جانا۔ جس شے میں تبدیلی آجائے وہ منقلب، ہو جاتی ہے۔ انقلاب، کے معنی تو سب ہی جانتے ہیں۔ اُلٹ پھیر کو کہتے ہیں۔ جو نیچے تھا وہ اوپر ہوگیا، جو اوپر تھا نیچے آ رہا۔ یعنی ایک حالت کی جگہ اُسی کی متضاد حالت آجانے کو انقلاب، کہتے ہیں۔ دَم بہ دَم منقلب ہیں زمین و زماں۔ یہ قانونِ قدرت ہے۔

ہر عروج کو پستی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے اور ہر کمال کو زوال آجاتا ہے۔ اس انقلاب کو تغیر بھی کہتے ہیں۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ قومی ثبات اور قومی غلبے کے لیے ہمارے قومی معاملات میں قومی زبان کا غلبہ ضروری ہے۔ آج اگر ہماری قومی زبان اُردو کو زیر کر دیا گیا ہے اور انگریزی کو زبر، تو یہ حالت ہمیشہ باقی رہنے کی نہیں۔ قوم کی حالت بہتر بنانے کی کوشش کرنے والوں کی جہدِ مسلسل سے صورتِ حال منقلب ہو جائے گی۔ ہمارے بچے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے لگیں گے اپنی زبان میں سوچنے، تحقیق کرنے اور ایجادات میں منہمک ہو جائیں گے۔ یعنی ہماری قومی زبان ہی تعلیم کی زبان ہوگی، عدالت کی زبان ہوگی، قانون سازی کی زبان ہوگی اور سرکاری معاملات و مراسلت کی زبان ہوگی۔ پھر یہی زبان ہمارے کوچہ و بازاز کی زبان بھی ہو جائے گی۔ ہماری تہذیب لوٹ آئے گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سدا انگریزی زبان ہی ہم پر مسلط رہے؟ رات کٹے گی۔ فیضؔ کہتے ہیں:

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں

گر آج اوج پہ ہے طالعِ رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں

اغیار کی خدائی ہمیشہ مسلط نہیں رہے گی۔ حالات بدلیں گے۔ یہ قانونِ قدرت ہے۔ ہم خود کوشش کریں تو جلد بدل جائیں گے۔ ورنہ ہر عروج کا زوال تو ہم آئے دن دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ہم اپنے قومی مفاد اور قومی منشا کے مطابق اپنے حالات خود بدلیں۔ بصورتِ دیگرکوئی اور آکر ہمارے حالات بدل جائے گا، مگر اپنے مفاد اور منشا کے مطابق۔ دنیا کی پچھلی حالت پر نظر کیجیے اور دیکھیے کہ "دم بہ دم منقلب ہیں زمین و زماں، یہ جہاں اور ہے"۔ دنیا بدلتی رہے گی۔ سو، انقلاب تو آئے گا۔ مگر اقبالؔ ہمیں اپنی دنیا آپ بدلنے اور ماضی کی مانندزندہ قوم بن کر انقلاب، برپا کرنے کا درس دیتے ہیں۔ کہتے ہیں:

جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روحِ اُمم کی حیات کشمکشِ انقلاب

کراچی کبھی انقلاب کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ اب نہیں رہا۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ ایک سبب یہ بھی ہے کہ کراچی سے تعلیم کی طاقت سلب ہوگئی۔ اس شہر میں ابتدائی جماعتوں سے لے کر ثانوی، وسطانوی اور اعلیٰ ترین جماعتوں تک ذریعہئی تعلیم اُردو تھا۔ جامعہ کراچی کے کلیہئی علوم اور کلیہئی فنون کے تمام شعبوں سے فارغ التحصیل ہونے والے پاکستان ہی میں نہیں دنیا بھر میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے تھے۔ مگر اب اس شہر کے شہریوں کا ہاتھ ملنے کے سوا کوئی مشغلہ نہیں رہا۔