Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Adalti Tareekh Ka Sab Se Bara Jurmana

Adalti Tareekh Ka Sab Se Bara Jurmana

Telhyan Copper Company (TCC) اور حکومت پاکستان کے مابین گزشتہ 8 سال سے جاری قانونی جنگ کا فیصلہ آگیا ہے۔ بین الاقوامی ثالثی ٹریبونل نے اپنا 700 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا ہے جس کے مطابق حکومت پاکستان کو ہرجانے، سود اور قانونی اخراجات کی مد میں TCC کو 950 ارب روپے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے پاکستان پر عائد کیا جانے والا یہ جرمانہ ٹریبونل کی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ ہے۔ رقم کی عدم ادائیگی پر حکومت پاکستان کے اثاثے ضبط کیے جانے کے امکانات بھی موجود ہیں۔

حکومت نے بین الاقوامی عدالت میں مختلف مراحل میں مختلف عالمی شہرت کے حامل وکلا اور لا فرمز کو اس مقدمے کی پیروی کے لیے نامزد کیا جنھیں بھاری فیسیں ادا کی گئیں۔ سابق برطانوی وزیر اعظم کی اہلیہ شیری بلیئرکو ایک ارب روپے، یو کے کی لا فرم کو ڈھائی ارب سے زیادہ جب کہ امریکن لائرزکو بھی ڈیڑھ ارب سے زائد پروفیشنل فیس کی مد میں ادا کیے گئے۔ اس سلسلے میں پاکستانی آفیشلز اور وکلا کے دوروں پر اٹھنے والے کثیر اخراجات ان کے علاوہ ہیں۔ اس لحاظ سے ریکوڈک منصوبہ پاکستان کے لیے معاشی آسودگی کے بجائے ایک بہت بڑا مالی دھچکا ثابت ہوا۔

وزارت قانون کے ذرایع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی لیگل ٹیم کمپنی کے 16 ارب ڈالر کے ہرجانے کے دعوے کو 6 ارب ڈالر تک لے آئی ہے جو اس کی بڑی کامیابی ہے، تاہم حکومت اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہے۔ فیصلے کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اسے چیلنج کیا جائے گا۔ جب کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا اختیار موجود نہیں ہے۔

عدالتی فیصلہ آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے بھاری جرمانہ اور دیگر نقصانات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا اعلان کردیا ہے جو معاملے کے ذمے داران کا تعین کرے گا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی تجویز کرے گا۔ یہ کمیشن 1993 سے جب کمپنی کو چاغی میں تانبے اور سونے کے ذخائرکی تلاش کی اجازت دی گئی تھی، آج تک کے معاملات کا جائزہ لے گا اور اس میں بھاری مالی نقصانات کا سبب بننے والے افراد کو شامل تفتیش کرے گا۔ اس سلسلے میں ان کا نام بھی لیا جا رہا ہے، جنھوں نے TCC کا لائسنس کالعدم قرار دیا تھا جس سے ایک نئی نظیر قائم ہوگی۔

کمیشن کے قیام کے اغراض و مقاصد اسی صورت میں حاصل ہوسکتے ہیں کہ اس میں دیانتدار، پیشہ ورانہ اہلیت کے حامل اور قومی مفادات کو مقدم رکھنے والے افراد کو شامل کیا جائے۔ کیونکہ بین الاقوامی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ تحریر کیا ہے کہ ریکوڈک منصوبے کے معاہدے کو تحلیل کرنے والے ججز بین الاقوامی قوانین سے نابلد تھے، ان کے پاس پیشہ ورانہ مہارت بھی نہیں تھی۔

بلوچستان کے ضلع چاغی میں عبوری وزیر اعظم معین قریشی اور وزیر اعلیٰ نصیر مینگل کے دور میں 1993 میں تانبے اور سونے کے ذخائرکی تلاش کی اجازت دی گئی تھی۔ TCC کے مطابق وہ ریکوڈک کے مقام پر اس منصوبے پر 22 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکی تھی جب کہ یہ منصوبہ 30 کروڑ ڈالر کی مالیت کا تھا۔ معاہدے کے مطابق حاصل شدہ آمدنی کا 75 فیصد حصہ کمپنی کا جب کہ 25 فیصد حکومت بلوچستان کا تھا کمپنی کو اپنی آمدنی پر وفاقی حکومت کو 35 فیصد ٹیکس ادا کرنے کا پابند بھی کیا گیا تھا۔

2011 میں کمپنی نے مائننگ لیز کے لیے درخواست دی جو بلوچستان حکومت نے مسترد کردی تھی۔ TCC اور حکومت بلوچستان کے درمیان اختلافات عروج پر پہنچ چکے تھے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے معاہدہ کالعدم قرار دیے جانے کے بعد یہ بات یقینی ہوچکی تھی کہ اگر تنازعہ حل نہ ہوا تو کمپنی معاملہ بین الاقوامی ثالثی عدالت میں لے جاسکتی ہے جو بالآخر درست ثابت ہوئی لیکن حکومت اور ارباب اقتدار و اختیار اس کا ادراک نہیں کرسکے، عدالت سے باہر بھی مصالحت کے دو موقع گنوا دیے گئے۔ حکومت پاکستان مقدمے پر اربوں روپے فیس ادا کرنے کے باوجود بھی اپنا دفاع کرنے میں ناکام رہی نتیجتاً 950 ارب روپے جرمانے کا بوجھ بھی ملک و قوم پر لاد دیا گیا۔ ریکوڈک سونے اور تانبے کے ذخائر کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ذخیرہ تھا جس سے اربوں ٹن تانبے کے علاوہ 131 ارب ڈالر کا سونا نکالا جانا تھا۔

جیولوجیکل سروے آف پاکستان نے 1993 میں چاغی کے مقام پر تانبے اور سونے کے ذخائر کا پتا چلایا تھا جن کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ یہ ذخائر پانچ سو سے ایک ہزار سال پرانے ہیں۔ بلوچستان اور ملک کے دیگر حصے معدنیات سے مالا مال ہیں جہاں غیر ملکی ماہرین اور سرمایہ کاروں کے اشتراک کے بغیرکسی منصوبے کو پایہ تکمیل کو پہنچانا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد کمپنیوں کے شیئرزکی قیمت میں توکئی فیصد اضافہ ہوگیا مگر غیر ملکی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد مزید خراب ہوگیا۔ جب کہ اس وقت پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں سے سرمایہ کاری کے معاہدے کرتے وقت انتہائی محتاط رہا جائے اور ملکی مفاد کو مقدم رکھا جائے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے جب معاہدہ کرلیا جائے۔ اس کی تمام شرائط پر عمل کیا جائے اور کروایا بھی جائے تاکہ سرمایہ کاروں اور عالمی برادری میں پاکستان پر اعتماد میں اضافہ ہو اور قومی مفادات کو بھی زک نہ پہنچے۔

اس منصوبے پر ابتدا ہی سے تنقید کی جا رہی تھی کہ حکومتی ارکان ملکی مفاد اونے پونے فروخت کر رہے ہیں لیکن فیصلے کے بعد سے تنقید کا سلسلہ بڑا وسیع ہوگیا ہے۔ کچھ شخصیات اور حکومت ہدف بہ تنقید بنے ہوئے ہیں الزام تراشیاں، نئی نئی منطقیں اور فارمولے پیش کیے جا رہے ہیں کوئی اسے یہودی سازش قرار دے رہا ہے، کوئی وکلا کی نااہلی سے تعبیر کر رہا ہے۔ ایک معروف اینکر نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ معاہدہ کالعدم قرار دینے کے جرم میں متعلقہ شخصیت سے بھی پوچھ گچھ کی جائے۔

قانون کی نظروں میں ایسے دھول نہیں جھونکی جاسکتی۔ ہمیں اپنا ذمے دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے کے اکثر مصائب و مسائل کی وجہ ہمارا انفرادی و اجتماعی طور پر غیر ذمے دارانہ رویہ ہے جب تک ہم حقیقت شناس اور ذمے دارانہ کردار کے حامل نہیں ہوں گے ہمارے مسائل بڑھیں گے کم نہیں ہوں گے۔