Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Awam Ke Dard Ka Darman

Awam Ke Dard Ka Darman

ایک خبر کے مطابق ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) نے ملک میں ادویات کا معیار بہتر بنانے اور ادویات کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے وزیر اعظم سے اپیل کی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ڈاکٹرزکو جینرک (Generic) سسٹم کے تحت نسخے لکھنے کا پابند بنایا جائے تاکہ ڈاکٹرز اور فارما سوٹیکلزکمپنیوں کے گٹھ جوڑکو ختم کیا جاسکے۔

ڈریپ نے فارما کمپنیوں کے بے قابو ہونے کے بعد وزیر اعظم کو ادویات کے معاملات میں دلچسپی لینے کے لیے خط لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ڈریپ نے وفاقی مشیر صحت، سیکریٹری صحت کو بارہا فارما کمپنیوں کی من مانیوں سے متعلق شکایات کیں لیکن انھوں نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ خط میں بتایا گیا ہے کہ گورنمنٹ سپلائی میں جو پروڈکٹ 100 روپے میں دی جاتی ہے وہی پروڈکٹ عام جنرل اسٹور پر 400 تا 500 روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔

اس فرق کو ختم کرکے عوام کو سستی ادویات فراہم کی جاسکتی ہیں۔ وزیر اعظم سے اس بات کا نوٹس لینے کی بھی درخواست کی گئی ہے کہ دوائی کی ایک پروڈکٹ ایک کمپنی 10 روپے میں تو دوسری کمپنی 30 روپے میں فروخت کرتی ہے اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ 30 روپے والی پروڈکٹ معیاری ہے اس لیے اس کی قیمت زیادہ ہے۔ اگر واقعی 10 روپے والی پروڈکٹ کا معیار صحیح نہیں ہے تو اس پر پابندی لگا کر انسانی جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ڈریپ نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ اس وقت ہربل کمپنیوں نے لوٹ مچا رکھی ہے۔

ان پر کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ 100 روپے والی دوائی یا سپلیمنٹ 1000 تا 1500 روپے تک میں فروخت ہو رہا ہے جن میں بیشتر ہربل بھی نہیں ہوتے۔ اس کے لیے پارلیمنٹ سے قانون سازی کرائی جائے تاکہ ان پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم ہو۔ فارما کمپنیوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنے برانڈ کے پروڈکٹ کے نام کے بجائے دوائی کا جینرک نام (سالٹ) کو زیادہ نمایاں لکھیں یہ قانون دنیا کے نوے فیصد ممالک میں رائج ہے۔

ڈاکٹرز اور فارما کمپنیوں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے ادویات بہت مہنگے داموں بیچی جا رہی ہیں اور بے جا استعمال کرائی جاتی ہیں۔ اس کی روک تھام کے لیے ڈاکٹرز کو پابند کیا جائے کہ وہ بیماری کی تشخیص کے بعد اپنے نسخوں میں دوائی کا جینرک نام لکھیں برانڈ یا پروڈکٹ کا نام نہ لکھیں اس سے ادویات کی قیمتوں میں واضح کمی آئے گی۔

پاکستان میں فارما کمپنیوں، لیبارٹریوں اور اسپتالوں اور ڈاکٹروں کی لوٹ مار سے شاید ہی کوئی خوش نصیب ہو جو متاثر نہ ہوا ہو۔ دیگر مہلک، موذی اور ناگہانی بیماریوں کے علاوہ آج کل بلڈ پریشر و شوگر جیسی بیماریاں تو عام ہوچکی ہیں ہر گھر میں اس کا ایک ادھ مریض ضرور ہوتا ہے۔ متوسط طبقے کے لیے اب یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ باآسانی ادویات، میڈیکل ٹیسٹ اور ڈاکٹروں کی فیسوں کے اخراجات برداشت کرسکے۔

اسپتالوں کے بے جا آپریشن ودیگر اخراجات، ڈاکٹروں کی جانب سے غیر ضروری لیبارٹری ٹیسٹ اور مخصوص ادویات کے استعمال کے مشورے، فارما کمپنیوں اور لیبارٹریز کی لوٹ مار نے شہریوں کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔ میڈیکل مافیا کے اس رویے کی وجہ سے ہی غریب و مفلوک الحال لوگ عطائیوں اور گنڈے تعویز کرنے والے ٹھگوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن ارباب اقتدار اور اختیار اس انسانی مسئلے سے مکمل طور پر صرف نظر کیے ہوئے ہیں۔

2007 میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان نے فارما کمپنیوں کی لوٹ مار پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں پانچ سو فیصد سے زائد منافع وصول کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر اپنے کمیشن کی خاطر مہنگی اور مخصوص کمپنیوں کی ادویات خریدنے پر اصرار کرتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے وزارت صحت کو ہدایت دی تھی کہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ اور مقامی مارکیٹ میں ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے تقابلی رپورٹ مرتب کرے تاکہ معلوم ہوسکے کہ ہمارے صارفین سے دوسرے ممالک کے صارفین کے مقابلے میں کس قدر زائد قیمتیں وصول کی جا رہی ہیں۔

لیکن حکومت کی جانب سے اب تک اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدامات یا قانون سازی کی گئی نہ ہی کوئی ایسی پالیسی مرتب کی گئی جس سے عوام کے درد کا درماں ہوسکے۔ پاکستان میں سالانہ کھربوں کے لگ بھگ ادویات کی خرید و فروخت ہوتی ہے جب کہ عالمی ادارے جعلی و غیر معیاری ادویات کی فروخت کے سلسلے میں پاکستان کا شمار عالمی رینکنگ میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر کرتے ہیں۔

گردوں کی خرید و فروخت کے سلسلے میں پاکستان فیوریٹ کڈنی ٹورکنٹری کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ جبر اور غربت و افلاس اور خوف کے مارے لوگ اپنے گردے فروخت کر رہے ہیں حتیٰ کہ ڈاکٹرز اور اسپتال گردہ چوری کرنے کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ قوت خرید نہ ہونے یا پھر جعلی و غیر معیاری ادویات کی فراہمی اور ادویات کو تبدیل کردیے جانے کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

حیران کن اور معنی خیز بات ہے کہ میڈیکل مافیا کے سامنے متعلقہ ادارے اور حکومت اتنی بے دست و پا یا خواب خرگوش کے مزے لوٹتے کیوں نظر آتی ہے؟ سرکاری اسپتالوں میں بد انتظامی، بدنظمی وکرپشن عروج پر نظر آتی ہے جو بجٹ یا ادویات و سہولتیں ہوتی ہیں وہ صرف سفارشی و با اثر افراد کو ہی میسر آتی ہیں یا خورد برد وکرپشن کی نذر ہوجاتی ہیں۔

آبادی کے تناسب سے اسپتالوں، ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی شدید کمی ہے۔ ایک تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹری کا پیشہ خواتین کے لیے ایک Dignity کی علامت بن چکا ہے۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی بھی طریقے سے اپنا سب کچھ قربان کرکے بیٹی کو ڈاکٹر بنادیا جائے تاکہ اس کو اچھا رشتہ میسر آجائے اور خاندان میں بھی واہ واہ ہوجائے جب کہ خواتین ڈاکٹر کی خاصی تعداد شادی کے بعد اس پیشے کو خیرباد کہہ دیتی ہے۔

اسی طرح بہت سے ڈاکٹرز سول سروسز کا رخ کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے ایک طرف عوام ان ڈاکٹرز کی سہولت سے محروم ہوجاتے ہیں دوسری جانب قوم کی جانب سے ان ڈاکٹروں پر خرچ کی گئی کثیر رقوم ضایع ہوجاتی ہے۔ نجی میڈیکل کالجز میں ایک ڈاکٹر کی پڑھائی پر کروڑ سے زائد کے اخراجات آتے ہیں ایک فطری عمل ہے کہ پروفیشنل زندگی میں وہ اس کا ریٹرن تو چاہے گا۔ سرکاری اسپتال میں جائے گا تو پرائیویٹ پریکٹس کرے گا کمرشلائز کلینک یا اسپتال کھولے گا یا ملک سے باہر چلا جائے گا یا پھر فارما کمپنیوں اور لیبارٹریز سے پیکیج اور کمیشن حاصل کرے گا۔

صحت، تعلیم و انصاف کے شعبے تمام دنیا میں کلیدی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ دستور پاکستان کے تحت حکومت کی آہنی ذمے داری قرار دیے گئے ہیں لیکن تینوں شعبے حکومتی ترجیحات میں شامل نظر نہیں آتے ہیں۔ صحت و انصاف میں تو ڈاکٹر گردی اور وکلا گردی کا رجحان پروان چڑھ چکا ہے۔

صحت کے شعبے میں پرائمری خواتین اساتذہ سے لے کر سینئر پروفیسرز تک اپنے شعبے میں تقرریوں، ترقیوں اور تعیناتیوں میں بدعنوانیوں اور تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے احتجاج کرنے کی جسارت کی پاداش میں جس طرح تشدد، لاٹھیوں اور واٹرکینن کی زد پر لیے جاتے ہیں اس پر شرم سے سر جھک جاتے ہیں۔

کیا ایک مہذب معاشرے میں استاد کا یہی مقام ہوتا ہے؟ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ حکومت تعلیم و صحت کے علاوہ فوری طور پر صحت کے شعبے میں در آئی خرابیوں اور اس کی اندوہناک کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے حقیقت پسندانہ اجمالی جائزہ لے کر ہنگامی اور انقلابی نوعیت کے اقدامات اور قانون سازی کے ذریعے ایسی پالیسی مرتب کرے جس سے شہریوں کی زندگیاں اور صحت محفوظ بنائی جاسکے، ان کا مزید استحصال نہ ہو اور انھیں طب و صحت کی بنیادی سہولیات میسر آسکیں۔