پاکستان ریلوے میں ناگہانی حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے ادارے کے ملازمین کے جسمانی، دماغی اور طبی سمیت جملہ ٹیسٹ کروانے اور تمام ڈرائیوروں کی کارکردگی جانچنے کے لیے مانیٹرنگ کیمرے نصب کرنے کی سفارش کی ہے تاکہ ڈرائیور اور معاون ڈرائیورکو مانیٹرکیا جاسکے۔ جہاں انٹرنیٹ سہولیات ہیں وہاں براہ راست کوریج ہوگی جب کہ دور دراز علاقوں کی ریکارڈنگ محفوظ کی جائے گی۔
سینیٹر مرزا محمد آفریدی نے بتایا کہ اکثر حادثات میں سامنے آیا ہے کہ ڈرائیور سوگیا تھا۔ جب بسوں میں کیمرے لگ سکتے ہیں تو ٹرینوں میں کیوں نہیں لگ سکتے؟ ڈرائیوروں کو لازمی آرام کرنے کی پابندی پر بھی سختی سے عملدرآمد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ کمیٹی نے حالیہ حادثے پر وزارت ریلوے سے ڈرائیور اور اسٹیشن ماسٹرکی میڈیکل ٹیسٹ رپورٹ بھی طلب کرلی ہیں تاکہ نشے کے استعمال کا پتہ بھی چلایا جاسکے۔
مکمل فٹنس، مضبوط اعصاب، بیداریٔ مغز، قوت فیصلہ اور کسی ممکنہ خطرے سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت ٹرین ڈرائیور کے پیشے کی بنیادی ضروریات ہیں، ان میں سے کسی ایک صلاحیت کی کمی بھی حادثات کے امکانات بڑھا دیتی ہے۔ دوران سفر ایک ڈرائیور کے ہاتھ میں ہزاروں زندگیاں اور اربوں کی املاک ہوتی ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پیش کردہ سفارشات کی روشنی میں ہمیں جنوری 1990ء میں سانگی میں پیش آنیوالا ٹرین حادثہ یاد آگیا۔
جب ہم راولپنڈی سے کراچی کے لیے تیزگام میں سوار ہوئے اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر سانگی ٹرین حادثے سے متعلق چھپی تھی جسے مجھ سمیت دیگر مسافروں نے ایک عمومی سی خبر گردانتے ہوئے کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ ٹرین روانہ ہوئی اور آہستہ آہستہ لیٹ ہوتی گئی ہر اسٹیشن پر حادثے سے متعلق خبریں اور تفصیلات موصول ہوتی رہیں یہاں تک کہ سندھ کے مختلف اسٹیشنوں پر رکتے رکاتے بالآخر گھوٹکی پر ٹرین نے مستقل ڈیرہ ڈال دیا۔
مسافروں کے کھانے پینے کی اشیا ختم ہوچکی تھیں۔ ڈائننگ کار میں بھی کچھ موجود نہیں تھا۔ حتیٰ کہ شیر خوار بچوں کا دودھ تک ختم ہوچکا تھا۔ کچھ خدا ترس لوگ بچوں کے لیے دودھ لے کر، کچھ اچارکے ٹین اور ہاتھوں میں روٹیاں تھامے لوگوں کو روٹی پر اچار رکھ کر کھانے کے لیے دے رہے تھے۔ اس دوران ریلوے انتظامیہ کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا تھا نہ کوئی کوآرڈینیشن تھا نہ کوئی انفارمیشن کا سلسلہ صرف افواہیں، قیاس آرائیاں اور رائے زنی کی فضا قائم تھی کسی کوکچھ پتہ نہیں تھا کہ کیا ہوا اور کیا ہونے جا رہا ہے۔
ذکریا ایکسپریس کے اس حادثے میں 700 کے قریب مسافر اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے ہزاروں زخمی تھے۔ حادثے کا شکار ٹرینوں کو دیکھ کر وحشت ہو رہی تھی تمام ریلوے نظام جام ہو چکا تھا۔ ریلوے ٹریک پر کئی گاڑیاں آگے پیچھے اور برابر برابر کھڑی ہوئی تھیں۔ ان کے ڈرائیور ریلوے لائنوں پر بیٹھے آپس میں بات چیت کر رہے تھے کچھ مسافر بھی ان کی گفتگو میں شریک تھے۔
ڈرائیور حضرات اپنی پریشانیاں اور مسائل بیان کر رہے تھے جو واقعی غور اور اصلاح طلب تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سے لمبی لمبی ڈیوٹیاں لی جاتی ہیں ٹرین لیٹ ہوجائے تو ذمے داری ڈرائیوروں پر ڈال دی جاتی ہے۔ ٹرین کا گارڈ بار بار ہارن بجانے کے باوجود ہری جھنڈی نہیں ہلاتا، سامان لوڈ کروانے کے چکر میں رہتا ہے۔ ٹرین کی تاخیر کو اس کی رفتار بڑھا کرکورکرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ پٹریاں اس قابل نہیں ہوتیں کہ ان پر زیادہ تیز رفتاری سے چلا جائے۔ اگرکوئی حادثہ رونما ہوجائے تو ریلوے کے مختلف شعبہ جات کے سربراہان اپنی اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے آسان راستہ یہ اختیار کرتے ہیں کہ ساری ذمے داری ڈرائیور پر ڈال دی جائے جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ہے۔
اگر کوئی واردات ہوجائے تو پولیس اہلکار سیٹوں کے نیچے چھپ کر اپنی جانیں بچانے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ ہم نے ڈرائیور سے دریافت کیا کہ آپ کی ٹرین میں وائرلیس یا کمیونی کیشن کا نظام تو ہوگا جس سے آپ اپنے کنٹرول روم یا آپریشن روم سے رابطے میں رہتے ہوں گے تو ہم پر پہلی بار اس بات کا انکشاف ہوا کہ ٹرین میں ایسا کوئی نظام نہیں ہوتا وہ صرف اللہ کے آسرے، سگنل کی بتی اورکیبن سے ہلائی جانیوالی لائٹوں کے اشارے پر اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔
ہم نے ڈرائیور سے سوال کیا کہ اگر آپ کی ٹرین درمیان میں خراب ہوجائے تو آپ کیسے رابطہ کرتے ہیں کیونکہ غلطی سے اس لائن پر دوسری ٹرین بھی آسکتی ہے تو اس نے بتایا کہ ریلوے انتظامیہ انھیں پٹاخے فراہم کرتا ہے اگر ٹرین خراب ہوجائے تو وہ دوڑتے ہوئے جاتے ہیں اور چند فرلانگ کے فاصلے پر ریلوے لائن پر ایک پٹاخہ باندھ دیتے ہیں پھر کچھ فاصلے پر دوسرا اور اسی طرح تیسرا پٹاخہ بھی باندھ دیا جاتا ہے تاکہ غلطی سے کوئی ٹرین آجائے تو پہلا پٹاخہ بجنے سے ڈرائیور خبردار ہوجائے گا کہ آگے کوئی بریک ڈاؤن ہے اس طرح دوسرا اور تیسرا پٹاخہ اسے مزید خبردار کردے گا تاکہ وہ ٹرین روک لے۔ جو ڈرائیور حضرات مسافروں سے بات چیت کر رہے تھے ان کی صحت کا معیار بھی اچھا نظر نہیں آ رہا تھا۔ ہم سب حیران و پریشان تھے کہ جدید سائنسی ترقی کے اس دور میں ہماری ٹرینوں میں کمیونی کیشن کا کوئی نظام ہے نہ ڈرائیوروں کی صحت اس کی دیکھ بھال اور جانچ پڑتال کا عملی نظام ہے۔
2012ء میں تو پاکستان ریلوے حکام کی نااہلیوں، بدعنوانیوں اور بداعمالیوں کی وجہ سے اس نہج پر پہنچ چکی تھی کہ رقم کی عدم ادائیگیوں پر اسے PSO نے تیل کی ترسیل بند کردی تھی۔ تیل، انجن اور اسپیئر پارٹس نہ ہونے کی وجہ سے ٹرینیں راستوں میں رکنے لگی تھیں۔ مختلف ٹرینوں کو ایک انجن سے چلایا جا رہا تھا ٹرینیں منسوخ کی جا رہی تھیں گھنٹوں کی تاخیر دنوں پر محیط ہوگئی تھی ٹرین روٹس بند کیے جا رہے تھے جس پر نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ان کی بندش رکوا دی۔ ملازمین کی تنخواہ اور پنشن تک کے لیے رقم نہیں تھی۔ مسافر پلیٹ فارموں پر سراپا احتجاج اور توڑ پھوڑ پر مجبور تھے۔ یونینز انتظامیہ پر کرپشن کے سنگین الزامات اور ان کی نشاندہی کر رہی تھیں۔ وزیر ریلوے کی ذمے داری کا یہ عالم تھا کہ فرما رہے تھے کہ یہی حالت رہی تو انشا اللہ ریلوے بند ہوجائے گی۔ موصوف کا کہنا تھا کہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں ریلوے نظام نہیں ہے۔ وہاں بھی تو لوگ سفرکرتے ہیں۔
وزیر موصوف کے اس بیان اور سوچ پر سر پیٹنے کو جی چاہتا تھا۔ ریلوے جس سے روزانہ لاکھوں اور سالانہ کروڑوں افراد سفر کرتے ہیں جس سے سالانہ 6 ملین ٹن سے زائد سامان کی ترسیل ہوتی ہے، جس سے صرف مسافروں سے کرایہ کی مد میں 35 ملین روپے سالانہ کی آمدن ہوتی ہے سب سے بڑھ کر اس کی ایک دفاعی نوعیت بھی ہے کیا اس کا متبادل کوئی ٹرانسپورٹ نظام ہوسکتا ہے؟
بلاشبہ سابقہ وزیر ریلوے سعد رفیق کے دور میں ریلوے کی حالت میں کافی بہتری آئی نئی ٹرینوں کا اجرا ہوا، کئی مرتبہ کرایوں میں کمی اور سہولیات میں اضافہ کیا گیا۔ خسارے کو کنٹرول کرکے ریلوے کو رواں دواں کر دیا گیا مگر موجودہ وزیر ریلوے کے آتے ہی اکھاڑ پچھاڑ شروع کردی گئی۔ اجلاسوں میں افسران کی کردار کشی اور تذلیل کی گئی کچھ کو جبری رخصت پر بھیجنے اور کچھ کی طویل رخصت اور ریٹائرمنٹ کی خبریں آتی رہی ہیں جس سے ادارے کی کارکردگی پھر رو بہ زوال ہے۔ ان کے دور میں 40 سے زائد حادثات میں قیمتی جانوں کے علاوہ اربوں کی املاک بھی ضایع ہوئی۔
ادارہ اس وقت مستحکم ہو سکتا ہے جب اس میں اہل و دیانت دار افسران کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ ادارے کے مسائل کو سمجھنے والے اہل، مخلص اور دیانت دار شخص کو بغیر کسی مداخلت کے اپنے فرائض سرانجام دینے کے لیے تعینات کیا جائے جو اپنی صلاحیت و قابلیت کے ذریعے ادارے کے نظام کو جدید تقاضوں سے ہم کنار کرکے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرکے پاکستان ریلوے سے براہ راست لاکھوں افراد کا معاشی مفاد و مستقبل اور کروڑوں کا سفری مفاد وابستہ ہے یہ دفاعی اہمیت کا بھی حامل ہے جس کا متبادل کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہو سکتا ہے۔
کراچی سرکلر ریلوے کی مثال ہمارے سامنے ہے جسے کئی عشرے قبل غیر ضروری اور غیر منافع بخش قرار دے کر ختم کردیا گیا تھا لیکن آج اس کی بحالی کے لیے بیرونی ممالک سے قرضہ اور امداد لے کر دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔