Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Sachey Gawahon Ka Tahaffuz, Waqt Ki Ahem Zaroorat

Sachey Gawahon Ka Tahaffuz, Waqt Ki Ahem Zaroorat

آج کل جھوٹی گواہی اور جھوٹی دستاویزات پر بڑے پیمانے پر بحث کی جا رہی ہے اور اس کی روک تھام اور تدارک کی عملی تدابیر اور اقدامات سوچے جا رہے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے جوڈیشل اکیڈمی لاہور میں ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے تعاون سے جینڈر بیسڈ وائلنس یعنی صنفی بنیادوں پر جرائم سے متعلق قوانین پر منعقدہ ورکشاپ کے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ "جھوٹی گواہی دینے والوں کو سزا دے کر مثال قائم کرنی چاہیے کیونکہ یہ انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور درست ثبوت کے بغیر انصاف فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ " انھوں نے کہا کہ "ہمارا پہلا اقدام جھوٹی شہادتوں اور جھوٹے گواہوں کے خلاف ہے اور آج کل مختلف عدالتوں میں جھوٹے گواہان کے خلاف مختلف مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ "

موجودہ دور میں سچے لوگوں کو زندگی کے کسی شعبے میں برداشت نہیں کیا جاتا حتیٰ کہ اب تو مسجد و منبر بھی اس سے مبرا نہیں رہے ہیں۔ سچ بولنا، سچ تسلیم کرنا تو دورکی بات ہے اب تو سچ سننے کو بھی گوارہ نہیں کیا جاتا اور سچ سننے میں بھی خوف محسوس کیا جاتا ہے۔ سچ کہنے اور سچ پر چلنے والوں کے دامن میں رسوائیاں آتی ہیں اور جھوٹ بولنے والوں کو پذیرائی اور عزت سے نوازا جاتا ہے۔ جو جتنی خوبصورت دروغ گوئی کرتا ہے اتنا ہی معتبر اور ہردلعزیز سمجھا جاتا ہے۔

عدالت حق وانصاف فراہم کرنے اور جھوٹ وسچ کو علیحدہ کرنے والا ادارہ ہے مگر یہ ادارہ بھی جھوٹوں کے نرغے میں نظر آتا ہے۔ ہر مقدمے میں فریقین مقدمہ اوران کے گواہان کلمہ پڑھ کر اللہ کو حاضر ناظر جان کر اور جھوٹ بولنے پر اللہ کے قہروعذاب کو دعوت دے کر اپنے سچا ہونے کا بیان دیتے ہیں۔ ظاہر ہے فریقین میں سے ایک کا جھوٹا ہونا تو منطقی ہے مگر عدالتوں میں ہر روز دھڑلے سے ایسی سیکڑوں جھوٹی گواہیاں دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے انصاف کا خون ہو رہا ہے قانون شکنی بڑھ رہی ہے۔

تعزیرات پاکستان میں جھوٹی گواہی اور عدل عامہ کے خلاف جرائم سے متعلق درجنوں دفعات موجود ہیں قانون شہادت مجریہ 1984 ایک موثر قانون ہے جس میں گواہ کی اہلیت اورگواہی کے معیار سے متعلق دفعات شامل ہیں۔ اس قانون کا اطلاق عام عدالتوں کے علاوہ کورٹ مارشل، ٹریبونل اور ایسے اداروں پر بھی ہوتا ہے جو عدالتی یا نیم عدالتی نوعیت کے اختیارات وسماعت کرنے کا حق رکھتے ہوں۔ گواہی میں بیانات کے علاوہ پوسٹ مارٹم و دیگر نوعیت کی رپورٹس بھی شامل ہوتی ہیں لیکن اثرورسوخ، رشوت ستانی، بدعنوانی، خوف و دھمکی کی وجہ سے ان میں ہیرا پھیری معمول بن گئی ہے۔

گواہوں کی ضرورت اور اہمیت دیوانی، فوجداری، عالمی یا پنچایتی نوعیت کے تمام مقدمات میں کلیدی نوعیت کی ہوتی ہے۔ پولیس اور عدالتی نظام کی خرابیوں کی وجہ سے لوگ سچی گواہی دینے سے کتراتے ہیں بار بار تھانوں اور عدالتوں کے چکر، گھنٹوں کا انتظاراورکئی کئی مہینوں تک پیشیاں جس میں نہ صرف گواہوں کا وقت اور پیسہ ضایع ہوتا ہے بلکہ اس دوران انھیں دھونس، دھمکیوں، لالچ اور زدوکوب کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ جس کے نتیجے میں حق دار، حق وانصاف کے حصول سے محروم ہوجاتے ہیں اور قانون شکن عناصر دندناتے پھرتے ہیں۔

لاقانونیت کو فروغ ملتا ہے اور لوگوں کا انصاف سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ عدالتوں کا وقار بھی مجروح ہوتا ہے۔ سچے گواہوں کو دھونس، دھمکی، لالچ یا جان سے مارنے کی دھمکیاں دے کرگواہی سے دستبردارکرا دیا جاتا ہے۔ رشتے دار، تعلق دار یا برادری سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف گواہی دینے پرگواہوں کو لعنت و ملامت اور سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مذہبی و لسانی اقلیت کا اکثریت کے خلاف گواہی دینا جان لیوا کرمنل گینگز اور سیاسی اثر و رسوخ کے حامل افراد کے خلاف گواہی دینے پر تو اپنی اور اپنے خاندان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے لالے پڑ جاتے ہیں۔

لوگ قاتلوں، ڈاکوؤں، دہشت گردوں اور قانون شکن افراد کو اپنی آنکھوں سے جرم کا ارتکاب کرتے دیکھتے اور جانتے پہچانتے ہوئے بھی گواہی دینے کی ہمت نہیں کرتے ہیں۔ گواہوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے پولیس بھی جھوٹے گواہ پیش کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں مجرم عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں۔ سچے گواہان مار دیے جاتے ہیں یا انھیں لاپتہ و روپوش کرا دیا جاتا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں سے تو صورتحال بد سے بد ترین ہوتی جا رہی ہے چھوٹے بڑے جرائم کے واقعات کے گواہوں، تفتیشی افسران، وکلا اور ججز تک انصاف کی حکمرانی کی کوششوں کی پاداش میں ناحق قتل کیے جا چکے ہیں۔

قتل کے کچھ واقعات کو خودکشی کا رنگ دے دیا گیا۔ ایسے مقدمات کی ایک طویل فہرست ہے جن کے پورے پورے گواہان ایک ایک کرکے قتل کردیے گئے یا انھیں لاپتہ یا روپوش کردیا گیا۔ جنھیں عدالتوں کے احکامات کے باوجود پولیس اور انتظامیہ تحفظ دینے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ انصاف کے قتل کا سلسلہ دہری دھارکی تلوار سے ہو رہا ہے۔ ایک طرف سچے گواہان کو راستے سے ہٹا کر دوسری جانب جھوٹے گواہان پیش کرکے۔ اس تناظر میں جھوٹے گواہان کی بیخ کنی سے کہیں زیادہ سچے گواہان کے تحفظ کا مسئلہ اہمیت و برتری کا حامل نظر آتا ہے جس پر ارباب اختیارکو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

گزشتہ چند سالوں میں پولیس مقابلوں میں ہزاروں افراد قتل کیے جا چکے ہیں جن میں مجرم اور بے گناہ دونوں شامل ہوتے ہیں، پولیس بعض مجرموں کو جان بوجھ کر صرف اس لیے مار ڈالتی ہے کہ اسے یقین ہوتا ہے کہ پولیس کے تفتیشی اور عدالتی نظام میں یہ لوگ بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور پھر ان کے لیے درد سری کا باعث بنیں گے۔ ادارے بے گناہوں کا بے دھڑک قتل بھی اس لیے کرتے ہیں کہ انھیں معلوم ہے کوئی ان کے خلاف گواہی دینے کی ہمت نہیں کرے گا اور مروجہ روایتی نظام اور پیٹی بند بھائیوں کی موجودگی میں کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ ایسے پولیس مقابلے دکھا کر پولیس اہلکارکئی کئی شولڈر پروموشن لے کر اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے حق دار اپنی ترقیوں سے محروم رہ جاتے ہیں ایسے پروموشن پر سپریم کورٹ نے ایکشن لیتے ہوئے انھیں منسوخ بھی کیا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے صحیح نشاندہی کی ہے کہ درست ثبوت کے بغیر انصاف فراہم نہیں کیا جاسکتا صورتحال کے تناظر میں ارباب اختیارواقتدارکی پہلی ترجیح اور اقدام گواہوں کا تحفظ اور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ سچے گواہوں کے تحفظ اور حوصلہ افزائی کے لیے ٹھوس عملی اقدامات اور قانون سازی اور جھوٹے گواہوں کو قرار واقعی سزا دیے بغیر انصاف کا تصور محض ایک خواب اور خواہش ہی رہے گی۔