Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Taleemi Miyar

Taleemi Miyar

ایک زمانہ تھا جب سول سروس نوجوانوں کا سہانہ سپنا ہوتا تھا۔ اعلیٰ صلاحیتوں اور تعلیمی معیارکے حامل نوجوانوں کی بڑی تعداد تندہی و تیاری کے ساتھ اس کے لیے قسمت آزمائی کرتی تھی۔

جنھوں نے بلاشبہ یہاں کی سیاسی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں میں بہترین رہنمائی کی، لیکن اب حال یہ ہے کہ سول سروس کے امتحانات کا نتیجہ حیران کن حد تک گر چکا ہے۔ سرکاری ملازمتوں کے لیے مطلوبہ تعداد میں امیدوار امتحانات پاس نہیں کر پاتے ہیں نوے فیصد سے زائد امیدوار مقابلہ کے امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں۔

2016 میں تو سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی کا تناسب صرف 2.09 فیصد تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد روز افزوں تو ہے لیکن ان کی توجہ معیار پر نہیں بلکہ مقدار پر ہے تعلیمی نظام ناکارہ ہے، تعلیمی ادارے طلبا کی تعلیم و تربیت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی وجہ تعلیمی معیار کی تنزلی کو قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ طلبا شارٹ کٹ کے لیے اکیڈمی، گیس پیپر و دیگر میٹریل اور ذرایع کا استعمال کرتے ہیں، اس عمل نے ان کی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یونیورسٹی چانسلرزکی حالیہ کانفرنس میں بھی سی ایس ایس کے نتائج کے گرتے ہوئے معیار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کچھ تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔

گزشتہ ایک دہائی سے پارلیمنٹ و دیگر فورم پر سی ایس ایس نتائج سے متعلق پیش کردہ رپورٹس بڑی پریشان و حیران کن اور چشم کشا ہیں جن پر بڑی لے دے اور بحث و مباحثے ہوتے رہے ہیں لیکن تاحال اس سلسلے میں کوئی جامع منصوبہ بندی یا ٹھوس اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے ہیں۔

پارلیمنٹ نے سی ایس ایس کے امتحانات اردو میں لینے کی قرارداد منظور کر لی ہے جس کے تحت آیندہ مقابلہ کے امتحانات میں امیدواروں کو اردو یا انگلش میں امتحانات دینے کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔ گزشتہ روز سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے کورنگی ماڈل لائبریری میں طلبا کے لیے سی ایس ایس کارنرکا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ یہاں 50 ہزار سے زائد کتب رکھی گئی ہیں کمپیوٹر اور وائی فائی کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے طلبا اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے معمولی نوعیت کے اقدامات اور اعلانات سے سی ایس ایس کا معیار و وقار بحال نہیں کیا جاسکتا معاملات جس نہج تک پہنچ چکے ہیں اس میں ہنگامی اور انقلابی نوعیت کے اقدامات اور فیصلوں کی ضرورت ہے، سی ایس ایس کے ڈھانچے کی تباہی کی وجہ صرف گرتے ہوئے تعلیمی معیار کو ہی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس میں دیگر عوامل بھی کارفرما ہیں۔

1958 تک یہ ایک مثالی و فعال ادارہ تھا۔ ایوب خان نے ذاتی سوچ اور ترجیحات کی بنا پر اس کی بنیاد اور ترکیبی عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا پھر بھٹو اور مشرف دور میں اس کی جڑیں کھوکھلی کر دی گئیں اور یہ سلسلہ مختلف شکلوں میں آج تک جاری و ساری ہے، یہ اقدامات پاکستان سول سروس کے لیے شدید طور پر ضرر رساں ثابت ہوئے۔ اس سے قبل ذہین و فطین نوجوان جو سی ایس ایس کا رخ کیا کرتے تھے انھوں نے اپنی ترجیحات بدل کر دوسرے شعبوں اور محکموں یا بیرون ممالک کا رخ کرنا شروع کردیا۔

بیورو کریسی کو تکنیکی بنیادوں پر دیگر ریاستی اداروں پر فوقیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ اس کا براہ راست تعلق مملکت کے وضع کردہ امور اور اصول و ضوابط اور طریقہ کار سے ہوتا ہے۔ یہ ریاست کے نظام اور اداروں کے درمیان نظم و ضبط، تربیت اور کمانڈ اینڈ کنٹرول فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ نظام بطور خود مختار آزمودہ، قابل عمل اور کارآمد تھا جس سے بغیر کسی رکاوٹ لوگوں کی خدمت کی صلاحیت موجود تھی۔ مقابلہ کے امتحان کے ذریعے امیدواروں کا انتخاب میرٹ پر ہوا کرتا تھا جو اعلیٰ تعلیم و تحقیق و انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہوا کرتے تھے۔

عوام کی فلاح و بہبود ان کی پالیسی کا اہم حصہ تصور کیا جاتا تھا جو نظر بھی آتا تھا یہاں تک کہ کہیں سیکریٹری و وزیر کے نقطہ نظر میں اختلاف ہوجائے تو وزیر سیکریٹری کی رائے کو فوقیت دیتا تھا یا معاملہ وزیر اعظم کے سامنے رکھ دیا جاتا تھا لیکن موجودہ سیاسی کلچر میں وزیر اعظم کی جو بھی مرضی، منشا، خواہش یا ترجیح ہو اس کو اولیت دی جاتی ہے، چاہے ملک و قوم کو اس کے منفی نتائج کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔ اب تو سلسلہ یہاں تک دراز ہو چکا ہے کہ آئے دن سول بیوروکریسی کے فیصلوں، اقدامات اور ترقی، تبادلوں، تعیناتیوں میں سرعام دھونس، دھاندلیوں، دھمکیوں اور قانون شکنی کے مظاہرے سرعام کیے جاتے ہیں۔ یہ معاملات میڈیا اور عدالتوں تک چلے جاتے ہیں یا اعلیٰ عدالتیں ایسے معاملات میں مداخلت پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

حکومتیں بیورو کریسی کو سرنگوں کرنے کی کوششوں میں مصروف کار نظر آتی ہیں جس سے سول بیورو کریسی کی کارکردگی، اعتماد اور اعتبار بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور بے چینی جنم لیتی ہے۔ اسی ردعمل کے نتیجے میں 2011 میں سول بیورو کریسی کے گریڈ 17 سے 20 تک کے ملازمین نے Moral Revival یعنی اخلاقی بحالی نامی تنظیم قائم کی تھی ان کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں اور سول بیوروکریسی کی جانب سے اقدام نہ کیے جانے کی وجہ سے ملک میں مایوسی و بے چینی بڑھتی جا رہی ہے ملک تباہی کی جانب گامزن ہے جب وفاقی سیکریٹریز حکمرانوں کی خوشنودی اور ترقی و مفادات کی تگ و دو میں سرگرداں ہوں یکے بعد دیگرے آنے والے حکمرانوں کے ذاتی ملازم کی طرح اصولوں کو فراموش کرنے لگیں تو بربادی مقدر بن جاتی ہے۔

Moral Revival قواعد و ضوابط کی بنا پر کی جانے والی کوشش کا نام ہے جس کا مقصد سول سروسز آف پاکستان کی ساکھ و وقار بحال کرانا ہے جو آئین کے تحت قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بنائی گئی ہے تنظیم نے گڈ گورننس کے لیے کچھ اصول پیش کیے تھے کہ ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دی جائے، قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے، شواہد اور منطق کی بنیاد پر آزادانہ فیصلے کیے جائیں، میرٹ و عملیت پسندی کی بنیاد پر حکومت کی خدمت کی جائے اور پیشہ واریت کے خلاف دباؤ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے۔

سول بیورو کریسی کا اعتماد اور وقار صرف اسی صورت بحال ہوگا جب گڈ گورننس بحال کیا جائے ورنہ اس کا ڈھانچہ مکمل تباہی سے دوچار ہو جائے گا اور ذہین، اہل اور خود دار نوجوان اس کا رخ نہیں کریں گے آج کی گلوبل ولیج دنیا میں ایسے نوجوانوں کے لیے خطیر مشاہیرات و مراعات اور ترقی کے آسمان کھلے ہیں۔