لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکلا کے ایک گروہ کے حملے کے دوران قومی املاک کو پہنچنے والے نقصانات کے نتیجے میں وکلا کی گرفتاریوں اور مقدمات کے اندراج کے خلاف پنجاب بارکونسل کی اپیل پر مختلف شہروں میں وکلا کی ہڑتال کا سلسلہ جاری ہے۔
دوسری جانب ڈاکٹروں کی جانب سے بھی ہڑتال کی گئی جس کی وجہ سے عدالتی سائلین اور مریض بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ہزاروں مقدمات التوا کا شکار ہو رہے ہیں۔ چند غیر ذمے دار و غیر مہذب اور جذباتی عناصر کے رویے کی وجہ سے دو اداروں کے درمیان تصادم اور محاذ آرائی کی فضا پیدا ہوئی ہے۔
خوش آیند بات یہ ہے کہ سینئر وکلا اور وکلا رہنماؤں کے علاوہ ججز نے بھی اس واقعے پر نہ صرف اپنی ناراضگی و ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ عدالت میں پیش ہونے والے وکلا کی سرزنش بھی کی ہے۔ وکلا اور ڈاکٹروں کے مابین اس تنازع اور تصادم کے دوران حکومت مسلسل بے نیاز اور لاتعلق نظر آئی جس کی وجہ سے یہ ہولناک واقعہ ظہور پذیر ہوا اور طول پکڑتا گیا۔
اس کے بعد بھی حکومت وکلا اور ڈاکٹروں کے درمیان جاری اس تناؤ کی کیفیت کو ختم کرانے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی ہے۔ البتہ لاہور ہائیکورٹ نے اس مقدمے کی سماعت کے دوران وکلا اور ڈاکٹروں پر مشتمل 8 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو ان کے درمیان باہمی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے تجاویز مرتب کرکے عدالت میں پیش کرے گی۔
وکلا اور ڈاکٹر دونوں انسانی خدمت کے شعبے ہیں ان میں بہت اچھے لوگ بھی شامل ہیں جو حقیقی معنوں میں انسانیت کا درد بھی رکھتے ہیں مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں ان دونوں شعبوں میں موجود کچھ جذباتی افراد نے ان پیشوں کی حرمت اور تقدس کو پامال کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ عدالتوں میں آئے دن کی ہڑتالوں کے پنپتے کلچر نے جہاں سائلین کو بری طرح متاثرکیا ہے وہیں ان ہڑتالوں سے وکلا، ججز اور دیگر متعلقین بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
ججوں، پولیس، کلائنٹس اور خود وکلا کی مارپیٹ کے شرمناک واقعات معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب ڈاکٹروں اور خصوصاً جونیئر ڈاکٹروں کی جانب سے اپنے مطالبات کے لیے ہڑتالوں، اپنے سینئرز سے بدسلوکی و مارپیٹ اور مریضوں اور ان کے لواحقین کے ساتھ بدسلوکیوں کے واقعات تواترکے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔ طب کے شعبے میں ایک ایسی مضبوط و مربوط مافیا وجود میں آچکی ہے جو انسانیت سے کھیل رہی ہے اور مریضوں کا منظم استحصال کر رہی ہے۔
غیر ضروری ادویات اور لیبارٹری ٹیسٹ، غیر ضروری آپریشن ان کے بڑے بڑے بل، مریضوں کے گردے چوری کرلینا اور ان کی خرید و فروخت کرنا، لاپرواہی اور سنگدلی سے مریضوں کا مرجانا، معمول کے واقعات بن چکے ہیں۔ ایسے واقعات پر متعلقہ ادارے بے دست و پا اور ان کے دست راست یا خاموش تائیدی بنے نظر آتے ہیں۔ پیرا میڈیکل اسٹاف، نرسز اور ڈاکٹرز کے درمیان جھگڑے جیسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ لیکن قانون کی بے وقعتی اور لابیوں کی چابک دستی کی وجہ سے ایسے جرائم کے مرتکب عناصر کیفر کردار کو نہیں پہنچتے جس کے نتیجے میں ان کی ہمت و حوصلے مزید بڑھ جاتی ہیں۔
اس قسم کے عناصر اور لابیوں کو ختم کر کے انھیں قانون کے دائرے میں لانا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ وکلا، ڈاکٹرز اور ان کی انجمنیں اگر اپنے پیشے کی حرمت و تقدس بحال رکھنا چاہتی ہیں تو بغیرکسی مصلحت پسندی کے ایسے عناصرکی شناخت کرکے یکسر مسترد کرکے اپنی صفوں سے باہر نکال دینا چاہیے۔
دوسری جانب 35 سال بعد طلبا یونینز کی بحالی کی بحث وکوششوں کا آغاز شروع ہوچکا ہے۔ سب سے پہلے سندھ حکومت نے طلبا یونینزکی بحالی کا اعلان کر دیا ہے جب کہ اس حوالے سے قومی اسمبلی میں بھی ایک بل پیش کردیا گیا ہے۔ طلبا، سیاستدان اور سول سوسائٹی طویل عرصے سے طلبا یونینز کی بحالی کا مطالبہ اور جدوجہد کرتے نظر آرہے تھے۔ کچھ لوگ سابقہ ریکارڈ اور موجودہ حالات کے تناظر میں طلبا یونینز کی بحالی پر بہت سے تحفظات رکھتے ہیں جن میں وزن بھی نظر آتا ہے۔
جس وقت طلبا تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی تھی تعلیمی اداروں میں کشت و خون کا کھیل جاری تھا تعلیمی ادارے اور ہاسٹل آتشیں اسلحے، منشیات اور غیر طلبا کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے۔ سیاسی، لسانی، علاقائی اور مذہبی عناصر کی تعلیمی اداروں میں کھلی مداخلت جاری تھی، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنے کے بجائے مصلحت، مفاد یا خوف کا شکار تھے۔
درجنوں طلبا اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے تھے قانون شکن عناصر کی سفاکی بربریت اور بے خوفی کا یہ عالم تھا طلبا کے بھیجے جامعہ کی چھتوں اور دیواروں پر چپکے ہوئے تھے۔ ان تمام واقعات کی ذمے داری حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، تعلیمی اداروں کی انتظامیہ، سیاسی، لسانی، علاقائی اور مذہبی جماعتوں کے پروردہ عناصر پر عائد ہوتی ہے۔ مستقبل میں ان کا تدارک کرکے ہی صحت مندانہ طلبا تنظیموں کی سرگرمیوں کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔
ایک طبقہ محض اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے طلبا یونینزکی بحالی کی مخالفت کرتا نظر آتا ہے جو نہیں چاہتا کہ طلبا تنظیموں سے تربیت یافتہ اور متوسط طبقے کے افراد ملکی سیاست میں اپنا قومی کردار ادا کریں۔ ماضی میں طلبا اور ٹریڈ یونینز کے ذریعے طلبا اور محنت کشوں کی سیاسی تربیت کا ایک منظم و مربوط نظام قائم تھا جہاں سے بہت سے افراد نکلتے تھے جن کا قومی سیاست میں ایک مثبت مثالی اور تاریخی کردار رہا ہے۔
اگر یہ سلسلہ جاری رہتا تو موروثی و پیشہ ور سیاستدان اس طرح خود سر اور آزاد نہ ہوتے نہ اتنی خرابیاں جنم لیتیں۔ ایسے ہی لوگ طلبا اور مزدور یونینز کی مخالفت پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ طلبا یونینز کی بحالی کی خبروں کے ساتھ ہی اسلامی یونیورسٹی میں جاری تعلیمی ایکسپو پر مسلح شرپسند جتھے کا اچانک بلاجواز حملہ جس میں ایک طالب علم جاں بحق اور درجنوں شدید زخمی ہوگئے اس تاثر کو ابھارا گیا کہ طلبا یونینز کی بحالی سے تعلیمی ادارے ایک مرتبہ پھر ہنگامہ خیزی اور مقتل کا روپ دھار لیں گے جیساکہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔
ارباب اقتدار و اختیار کو طلبا تنظیموں پر پابندی لگا دینے کے بجائے ان اسباب اور عوامل کا جائزہ لینا چاہیے جو اس میں مضمر نظر آتے ہیں مثلاً یہ کہ:
(1)۔ طلبا یونینز میں سیاسی مداخلت، لسانی، علاقائی اور مذہبی و فرقہ وارانہ وابستگی کا عنصرکیوں اور کن مقاصد کے لیے کن عناصر نے داخل کیا اور ان کی بیخ کنی کس طرح کی جاسکتی ہے؟
(2)۔ اساتذہ اور شیخ الجامعہ تک طلبا گروہوں، بیرونی عناصر سے خوفزدہ اور مصلحت کا شکار اور ان کے ہاتھوں یرغمال کیوں نظر آتے ہیں یا انھیں اپنے مفاد کے لیے کیوں استعمال کرتے ہیں اور یہ عناصر اتنے مضبوط کیسے ہوتے ہیں کہ شیخ الجامعات کی تقرری و تبادلوں تک پر اثرانداز ہوتے ہیں؟
(3)۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی بلوے، ہنگامہ اور قتل و غارت گری سے لاعلم، لاتعلق بلکہ بعض اوقات اس میں جانبدار بن کر طلبا کی زندگیوں اور املاک کو تلف ہوتے دیکھتے رہتے ہیں؟
(4)۔ بیرونی، غیر متعلقہ اور شرپسند عناصر کا تعلیمی اداروں اور ان کے ہاسٹل میں عمل دخل اورکارروائیاں انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں کیونکر ممکن ہوتی ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔