28صفر المظفر 50ھ تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب نواسہ رسول ؐ لخت دل علیؑ و بتول ؑخلیفۃ المسلمین حضرت امام حسن مجتبی ؑ درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رقم طراز ہیں کہ امام حسن ؑ کی شہادت کا سبب آپ کی بیوی جعدہ بنت اشعث کی جانب سے دیا جانے والا زہر تھا۔ یہ زہر اس قدر سخت تھا کہ جگر اور انتڑیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نکلتے تھے۔ امام حسن فرماتے کہ مجھے کئی بار زہر دیا گیا ہے لیکن اس قدر سخت زہر کبھی نہیں دیا گیا۔ (سر الشہادتین)یہ زہر روم سے منگوایا گیا تھا جسے زہر ہلاہل کہا جاتا ہے۔
اے شہسوارِ دوشِ پیمبرؐ مرے امام
اے والیئِ بہشت بریں، رحمت تمام
تونے پیا ہے زہر سے لبریز غم کا جام
تجھ کو غرورِ عظمت سقراط کا سلام
نامور عالم اہلسنت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کی شہادت کو شہادت رسولِ خداؐ سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آدم سے لے کر عیسی ٰ ؑ تک تمام پیغمبران کے اوصاف، کمالات اور خوبیاں خاتم الانبیاء محمد مصطفی ؐ میں جمع ہو گئی تھیں، مگر ایک کمال باقی رہ گیا تھا وہ تھا شہادت کا مرتبہ وہ حضور کو خود حاصل نہیں ہوا تھا اس کا راز یہ تھا کہ اگر حضور ؐ کسی جنگ میں شہید ہو جاتے تو اسلام کی شوکت متاثر ہوتی۔ حکمت الہی اور کارسازی نے یہ پسند فرمایا کہ شہادت کا کمال بھی حضور ؐ کو مل جائے۔ مظلومیت و شہادت ان کی مناسب تھی جن کی منزلت کا رتبہ فرزند کے برابر ہوتاکہ ان کا حال حضور کے حال میں شامل سمجھا جائے اور ان کا کمال رسول ؐ کا کمال سمجھا جائے۔ اللہ تعالی کی عنایت نے اس امر پر توجہ کی اور حسنین(حسن و حسین)علیھما السلام کو اپنے نانا کی نیابت بصورت شہادت عطاکی۔ اس لئے کہ یہ دونوں پرتو کمال محمدی ؐ کے دوآئینے ہیں حضور اکرم ؐ کے جمال کے دوآئینے ہیں۔ حسن ؑو حسین ؑ کا رسول کا بیٹا ہونا دلائل سے ثابت ہے اور ان دونوں نواسوں کی شہادت رسول ؐ کی شہادت ٹھہری (سر الشہادتین)
خون خیر الرسلؐ سے ہے جن کا ضمیر
ان کی بے لوث طینت پہ لاکھوں سلام
ان کی بالا شرافت پہ اعلی درود
ان کی والا سیادت پہ لاکھوں سلام
(اعلی حضرت بریلوی ؒ)
امام حسن علیہ السلام 15رمضان 3 ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں سورہ کوثر کی پہلی تفسیربن کر صحن علی المرتضی ؑ و خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ؑ میں تشریف لائے۔ رسولِ خدا ﷺ کیلئے امام حسن ؑ کی آمد بہت بڑی خوشی تھی کیونکہ جب مکہ مکرمہ میں رسول کے بیٹے یکے بعد دیگرے رحلت فرماتے رہے تو مشرکین طعنے دیتے اور آپ کو بڑا صدمہ پہنچتا۔ مشرکین کوجواب کے لیے قرآن مجید میں سورۃ الکوثر نازل ہوئی جس میں آپ کوخوش خبری دی گئی ہے کہ خدا نے آپ کو کثرتِ اولاد عطا فرمائی ہے اور مقطوع النسل آپؐ نہیں ہوں گے بلکہ آپ کا دشمن ہوگا۔ دنیا میں ہر انسان کی نسل اس کے بیٹے سے ہے لیکن کائنات کی اشرف ترین ہستی سرور کونین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نسل کا ذریعہ ان کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا یعنی امام حسن ؑ و حسین ؑکو قرار دیا گیا۔
حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا "ہر عورت کی اولاد کا نسب اس کے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہؑ کے، میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا باپ ہوں "یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہر نسب منقطع ہو جائے گا سوائے میرے نسب (اولاد فاطمہ)اور رشتہ کے (حاکم المستدرک، طبرانی المعجم الکبیر، احمد بن حنبل فضائل الصحابہ، شوکانی)۔ نصاری نجران کے ساتھ مباہلہ کیلئے بھی رسول خدا امام حسن و حسین ؑ کو اپنے فرزندان کے طور پر ساتھ لے کر گئے جس پر قرآن کی آیت گواہ ہے۔
بحارالانور میں ہے کہ جب امام حسن ؑ سرورکائنات کی خدمت میں لائے گئے تو آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسنؑ اسے چوسنے لگے اس کے بعدآپ نے دعاکی خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا۔
امام شافعی ؒکابیان ہے کہ کسی نے امام حسن سے عرض کی کہ ابوذرغفاری فرمایاکرتے تھے کہ مجھے تونگری سے زیادہ ناداری اورصحت سے زیادہ بیماری پسندہے آپ نے فرمایاکہ خدا ابوذرؓ پر رحم کرے ان کاکہنادرست ہے لیکن میں تویہ کہتاہوں کہ جوشخص خداکے قضا و قدر پر توکل کرے وہ ہمیشہ اسی چیزکوپسند کرے گا جسے خدااس کے لیے پسندکرے۔
امام حسن کے والد بزرگوار امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے 21رمضان کو شہادت پائی اس وقت امام حسن کی عمر 37 سال چھ یوم کی تھی۔ حضرت علی کی تکفین و تدفین کے بعد عبداللہ ابن عباس کی تحریک سے قیس ابن سعد بن عبادہ انصاری نے امام حسن کی بیعت کی اوران کے بعدتمام حاضرین نے بیعت کرلی جن کی تعدادچالیس ہزارتھی یہ واقعہ21رمضان40 ھ یوم جمعہ کاہے(ابن اثیر) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہوکر تقریر کی اور لوگوں کو بیعت کی دعوت دی. سب نے انتہائی خوشی اور رضا مندی کے ساتھ بیعت کی آپ نے مستقبل کے حالات کاصحیح اندازہ کرتے ہوئے اسی وقت لوگوں سے صاف صاف یہ شرط کردی کہ "اگر میں صلح کروں تو تم کو صلح کرنا ہوگی او راگر میں جنگ کروں تو تمھیں میرے ساتھ مل کر جنگ کرنا ہوگی"سب نے اس شرط کو قبول کرلیا۔آپ نے انتظامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لیا۔ اطراف میں عمال مقرر کئے، حکام متعین کئے اور مقدمات کے فیصلے کرنے لگے۔لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اسلامی معاشرہ انتشار کا شکار ہے اورآپ نے تخت حکومت کو خیر باد کہہ دیا کیونکہ امام حسن ؑ کا واحد مقصد حکم خدا اور حکم رسول کی پابندی کااجراء چاہئے تھاامام حسن ؑ نے دین خدا کی سربلندی کے لئے اورفتنہ وفساد کا سر کچلنے، کتاب خدا اور سنت رسول پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے اپنے نانارسول خدا ؐ کی صلح حدیبیہ کی تاسی میں تخت حکومت کو ٹھوکر مار کر جو تاریخی صلح کی وہ اسلام کی تاریخ کا ایساناقابل فراموش با ب ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔
امام حسن ؑ اگرچہ صلح کے بعد مدینہ میں گوشہ نشین ہوگئے تھے، لیکن حق کے مرکزاور تعلیمات محمدی ؐ کے سرچشمہ امام حسن کا قائم رہنا دشمنان دین کو کب گوارا تھا اسی لئے جعدہ بنت اشعث کو انعام و اکرام کا لالچ دے کرنواسہ رسول ؐ امام حسن کوزہردے کر شہیدکردیاگیا(مسعودی، مقاتل الطالبین، ابوالفداء، روضۃالصفا، حبیب السیر، طبری، استیعاب) رسول کے پیارے نواسے امام حسن ؑ نے 28صفر50ھ کو جام شہادت نوش کیا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔
امام حسن و حسین ؑ کے ساتھ رسول خدا ؐ کی محبت محض رشتے کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ اس کردار کے سبب تھی جس کا مظاہرہ نبی کریم کے نواسوں نے آزمائش کے ہر مرحلے پر کیا۔ امام حسن ؑ کی زندگی تعلیمات مصطفوی ؐ کی عملی تفسیر ہے آپ کا ہر کلام ہر اقدام امت مصطفوی کیلئے درس حیات ہی نہیں راہ نجات بھی ہے۔ عہد حاضر جسے دور جنگ و جدل کہا جائے تو بے جا نہ ہو گااور بالخصوص عالم اسلام پر اس ہتھیار کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ اسلام جو دنیا کے ہر مظلوم اور محروم کے درد کا مداوا اور کائنات کے تمام مسائل کا شافی و کافی علاج پیش کرتا ہے وہ ایک طرف تو دہشت گردی کے الزامات کی زد میں ہے تو دوسری جانب اس کے ماننے والوں میں انتشار افتراق کے بیج مسلسل بوئے جارہے ہیں۔ لہذا تاریخ کے اس نازک مرحلے پر پوری امت مسلمہ اور بالخصوص مسلم حکمرانوں و لیڈران کو سیرت امام حسن ؑ کی پیروی کرنا ہوگی جنہوں نے جنگ و جدل کے جھلسے ہوئے ماحول میں اپنے کردارکے ذریعے امن کے پھولوں کی مہکار بکھیر دی اور امن کے چمن کو گلنار رکھنے کیلئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ آج بھی بدترین انتشار کا شکارامت مسلمہ کے تمام مسائل کا حل نواسہئ رسول ِزمن ؐحضرت امام حسن ؑ کے افکار و کردار میں پوشیدہ ہے۔
ٹھکرا کے تخت و تاج حسن ؑ نے یہ کہہ دیا
لے لے جسے یہ ریت کی دیوار چاہیے
منشور ِامن عالم اسلام جو بنے
مذہب کو آج بھی وہی کردار چاہئے