یہ ضامن کی کہانی ہے، جس کا بھولپن، اُس سے چھِن جاتا ہے۔ یہ گائوں کی ایک حویلی میں پیدا ہوتا ہے، گھر کے سامنے ایک ڈسپنسری ہوتی ہے، جہاں زندگی کے کئی تماشوں کو دیکھتا یہ بڑا ہوتا ہے، اس کی معصومیت پر پہلاوار بھی یہیں سے ہوتا ہے۔ ضامن علی کا باپ نچلے درجے کا ایک کسان تھا، جس کے کھیتوں میں غربت کی خاردارجھاڑیاں اُگتیں، وہ اُن کو کاٹ کر زخمی ہوتارہتا۔ یہ معصوم لڑکا، کسی بھی ذائقے سے مانوس نہ تھا۔ مٹھائی کے ذائقے سے زبان نا واقف تھی، یہ جذبات کے لطیف ذائقے سے بھی محروم رہتا، اگرگھر کے سامنے ڈسپنسری نہ پڑتی۔ ڈسپنسری کے ایک کوارٹر میں جلال دین بھی رہتا تھا، جس نے گائوں کے ہر آدمی کو اُدھار دے رکھا تھا، اُس کے کوارٹر کی چھت پر کبوتر غٹرغوں کرتے رہتے، ڈسپنسری میں اَمرود کا ایک پیڑ تھا، ایک روز سخر دوپہر ضامن علی گھر سے چپکے سے نکلا اور امرود کی چوٹی پر چڑھ گیا، یہاں سے جلال دین کے کوارٹر کا بیرونی برآمدہ صاف دِکھائی دے رہاتھا، برآمدے میں چارپائی پر ایک کریہہ منظر نے، اس کے بھولپن پر پہلا ننگا وار کیا۔ کچے امرود کا ٹکڑا ضامن علی کے حلق میں پھنس گیا، جو مُدتوں پھنسارہا۔
ڈسپنسری کا سٹاف بدلتا ہے، یہ نیاز دینے جاتا ہے، ایک لڑکی یا شاید عورت، جو کہ نرس کی بیٹی تھی، نیازلیتی اور خالی پلیٹیں واپس کرتی ہے، مگر پلیٹوں میں ہمیشہ کے لیے اپنی خوشبوچھوڑ دیتی ہے، ضامن علی کو اپنے گائوں کی کسی لڑکی سے ایسی خوشبو کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بھولپن پر دوسرا وار زینی کی خوشبو کرتی ہے۔ ڈسپنسری میں نئی آنے والی ہیڈ نرس کا نام عدیلہ ہوتاہے، اس کی چاربیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، اس کے خاوند کا نام احمد دین ہے، احمد دین مٹی کا بُت ہے۔ ایک دِن عماد مفتی قوی نما بندے کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، جو عدیلہ کی بیٹی کے بدلے رہائی کا وعدہ کرتا ہے۔ ضامن علی کے سامنے زندگی کی چالاکیاں، پیاز کے چھلکوں کی مانند تہہ درتہہ کھلتی چلی جاتی ہیں۔ پیاز کے چھلکے کی ہر تہہ، ضامن کی آنکھوں میں حیرت و استعجاب کے قطرے بھر دیتی ہے۔ صفیہ، جس کی خاطر عماد کو اغوا کیا گیا تھا، کاغذ کا پُرزہ چھوڑ کر غائب ہو جاتی ہے، عدیلہ کو چُپ لگ جاتی ہے۔ گائوں سے ایک فاصلے پر شہر پڑتا تھا، ضامن علی اپنے باپ کے ساتھ پہلی بار شہر کا رُخ کرتا ہے تو اُس کی معصومیت دیدنی ہوتی ہے، شہرکے بیچوں بیچ فطرس علی کا مطب ہے، حاجی فطرس علی ایک حکیم ہے، ضامن کے باپ کا دوست ہے اورزندگی کا شعور رکھتا ہے۔ فطرس علی، ضامن کو ڈرائونے خوابوں سے محفوظ رکھنے کے لیے تین کتابیں دیتا ہے۔ ایک نئے ضامن کا ظہور ہوتا ہے۔ یہاں سے سوّر کے لبادوں میں پھرتے آدمیوں کی شناخت شروع ہوتی ہے۔ نیاز کی خالی پلیٹ میں پڑی خوشبو ایک روز دَم توڑدیتی ہے کہ زینی کے نام پر قتل ہو جاتا ہے، سامنے خون میں لت پت پڑی لاش تھانے دار کی آنکھوں سے اوجھل ہوجاتی ہے، زینی کا مُرجھایا چہرہ، تھانے دار کے لیے لاش سے زیادہ اہمیت اختیار کرجاتا ہے، اُس کی آنکھوں میں ناچتی وحشت، ضامن علی کے ساتھ گائوں کا بوڑھا بھانپ لیتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد گائوں کی ڈسپنسری کی دیواروں میں ایک نئی کہانی تحریر ہوتی چلی جاتی ہے، ڈاکٹر فرح اپنے ہاتھوں سے یہ کہانی لکھتی ہے۔ زینی کے لمس کا پلستر ڈسپنسری کے کوارٹر کی دیوار وں سے اُکھڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ ضامن کے گائوں سے دُورخانیوال کا چھوٹا ساگائوں ٹبہ ولی بخش ہے، جہاں تین بھائی رہتے ہیں، جن کا باپ انگریزوں کا وفادار تھا، ایک بازو کے بدلے، وافر زمین اپنے نام کرواتا ہے۔ انگریزوں سے وفاداری کرنے والے کی نسل باہم وفادار نہیں رہتی، احمد بخش، اللہ بخش اور صادق بخش کے گھروں کے صحن جاگیردارانہ سماج کی پوری ثقافت کو سموئے ہوئے ہوتے ہیں، جائیدادیں، جائیدادوں کے نام پر کریہہ سازشیں اور سازشوں کے سانپ ایک دوسرے کو ڈستے رہتے۔ احمد بخش کا بیٹا طلال احمد اپنے چچا کو" فتا اوڈ" سے عدالت میں پیشی کے موقع پر قتل کروادیتا ہے۔ اللہ بخش کی بیٹی جو کہ ڈاکٹر ہوتی ہے، طلال کی چالاکیوں سے واقف ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر فرح جاگیردارنہ کلچر کو لات مار کر ٹبہ ولی بخش سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیتی ہے۔ یہ اپنے کلاس فیلو سے شادی کر لیتی ہے، ایک بیٹا جنید پیدا ہوتا ہے، یہاں سے ایک نئی کہانی جنم لیتی ہے۔ جنید، ضامن علی سے سات برس بڑا ہوتا ہے، نیاز کی خالی پلیٹوں میں پڑی خوشبو، ایک روز ضامن کو جنید کے کپڑوں سے اُٹھتی محسوس ہوتی ہے۔
پلیٹیں خوشبو سے خالی ہوتی ہیں تو ڈسپنسری بھی ویران ہو جاتی ہے، عدیلہ مرنے سے پہلے ضامن کی ماں کو ایک اَمانت سونپ جاتی ہے، یہ اَمانت ضامن کو زینی کی تلاش پر اُکساتی ہے، زینی جو جنید کے ساتھ بھاگ کر گائوں کو خوشبو سے خالی کر چکی ہوتی ہے۔ ضامن علی اب بڑا ہو جاتا ہے، وہ گائوں سے شہر آچکا ہوتا ہے۔ شہری ثقافت کے رنگ اُس کی معصومیت کا ہر لحظہ امتحان لیتے ہیں، کہیں کامریڈ وں کی شکل میں، کہیں اسلام آباد کی فیکٹری میں رات کے سناٹے میں باہم جڑی نوجوانوں کی پرچھائیوں کی صورت تو کہیں گریڈوں کے سیکٹر میں شائستگی کی رُوپ میں بھیانک چہروں کی شکل میں تو کہیں ظفر عالم، اُس کی بیوی اور شیزا کی صورت۔ مُدت بعد عدیلہ کی اَمانت زینی کی بیٹی شیزا کو سونپی گئی، مگر?اُدھر جاگیردارنہ کلچر کے منہ پر ڈاکٹر فرح کی لات، اُس کے قتل کا سبب بن جاتی ہے، جب ضامن ایک روز ٹبہ ولی بخش پہنچتا ہے تو قبرستان میں فرح کی قبر کے ساتھ جنید کی قبر پاتا ہے، بیٹا ماں کے انحراف کی بَلی چڑھادیا جاتا ہے۔
ضامن علی، ناول کے آغاز میں اسلام آباد کے ایک ہسپتال سے کماری والا کا سفرکرتا ہے، جہاں زینت، شاد بیگم بن کر جی رہی ہوتی ہے، یہ سفر ناول کے آخر میں اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ ضامن علی کماری والا میں تازہ کھُدی قبر کو بوسہ دیتا، زینت کو وہاں چھوڑتا اسلام آباد کی طرف چل پڑتا ہے۔
یہ ضامن علی کون ہے؟ اُس کی معصومیت برقرار ہے یا شیزا کے ساتھ قبر میں اُتر چکی ہے؟ یہ آپ"کماری ولا"کے علی اکبر ناطق سے پوچھ سکتے ہیں۔