مکاں سے لامکان تک کے سفرکا یہ کیسا بھید ہے جسے عقل انسان آج تک سمجھنے سے قاصر ہے کہ بستر بھی گرم دروازے پر لگی زنجیر بھی اسی طرح ہلتی رہی گویا ابھی کوئی اٹھ کر باہرگیا ہو۔ سائنسی علم کے مطابق تو یہ راستہ اربوں، کھربوں سالوں پر محیط ہونا چاہیے تھا۔ یہ سفر جس میں عالم بالا سے خالق کائنات نے ملاقات کا سندیسہ بھیجا سُوئے منتہیٰ کو نبیؐ نے کوچ فرمایا اور وہ کیسی نہ خوبصورت سواری رہی ہو گی جسے براق کا نام دیا گیا، جسے جبرائیل امین لے کر اترے اللہ کے نبیؐ کو سوار کرایا اس کی رفتار کے بارے میں سوچیے تو عقل حیران ہوتی ہے جس طرف نظر پہنچتی اس جگہ براق پہنچ چکا ہوتا۔ سواری نے ساتویں آسمان تک چشم زدن میں پہنچایا، بے شک میرے رب کے لیے کچھ نا ممکن نہیں۔
خالق کائنات نے اپنے محبوب سے ملاقات کے لیے رجب کے ماہ مبارک کو منتخب کیا قاصدکو بھیجا آپ سو رہے تھے۔ فرشتوں کے سردار نے با ادب ہو کر جگایا، چلیے نبی محترم اللہ پاک نے یاد فرمایا ہے۔ پہلے آپؐ کو حطیم لے گئے جہاں دنیا کی پہلی اوپن ہارٹ سرجری جبرئیل امین نے کی، آپ کے جسم مبارک سے دل مبارک کو نکال کر آب زم زم سے دھویا پھر اس میں نور بھر دیا اپنے ساتھ لائی ہوئی سواری جو دیکھنے میں گدھے سے بڑی قد اور خچر سے چھوٹا دکھائی دیتا تھا آپ اس پر سوار ہوئے حضرت جبرئیل امین کے ہمراہ چلے بیت المقدس پہنچے جہاں سارے انبیا موجود تھے سب نے آپؐ کی امامت میں دو رکعت نماز نفل ادا کی۔
اللہ نے مسجد اقصیٰ کو بیت للہ کے تابع ہونے کا اعلان فرمایا، بحیثیت مسلمان ہم سب پر تمام انبیا کے نبی ہونے کا حکم فرمایا دیا اور تمام انبیا پر آپؐ کی نبوت اور رسالت کی مہر لگا کر آپ کی شریعت کو تاقیامت نافذ کرنے کا حکم نافذ کر دیا گیا، تمام انسانوں کے لیے مسجد اقصیٰ کے بجائے خانہ کعبہ کو بیت اللہ ہونے کی حیثیت سے قائم فرما دی یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا اس دن اللہ نے بہت بڑے فیصلے فرمائے سب سے بڑھ کر اپنے محبوب کو ملاقات کا شرف عطا فرمایا جو کسی اور نبی کو حاصل نہیں ہوا۔
مسجد اقصیٰ سے نماز کے بعد آپ کی سواری آسمان کی جانب روانہ ہوئی تو آپؐ کو جنت کی نعمتیں دکھائی گئیں، وہاں کی وسعتیں و آسائشیں آرام ٹھنڈک سکون دائمی زندگی کی خوشیاں جن کا ایک انسان تصور بھی نہیں کر سکتا اس کا کچھ احوال ہمیں قرآن پاک اور احادیث کی کتابوں میں ملتا ہے۔ اسی طرح آپؐ کو جہنم اور ان کی سزاؤں کا منظر نامہ بھی دکھایا گیا۔ دنیا میں اپنے برے اعمال کی سزا کے وہ مناظر جسے سن کر دل پر لرزہ طاری ہو جائے یہ اللہ کی حکمت ہے جو اس نے اپنے نبی کے ذریعے ہم سب کو پیغام دیا ہے دیکھو اچھے اعمال کا کیسا انعام ہم دیں گے اور برے کاموں پر اس قدر سخت عذاب دیا جائے گا، اب یہ ہمارا اختیار ہے کہ ہم اپنے لیے کیا تجویزکرتے ہیں۔
آنحضورؐ سارے راستے دیکھنے کے بعد جب پہلے آسمان پر پہنچے تو ہم سب جد امجد حضرت آدم ؐ کو دیکھا، سلام ہوا، انھوں نے میرے نبی کہہ کر ملاقات کی۔ دوسرے آسمان پر آپ کے حضرت یحییٰ ذکریاؑ منتظر تھے تیسرے آسمان پر پہنچے تو حضرت یوسف ؐ نے سلام کیا چوتھے آسمان پر حضرت ہارونؑ نے آپ کا استقبال فرمایا، پانچویں آسمان پر حضرت ادریسؑ نے آپ سے مصافحہ فرمایا، چھٹے آسمان پر حضرت یونسؑ سے ملے اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراھیمؑ نے میرا بیٹا کہہ کر آپ کی پیشانی مبارک کو بوسہ لیا، آپ کی امت کے لیے سلام بھیجا یہ وہی سلام ہے جس کے جواب میں رہتی دنیا تک نبی کی تمام امتیں حضرت ابرا ہیمؑ کو درود پاک میں سلام بھیجتی رہیں گی۔ اب سدرۃالمنتہیٰ کی منزل آ چکی تھی جبرائیل امین نے حضور سے فرمایا اس سے آگے جانے کی اجازت ہمیں نہیں ہم آگے بڑھیں گے تو ہمارے پر جل جائیں گے اب آپ کو اکیلے ہی جانا ہو گا۔
خالق کائنات اور وجہ کائنات کے درمیان ملاقات ایک پردہ ہے جسے ہم اور آپ کبھی نہیں جان سکیں گے نہ ہم سب اس لائق ہیں ہم اتنی جرات کر سکیں لیکن میرے نبی ؐ کو اپنی امت سے کس قدر محبت ہے کہ انھوں نے اللہ سے امت کی بخشش کا وعدہ لیا۔ نماز جیسی خوبصورت تحفے کو حاصل فرمایا کہ آج بھی اسی نماز میں جبینوں کو سجدے میں گرا کر نبی کے امتی سکھ پاتے ہیں۔ دنیا و آخرت سنورتی ہے، دنیا کا کتنا ہی بڑا دکھ کیوں نہ ہو سجدے میں جا کر انسان ہر احساس ہر تکلیف کی شدت کو بھول جاتا ہے یہ اسی رات کا تحفہ ہے کہ ہم مسلمان دن میں پانچ مرتبہ نماز ادا کر کے اپنے دلوں کو شاد کرتے ہیں، جسے ہمارے نبی نے دین کا ستون قرار دیا، جب اللہ نے پچاس نمازوں کا حکم فرمایا تو سوچیے نماز لازم بھی کرنا تھی اور حکم عدولی بھی نہ کر سکتے تھے۔ پچاس سے پانچ نمازوں تک منوایا ورنہ اس سے پہلے حضرت موسیٰؑ کی قوم پر محض فجر اور عصر کی دودو رکعتیں نماز فرض تھیں مگر ان کے امتی وہ بھی ادا نہیں کر سکے یہ کتنے پیارے نبی ہیں جنھوں نے اس رات اپنے لیے کچھ نہ مانگا صرف اپنے امتیوں کی فکر میں مبتلا رہے۔
اللہ سے بخشش کا وعدہ لے کر آئے قیامت کے دن جب سگے خونی رشتے ماں باپ جیسے جان عزیز بھی افراتفری کے عالم میں ہونگے سب کو اپنی پڑی ہو گی۔ میرے نبیؐ کو اپنی امت کی فکر ہو گی میدان حشر میں اپنے امتیوں کے اعمال غم میں مبتلا ہوں گے۔ ایک ہم مسلمان قوم جسے دنیا اتنی عزیز ہے کہ اپنی آخرت کو بھولے ہوئے ہیں اپنی نبیؐ جیسی پیاری ہستی کے لیے کچھ سوچنے کا ہمارے پاس وقت نہیں۔ ان کا وژن کیا تھا اللہ نے اس رات ایسا کیا کچھ عنایت فرما دیا کہ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی، کسی نبی رسول پیغمبر کی ضرورت نہ رہی دین مکمل ہو گیا وجہ کائنات کا مقصد پورا ہو گیا اس بات پر مہر ثبت کر دی گئی کہ جو ان کے راستے پر چلے گا وہ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب ہو جائے گا۔ دنیا تو ملے گی ہی آخرت میں بھی سرخرو ہو جائے گا اور یہ تو ہر مسلمان کا خواب ہے کہ اللہ اس سے راضی ہو جائے۔