Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Bhutto Ki Phansi Ke Khilaf Reverences, Khush Aaind Amal

Bhutto Ki Phansi Ke Khilaf Reverences, Khush Aaind Amal

تہذیب یافتہ ممالک میں یہ روایت انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ پرانے doubtedکیسز کو کھولا جائے، اور عوام کے سامنے اُس کی حقیقت کو رکھاجائے۔ اور جہاں جہاں غلطیاں ہوئیں، ایسا لائحہ عمل بنایا جائے کہ دوبارہ ایسے "بلنڈرز" سے بچا جا سکے۔ پاکستان میں بھی آجکل ایسا ہی ایک کیس ناصرف زیر بحث ہے، بلکہ سپریم کورٹ میں آج ہی کی تاریخ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9رکنی لارجر بینچ اس کی سماعت بھی کر رہا ہے۔ یہ کیس 11 سال بعد سماعت کے لیے مقرر کیاگیاہے۔ اور اسے سابق صدر آصف علی زرداری نے اپریل 2011 میں سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔ ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پانچ سوالات پر مبنی ہیں۔

صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟ چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟ جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟

خیر آج سے جس کیس کی سماعت کا آغاز ہو رہا ہے وہ یقینا ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دھبہ ہے، جسے آج تک نہ تو عدلیہ دھو سکی ہے اور نہ ہی ادارے۔ بلکہ بھٹو کی پھانسی اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گئی۔ اہم ترین سوال تو یہی تھا کہ نواب محمد احمد کے قتل میں سزائے موت پانے والے دیگر 4 مجرموں کی بھٹو کے خلاف گواہی کیا قانوناً قابلِ قبول اور قابلِ اعتبار تھی؟ بھٹو کے ٹرائل پر بھی سوالات اٹھے۔ ہائی کورٹ کے جس بینچ نے بھٹو کا مقدمہ سنا اس کی سربراہی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق کر رہے تھے جنہیں ضیا الحق نے لگایا تھااور یہ وہی مولوی مشتاق تھے، جن کی ترقی کو بھٹو نے روکے رکھا اور 8سال جونیئر جج کو لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا۔ پھر سپریم کورٹ میں بھٹو کا کیس سننے والے جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں انہیں بھٹو کا دشمن قرار دیا تھا۔

جسٹس نسیم حسن شاہ کا یہ بیان بھی انتہائی اہم ہے کہ بھٹو کے وکیل نے اپنے دلائل سے ججز کو ناراض کر دیا تھا،۔ اور پھر سب سے اہم یہ کہ ایک مفروضہ یہ بھی تھا کہ امریکا بھٹو صاحب سے ناراض تھا اور انہیں نشانِ عبرت بنانا چاہتا تھا۔ اس ضمن میں ہنری کسینجر کی بھٹو کو دھمکی اور سابق امریکی اٹارنی ریمزی کلارک کا نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والا بیان خصوصی اہمیت کا حامل ہے، جس میں وہ بھٹو کے اقتدار سے محرومی کو امریکی آشیرباد کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا نے بھٹو کو سرد جنگ میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے راستے سے ہٹایا۔

بھٹو صاحب نے خود بھی یہ بیان دیا کہ سفید ہاتھی ان سے ناراض ہے۔ بھٹو کو سزائے موت سنانے والے اور بھٹو کی لاش وصول کرنے والے دونوں کو ہی یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایوب خان کی کابینہ سے اپنا سیاسی کیریئر شروع کرنے والا ذوالفقار علی بھٹو اپنی موت کے بعد یوں امر ہوجائے گا۔ میرے نزدیک یہ بھٹو کی موت ہی تھی کہ جس نے پاکستان پیپلزپارٹی میں نئی روح پھونکی، یہ بھٹو کی موت تھی کہ جس نے اس جماعت کو 3 بار اقتدار دیا، یہ بھٹو کی موت ہی تھی کہ جس نے بے نظیر بھٹو کو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بنایا۔

رہی بات محمود علی قصوری کے قتل کی تو اُن کے تعلق کو اگر بھٹو صاحب کے ساتھ ملا کر پڑا جائے تو یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے دو جگری دوستوں نے پارٹنر شپ پر کوئی کام شروع کیا تو بعد میں اُنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف ایسے محاذ شروع کر دیے کہ بات زندگی اور موت تک جا پہنچی۔ درحقیقت محمود علی قصوری بھٹو صاحب کے پرانے ساتھیوں میں سے ایک تھے، اور قصوری صاحب کا شمار بھی اُنہی رہنمائوں میں ہوتا تھا جنہوں نے پنجاب میں پیپلزپارٹی کو مضبوط کیا۔ تبھی 1966ء میں جب بھٹو صاحب نے ایوب کابینہ سے استعفیٰ دیا تو وہ قصوری صاحب کی دعوت پر لاہور آئے اور یہیں سے وہ اُنہیں قصور لے گئے۔

محمود علی قصوری کے بیٹے احمد رضا قصوری(سابق رہنما پی ایم ایل کیو) کے مطابق بھٹو کو روٹی کپڑا مکان کا نعرہ بھی اُن کے باپ نے بابا بھلے شاہ سے متاثر ہو کر دیا تھا۔ پھر پیپلز پارٹی کے باقاعدہ قیام سے تین دن پہلے قصور میں ان ہی کی رہائش گاہ پر بھٹو نے اعلان کیا کہ وہ اس نعرے کو اپنے منشور کا حصہ بنانے جا رہے ہیں۔ پھر سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور دسمبر 1970 میں احمد رضا قصوری پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قصور سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔

دونوں رہنمائوں کے درمیان اختلافات کی بنیاد اس طرح سے ہوئی کہ انتخابات کے بعد بھٹو نے فیصلہ کیا کہ تین مارچ 1971 کو ڈھاکہ میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے نہ ہی کسی اور رکنِ اسمبلی کو ایسا کرنے دیں گے۔ بعض اخباروں نے لکھا کہ ایسا کرنے والوں کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ لیکن بھٹو کے برخلاف احمد رضا قصوری اس اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ پہنچ گئے لیکن یہ اجلاس منعقد نہیں ہوا۔ یہیں سے بھٹو اور قصوری کے درمیان فاصلے بڑھنے شروع ہو گئے۔ پھر بھٹو صاحب نے اُن کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے اُن کی پارٹی رکنیت کو معطل کر دیا۔ جس پر اگلے ہی دن قصوری صاحب نے ایک پریس کانفرنس کھڑکا دی۔ جس میں اُنہوں نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بھٹو کو ہی برطرف کرنے کا اعلان کردیا۔ جواب میں بعد ازاں پیپلز پارٹی کی مجلس عاملہ نے قصوری کو باضابطہ طور پر پارٹی کی رکنیت سے خارج کر دیا اور یوں بھٹو اور قصوری کے درمیان اختلافات کی خلیج مزید گہری ہوگئی۔

خیر بات بڑھتے بڑھتے بڑھ گئی اور پھر جو ہوا اُس حوالے سے سبھی جانتے ہیں۔ لہٰذااب دیکھنا یہ ہے کہ اس کیس کی گہرائی کیا ہے؟ کس نے کیس میں کتنا پانی ڈالا اور کس نے نظریہ ضرورت کے تحت اس کافائدہ اُٹھایا۔ یقینا اس حوالے سے آج سے شروع ہونے والی سماعت میں یہی باتیں ڈسکس ہوں گی اور اُمید ہے تفصیل سے ہوں گی اور کسی کو ان باتوں سے تکلیف بھی نہیں پہنچے گی۔ کیوں کہ یہ بات ہمیں سمجھ لینی چاہیے کہ سیاست میں جب تک ہم اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تلاش نہیں کریں گے تب تک ہم اپنی اصلاح نہیں کرسکیں گے!