Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Civilian Shuhada Ke Liye Kharaj e Shuhada Fund Kya Hua

Civilian Shuhada Ke Liye Kharaj e Shuhada Fund Kya Hua

کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان شہری سہولیات کے حوالے سے صرف شام، کانگو اور سوڈان سے بہتر ہے؟ دنیا میں بہترین شہری سہولیات کے حوالے سے پاکستان194ویں نمبر پر آتا ہے۔ یہ کیسے جانچا جاتا ہے کہ کس ملک کے کتنے فیصد شہریوں کو شہری سہولیات میسر آرہی ہیں؟ اس کے لیے قانونی، اسٹرٹیجک، مالیاتی اور بیرونی سرمایہ کاری کو چیک کیا جاتا ہے۔

پاکستان ان چاروں ڈومین پر پورا نہیں اُترتا۔ دنیا ہمارا بچوں سے مشقت، خواتین سے امتیازی سلوک، بلکہ کارکنوں اور مزدوروں کا اپنی ملازمت تک پہنچنے، کام کے دوران جسمانی عدم تحفظ اور اپنے سویلین شہداء کے حوالے سے بھی کوئی اچھا تاثر نہیں۔

آرمی اور پولیس فورسز اپنے شہدا کو سہولیات فراہم کرتی ہیں، پہلے پولیس میں سہولیات نہیں تھیں لیکن گزشتہ چند سالوں سے پولیس نے بھی اپنے شہدا کی قدر کرنا شروع کر دی ہے اورشہدا فنڈ قائم کیا ہے جس کے مطابق 70لاکھ سے زائد کی رقم شہید ہونے والے ورثا کو دی جاتی ہے، لیکن جب عام شہری حکومتی غفلت کے باعث شہید ہوتا ہے تو اُسے محض 5، 10لاکھ روپے معاوضہ ادا کرکے اُس کی توہین کر دی جاتی ہے۔ اُس کے بعد بچوں یا اُس کی بیوہ کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ راقم اس موضوع پر 2010 سے لکھ رہا ہے کہ خدارا اُن شہریوں کا ریکارڈ مرتب کیا جائے جو دہشت گرد کارروائیوں میں شہید ہو چکے ہیں۔

اُن کے خاندان کی فہرست مرتب کی جائے یا کم از کم اُن افراد کے زیر سایہ پلنے والے افراد کا ڈیٹا ہی اکٹھا کر لیا جائے تاکہ حکومت کو علم ہو کہ وہ کن حالات میں رہ رہے ہیں۔ راقم کی گزشتہ سال وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے بات بھی ہوئی جس کے بعد پنجاب حکومت نے ایک بڑافیصلہ کیا، اور سویلین شہداء کے لیے بجٹ میں 15کروڑ روپے کا فنڈ رکھ دیا لیکن آج اس بات کو پورا ایک سال ہوگیا، مگر پنجاب حکومت شاید مختص رقم شہداء کے ورثا کو دینا بھول گئی۔

یورپ کے قوانین میں یہ بات شامل ہے کہ اگر کوئی شہری حکومتی غفلت سے مارا گیا تو اسے عام سیکیورٹی فورسز سے دوگنا معاوضہ بھی ملتا ہے اور ورثاء کے لیے ماہانہ و سالانہ فنڈ کا انعقاد بھی کردیا جاتا ہے۔ جیسے کینیڈا میں حال ہی میں ایک گھر میں پانچ پاکستانی شہری جل کر مارے گئے، ان مرنے والوں کے لیے حکومت نے فنڈ مختص کیا اور ویب پورٹل پر بھی کینیڈین شہریوں کی جانب سے فنڈ اکٹھا کیا گیا جس کی مالیت دو لاکھ امریکی ڈالر بنتی ہے۔

افسوس!2001 سے لے کر2021تک دہشت گردی کی عالمی جنگ، آپریشن ضرب، عضب آپریشن راہ حق، آپریشن راہ راست اور آپریشن راہ نجات میں جہاں ہزاروں کی تعداد میں سیکیورٹی فورسز کے جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، وہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران اس مٹی کو اپنے خون سے سینچنے والوں میں اور بھی نام شامل ہیں۔ بم دھماکوں میں مرنے والے سویلین تو کسی قطار شمار میں نہیں۔ حتیٰ کہ اس سے پہلے پولیس بھی اپنے شہدا کے لیے کچھ نہیں کرتی تھی، جیسے جنوری 2004 سے دسمبر 2016 تک کے عرصہ میں صرف خیبر پختونخوا میں 16000کے لگ بھگ پولیس، خاصہ دار اور لیویز فورس کے اہلکاروں نے وطن پر اپنی جانیں قربان کیں۔ ان میں صرف پولیس کے 1100 آفیسرز اور اہلکار شامل ہیں۔

عابد علی، ملک سعد اور صفوت غیور جیسے بہادر و جری آفیسرز نے جام شہادت نوش کیا۔ ان پولیس اہلکاروں کی جان اس قدر ارزاں تھی کہ انھیں محض پانچ لاکھ دیکر جان چھڑا لی جاتی۔ وہ تو بھلا ہو اے این پی کا جس نے شہید پولیس اہلکار کے ورثاء کو دیا جانے والا معاوضہ بڑھا کر 30 لاکھ کر دیا۔ کراچی میں آئے روز پولیس والے مارے جاتے ہیں۔

2013 میں 171 جب کہ 2014 میں 143 پولیس اہلکار شہید کیے گئے اور اگلے سالوں میں بھی اسی تناسب سے شہید ہو جاتے ہین مگر ان کے خاندانوں کو معاوضے کی رقم ادا نہیں کی جاتی تھی، ایسے لگتا تھا جیسے ان وردی والوں کے لہو کا رنگ سرخ نہیں ہوتا یا پھر ان کے ورثاء دوسرے درجے کے شہری ہیں؟ لیکن بعد میں ان شہداء کے ورثاء کو گھر مہیا کیا گیا، زرعی زمین بھی دینے کی اطلاعات آئیں اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کی بھی خبریں موصول ہوتی رہیں۔ لیکن!

کہاں ہیں عام سویلین شہداء کے لیے مراعات؟ ان سویلین کی تعداد 20سالوں میں ایک لاکھ سے زائد ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسجدوں، امام بارگاہوں، پارکوں اور دیگر مقامات پر شہید ہونے والے ان عام شہریوں کے پسماندگان کو نہ تو سرکاری زمین ملتی ہے، نہ ان کے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے، نہ کسی سرکاری تقریب میں مدعو کیے جاتے ہیں، نہ ماہانہ وظیفہ مقرر ہوتا ہے، نہ کوئی فنڈ ملتا ہے اور نہ ہی شہید ہونے والے کے بچوں کو سرکاری نوکری ملتی ہے۔ محض اعلان کردہ پانچ دس لاکھ روپے کی رقم فراہم کر دی جاتی ہے، جو شاید اُس شہید کے لواحقین کفن دفن کے انتظام ہی میں خرچ کر دیتے ہیں بلکہ حد تو یہ ہے کہ کوئی حکمران سویلین شہدا کے لواحقین کو تسلی کے لیے بھی نہیں پہنچتا۔ بقول شاعر

حرف تسلی تو اک تکلف ہے

جس کا درد، اسی کا درد، باقی سب تماشائی!!

خیر ابھی بجٹ پیش ہوا ہے، پنجاب کی بجٹ دستاویزات کے مطابق ابھی تک خراج الشہداء فنڈ کا ذکر نہیں مل رہا۔ یہ بھی نہیں علم کہ پرانے بجٹ کو واپس کر دیا جائے گا یا اس حوالے سے کوئی وزارت یا ڈیپارٹمنٹ بنانے پر کام کیا جارہا ہے۔ لیکن فی الوقت تو پنجاب سرکار جوہر ٹاؤن لاہور کے حالیہ دھماکے میں شہید ہونے والے چار افراد کے لیے معاوضے کا اعلان تک نہیں کر سکی۔ لہٰذاحکومت سے گزارش ہے کہ اس حوالے سے فوری طور پر خدشات دور کیے جائیں تاکہ ایک تو دنیا بھر میں ہمارا مثبت امیج قائم رہے اور دوسرا شہید ہونے والے ورثا عدم تحفظ کا شکار نہ ہوں۔

اس سے یہ بھی ہو گا کہ سویلین شہدا سے خراج الشہداء تک کا جو سفر موجودہ حکومت نے شروع کیا تھا، وہ بھی چلتا رہے گااور جس طرح حکومت صحت کارڈ، احساس کارڈ، بے نظیر کارڈ وغیرہ شروع کر رہی ہے، اسی طرح حکومت "شہید ورثا کارڈ" کیوں نہیں جاری کر دیتی تاکہ معاشرے میں ہر کوئی اُس خاندان کو عزت کی نگاہ سے دیکھے۔