آج کل اکثر ٹی وی آن کریں تو بلاول بھٹو زرداری ہوں، سابق صدر زرداری ہوں، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ک ہوں یا سندھ کے دیگر وزراء ہوں، سب ایک ہی بات کررہے ہوتے ہیں کہ "آئینی حقوق پر سودے بازی نہیں کریں گے اور صوبوں کے حقوق وفاق سے چھین کر لیں گے" مزید کہا جاتا ہے کہ "ہم نے ناصرف سندھ بلکہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھائی، ہر ضلع میں جا کر عوام کو بتائیں گے کہ کس طرح ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، آپ کے حق پر ڈاکا ڈالا جارہا ہے، آپ کے وسائل نہیں دیے جا رہے، این ایف سی ایوارڈ نہیں دیا جارہا ہے، این ایف سی ایوارڈ نا دے کر ظلم کیا جا رہا ہے لیکن کب تک ظلم برداشت کریں گے"۔
یہ وہی نعرے ہیں جو 1971سے پہلے اور بعد میں بھی لگا کرتے تھے، جنھیں اس وقت کے حکمران سنجیدہ نہیں لیتے تھے۔ خیر آجکل حالات اُس نوعیت کے تو نہیں ہیں مگر آنے والے وقت میں اس میں پیچیدگیاں بڑھانے کے لیے کئی قوتیں اس میں اُمڈ سکتی ہیں۔ لہٰذاہمیں اس حوالے سے ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے صوبوں اور وفاق کے درمیان لڑائی ختم ہو۔
آخر صوبوں اور وفاق کے درمیان مسئلہ ہے کیا؟ اسے جاننے کے لیے ہمیں سب سے پہلے این ایف سی ایوارڈ(نیشنل فنانس کمیشن) کو سمجھنا ہوگا۔ نیشنل فنانس کمیشن کا قیام آئین کے آرٹیکل (1)160 کے تحت عمل میں لایا گیا ہے۔
اس شق کے مطابق "یوم آغاز سے چھ ماہ کے اندر، اور اس کے بعد ایسے وقفوں سے جوپانچ سال سے متجاوز نہ ہوں صدر ایک قومی مالیاتی کمیشن تشکیل کرے گا جو وفاقی حکومت کے وزیر مالیات(وزیر خزانہ)، صوبائی حکومتوں کے وزرائے مالیات (وزرائے خزانہ) اور ایسے دیگر اشخاص پر مشتمل ہو گا جنھیں صدر صوبوں کے گورنروں سے مشورے کے بعد مقرر کرے۔"
اس کمیشن کا بنیادی کام ملک بھر کی محصولات کی خالص آمدنی کو وفاق اور صوبوں میں تقسیم کرنا اور وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومتوں کو امدادی رقوم دینا اور بنیادی مقصد صوبوں کی مالی حالت کو مستحکم کرنا ہے۔ اگر آسان الفاظ میں بیان کیاجائے تو یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو پورے ملک کی حاصل شدہ آمدنی وفاق اور صوبوں میں طے شدہ فارمولہ کے تحت تقسیم کرتاہے۔ وزیر خزانہ قومی مالیاتی ایوارڈ کا چیئرمین ہوتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد دسمبر 1947میں صوبوں میں محاصل کی تقسیم کا فارمولاسر "جیریمی ریزمین" نے ترتیب دیا جو 1952میں باقاعدہ طور پر اختیار کر لیا گیا۔ اس ایوارڈ کے تحت سیلز ٹیکس کا 50 فیصد حصہ وفاقی حکومت کو دیا گیا۔
1955 پاکستان کو ون یونٹ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کا نام دیا گیا تو 1961 اور1964کے دو ایوارڈز میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں اس پروگرام کے تحت ہی محصولات تقسیم ہوئے۔ 1974 میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں پہلے این ایف سی ایوارڈ میں وفاق کا حصہ 20فیصد تھا جب کہ صوبوں کا حصہ 80فیصد رکھا گیا۔ اگلے تین این ایف سی ایوارڈ میں یہ حصہ تبدیل نہیں کیاگیا اور بغیر کسی کمی بیشی کے اس فارمولے پر عملدرآمد جاری رہا۔
1997کے این ایف سی ایوارڈ میں نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد نے صوبوں کا حصہ کم کردیا اور وفاق کے حصے کو بڑھادیا گیا۔ اس ایوارڈ میں وفاق کا حصہ42.5فیصد بڑھا دیاگیا، جب کہ صوبوں کے حصہ80فیصد سے کم کرکے 37.5 فیصد کر دیا گیا۔ 2009 میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ایک بار پھر قومی مالیاتی کمیشن نے وفاق اور صوبوں کے حصوں میں ردوبدل کیاجس کے بعد وفاق کے حصے میں واضح کمی کی گئی اور صوبوں کو بڑا حصہ کر دیا گیا۔
خیر ہر قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل کے بعد وفاق اور صوبوں کے حصوں میں اکثر اوقات اختلافات سامنے آتے رہے۔ اس کمیشن کی تشکیل سے اب تک دوبار بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی جس میں ایک بار وفاق اور ایک بار صوبوں کے حصے میں اضافہ کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت 2010 میں ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے موقعے پر ہوئی۔ جو صوبائی خود مختاری کے حوالے سے ایک تاریخی پیش رفت تھی کیونکہ اس میں پہلی بار وسائل میں سے وفاق کے حصے میں خاطر خواہ کمی لا کر صوبوں کا حصہ بڑھایا گیا۔ اس سے قبل وسائل کا سب سے بڑا حصہ وفاق کو جا رہا تھا اور صوبوں کو شکایت ہوتی تھی کہ ان کے پاس عوامی منصوبوں اور امور مملکت چلانے کے لیے مالی وسائل ہی نہیں ہوتے۔
ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں طے کیا گیا تھا کہ پاکستان کی کل آمدنی اگر سو روپے ہوگی تو اس میں سے وفاق کا حصہ 42 روپے پچاس پیسے ہوں گے جب کہ باقی کے 57 روپے اور پچاس پیسے پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے پاس جائیں گے۔ اس ایوارڈ سے قبل صوبے آپس میں رقم آبادی کے لحاظ سے تقسیم کرتے تھے، تاہم اس میں کم آبادی والے صوبوں خصوصاً بلوچستان کو شکوہ ہوتا تھا کہ ان کو کم رقم ملی ہے۔ ساتویں ایوارڈ میں اس مسئلے کو کسی حد تک حل کیا گیا اور آبادی کے علاوہ دیگر عوامل کی بنیاد پر بھی وسائل کی تقسیم کی گئی جن میں پیداواری صلاحیت، منتشر آبادی اور پسماندگی جیسے عوامل بھی شامل تھے۔ اس کی وجہ سے پنجاب کا حصہ کم ہو گیا اور چھوٹے صوبوں کا حصہ قدرے بڑھ گیا۔
اس اقدام سے چونکہ وفاق کو زیادہ فائدہ نہیں ہورہاتھا، اس لیے اب وفاق بسا اوقات صوبوں کے پیسے روک لیتا ہے اور یہی اصل لڑائی ہے۔ سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان ہم آہنگی کبھی نہیں رہی، دونوں حکومتوں کے عہدیدار ایک دوسرے کے خلاف کافی عرصے سے بیانات آرہے ہیں۔ وفاقی حکومت کئی بار سندھ میں گورنر راج کی دھمکی بھی د ے چکی ہے لیکن جاری سیاسی حالات میں حکومت اس قسم کے انتہائی اقدام کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ بہرحال اس سے قطع نظر وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان 90کی دہائی کی سیاسی تاریخ دہرانے کا منظرنامہ بن رہا ہے۔
کئی دیگر وجوہات اور معاملات سے بھی حکومت کی مشکلات بڑھ رہی ہیں، مشکل امر یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ سندھ اور مرکزی حکومت وسائل پر بات کریں۔ حکومتی وزراء سندھ کے وزراء کا تمسخر اُڑاتے ہیں اور کرپشن کے تانے اور آوازیں کستے ہیں۔ میرے خیال میں یہ فعل کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اگر سندھ میں کرپشن ہو رہی ہے، اور یقینا ہو بھی رہی ہوگی تو اُس کرپشن کو روکنے کے لیے آڈیٹر جنرل پاکستان کو متحرک کیا جائے، اداروں کو فعال کیا جائے، یا اسمبلیوں میں قانون سازی کی جائے ناکہ قانون کے منافی کام کرکے صوبوں کو بدظن کیا جائے۔
لہٰذا ان مشکل معاشی حالات میں سیاسی اختلافات کا اظہار اور ایک دوسرے پر تنقید اور مورد الزام ٹھہرانا عوام کے دکھ درد اور ان کی تکالیف سے منہ موڑنے کے مترادف ہے جس کی گنجائش نہیں۔ لہٰذادونوں حکومتوں کو اگر "ساس بہو" والی لڑائی چھوڑ کر اپنی ذمے داریوں کا ادراک نہ ہوا تو یہ ملک کے لیے برا ہوگا، جس کا اس وقت پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔
اس سے بھی بڑھ کر ایک تجویز یہ بھی ہے کہ مسئلے کے اصل حل کی طرف توجہ دی جائے اور وسائل کی تقسیم کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ان مسائل کا اصل حل کیک کا سائز بڑھانا بھی ہے یعنی کہ ملک کے مجموعی وسائل اور آمدنی میں اضافہ کریں تاکہ سب کا حصہ بڑھ جائے، اور ملک افراتفری اور صوبائی تعصب سے باہر نکل آئے۔