Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. Khabrain/
  3. Shatir Trump Ka Dora Bharat

Shatir Trump Ka Dora Bharat

امریکی صدر جو ایک سیاسی مدبر کے بجائے محض بزنس منیجر لگتے ہیں، اُن کے دو روزہ دورہ بھارت نے عجب عجب اچھنبوں، وسوسوں اور اَندیشوں کو ہوا دِی ہے۔ اُن کے دورے کا پہلا اچھنبا یہ تھا کہ وہ براہِ راست احمدآباد آئے جس کے ساتھ بھارتی مسلمانوں کی انتہائی دردناک یادیں وابستہ ہیں۔ بدقسمتی سے نریندرمودی گجرات کے وزیرِاعلیٰ تھے اور اُن کی اعانت سے بی جے پی نے دو ہزار سے زائد مسلمان زندہ جلا دیے تھے۔ اِس پر امریکا نے اُن کے داخلے پر پابندی لگا دی تھی، لیکن اُن کے مزاج سے گہری مشابہت رکھنے والے ڈونلڈٹرمپ برسرِاقتدار آئے اور وہ اُس جلسہ عام میں بھی شریک ہوئے جس میں امریکی نژاد بھارتیوں سے وزیرِاعظم نریندرمودی نے خطاب کرنا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اُن کی شان میں طویل قصیدہ پڑھتے ہوئے اُنھیں اپنا دوست قرار دِیا۔ نریندرمودی کے "مسلمانوں کے قاتل" کے خطاب کی یاد تازہ رکھنے کے لیے امریکی صدر پہلے احمدآباد لائے گئے۔

24فروری کو صدر ٹرمپ نے جو جچی تُلی تقریر کی، اِس سے بھارت میں وقتی طور پر صفِ ماتم بچھ گئی جبکہ پاکستانیوں کے چہرے خوشی سے کِھل اُٹھے۔ ہمارے وزیرِخارجہ نے مژدہ سنا دیا کہ پاکستان امریکی تعلقات کی نئی تاریخ طلوع ہو رہی ہے۔ بلاشبہ امریکی صدر نے اپنے ابتدائی کلمات میں ایک سماں باندھ دیا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں اور وزیرِاعظم عمران خاں میرے دوست ہیں۔ وہ یہ بھی اعلان کر رہے تھے کہ پاکستانی قوم اور مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف زبردست کامیابیاں حاصل کی ہیں جن کی بدولت جنوبی ایشیا میں امن، سلامتی اور استحکام کو فروغ حاصل ہو گا۔ بھارت کی سرزمین سے پاکستان کے حق میں امریکی صدر کی طرف سے تعریف اور توصیف کے یہ کلمات غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئے۔

ہماری قومی قیادت اِن کلمات سے یقیناً فائدہ اُٹھا سکتی ہے۔ چند باتیں اُبھر کر سامنے آگئی ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان کا کردار اِس خطے میں حددرجہ مثبت ہے، دوسرا یہ کہ دہشت گردی کی کمر توڑنے اور مذہبی انتہاپسندی پر قابو پانے میں پوری قوم اور مسلح افواج سنجیدہ ہیں۔ تیسرا یہ کہ مسئلہ کشمیر جو حلق کا کانٹا بنا ہوا ہے، اُسے حل کرنا ازبس ضروری ہے، چنانچہ امریکی صدر نے ثالثی کی پیشکش کا برملا اعادہ کیا۔ ایک طبقہ اِس نقطہ نظر کا حامی ہے کہ صدر ٹرمپ نے بھارت کی سرزمین سے پاکستان کی تعریف میں بڑی فنکاری سے کام لیا ہے اور بیک وقت چند فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک یہ کہ بھارت پر دباو رکھا جائے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان کو خوش کر کے اس کی توجہ اُن اہداف سے ہٹائی جائے جو امریکا اِس دورے سے حاصل کر لینا چاہتا ہے۔ تیسرا یہ کہ پاکستان کو یہ توقع رہے کہ امریکا اِس کی معاشی صورتِ حال کو بہتر بنانے میں اہم کردار اَدا کر سکتا ہے۔

بھارتی دورے کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا، وہ پاکستان کے لیے گہری تشویش کا باعث ہو سکتا ہے۔ اِس میں پاکستان کو آٹھ دس تنظیموں کے خلاف ٹھوس اقدامات پر زور دِیا گیا ہے اور اسے اِس امر کا پابند کیا گیا ہے کہ اس کی سرزمین سے کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کا ارتکاب نہ ہونے پائے۔ مشترکہ اعلامیہ میں یہ بھی مذکور ہے کہ پاکستان ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ لفظوں کے چند پھول پیش کرنے کے بعد صدر ٹرمپ نے ایک بھی ایسا اشارہ نہیں دیا جو مقبوضہ کشمیر اور بھارت اور پاکستان کے مابین حالات کو معمول پر لانے میں کارگر ثابت ہو سکتا ہو۔ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاون کو چھے ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ نو لاکھ بھارتی فوج آزادی کے متوالے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھا رہی ہے، بچوں اور عورتوں کو بینائی سے محروم کیے چلے جا رہی ہے۔ صدر امریکا نے وزیرِاعظم مودی سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اٹھانے اور وہاں کے لوگوں کو سیاسی آزادیاں فراہم کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ اِسی طرح شہریت کے متنازع قانون کے خلاف دہلی میں جو بغاوت کا عالم ہے اور ہر مذہب کے پیروکار اِس بنیادی حقوق کے منافی قانون کے خلاف متحد ہیں، اُن پر صدر ٹرمپ کی موجودگی میں پولیس فورس، فسطائی درندے آگ، خون کی ہولی کھیلتے رہے اور اِن اندوہناک مناظر کے بارے میں صدر ٹرمپ نے آواز اٹھانے سے انکار کر دیا اور کہا یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔

امریکا جنوب مشرقی ایشیا میں چین کی سیاسی، عسکری اور معاشی پیش قدمی کے سامنے بھارت کے ذریعے بند باندھنا چاہتا ہے، چنانچہ مشترکہ اعلامیے میں دفاعی سکیورٹی اور خلائی میدان میں تعاون کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا۔ تین ارب ڈالر کی مالیت کا جدید ترین اور خطرناک ترین اسلحہ فراہم کیا جائے گا جس کے بعد بھارت ایک بڑی فوجی قوت بن جائے گا۔ یہ دفاعی طاقت پاکستان اور چین کے خلاف استعمال ہو گی۔ اِس کے علاوہ لداخ اور کیرالہ میں دو رصدگاہیں قائم کی جائیں گی جن کا مقصد چین، وسطی ایشیا اور چین کے جنوبی سمندر کی نگرانی ہو سکتا ہے۔ بھارت کو ایک ایسا ڈیفنس سسٹم فراہم کیا جائے گا جو دشمن کے میزائل کو فضا میں مار گرائے گا۔

شاطر صدر ٹرمپ نے بڑی چالاکی سے پاکستان کو محض خوشنما باغ دکھائے ہیں، جبکہ بھارت کو امکانات کے روشن اُفق عطا کر دیے ہیں۔ پوری قوم کو اپنی بہادر مسلح افواج کے شانہ بہ شانہ کھڑا رہنا اور خوش فہمیوں کے سحر سے آزاد ہو کر سفارت کاری کا ہنر بڑی ہوش مندی سے بروئے کار لانا ہو گا۔