اسرائیل اور فلسطین کا تصادم ستر سال پر محیط ہے۔ دنیا کے بڑے اور اہم سیاسی ممالک اس مسئلے کو بغیر کسی تصادم کے حل کرنے میں کوشاں ہیں، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا کے اہم ممالک اور اقوام متحدہ کی سرپرستی کے باوجود یہ مسئلہ جوں کا توں ستر سال سے اقوام عالم کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بڑے اور سرمایہ دارانہ ممالک کی عدم دلچسپی کے باعث یہ مسئلہ طول کھینچتا چلا جا رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینیوں کی زمین پر اپنی بستیاں بسا کر باقاعدہ حکومت قائم کرلی ہے، جس کو آج کی زبان میں جمہوری حکومت کے لقب سے نوازا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی نام نہاد جمہوری حکومت نہ صرف جدید آتشیں اسلحے سے اور ایٹمی اسلحے سے لیس ہے بلکہ دنیا کے تمام مروجہ قوانین کی خلاف ورزی میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔
انھوں نے اپنی مضبوط مسلح قوت اور مراسم سے لیس امریکی جمہوری قوت کا سہارا لے کر بے سہارا فلسطینیوں کو اپنی زمین سے بے دخل کرنے کا عمل جاری کر رکھا ہے۔ 1964 میں فلسطینیوں کی تنظیم آزادی فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے نام سے قائم ہوئی۔ جارج حباش کی تنظیم پاپولر فرنٹ تھی۔ لہٰذا یہاں بھی واضح ہو گیا کہ فلسطینی تحریکیں قوم پرست تھی، مذہب کی بنیاد پر قائم نہیں ہوئی تھیں۔
الفتح تنظیم کے بانی یاسر عرفات تھے۔ جن کو اپنی سیاسی اور فوجی زندگی میں نشیب و فراز کا تواتر سے سامنا کرنا پڑا۔ یاسر عرفات نے اپنی پوری فوجی اور سیاسی زندگی میں کبھی اپنے مسلمان ہونے کا سیاسی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ وہ مسیحی فلسطینیوں کے بھی لیڈر تھے۔ یاسر عرفات اپنی پوری زندگی میں بلند سیاسی مقام پر فائز رہے اور وہ اپنی موت کا سامنا بڑی بہادری سے کرتے ہوئے اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ محمود عباس نظریاتی طور پر عرب دنیا میں اتنے مقبول نہیں ہیں۔ غزہ اور مغربی کنارے کے سیاسی موقف جداگانہ نظر آنے لگے۔
گویا غزہ کے رہائشی اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں نمایاں رہے۔ اسی لیے مغربی کنارے پر اسرائیلی حملے نہ ہونے کے برابر تھے۔ جب کہ عام طور پر جنگی محاذ غزہ اور اسرائیل کے مابین زور و شور سے جاری رہا۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس گیارہ روزہ جنگ میں غزہ کے اطراف میں تقریباً د و سو افراد جاں بحق ہوئے اور کئی سو زخمی۔ چونکہ اسرائیل کی طرف سے اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے اس لیے اسرائیل میں کس قدر ہلاکتیں ہوئیں اور کس قدر مالی نقصان ہوا اس کی معلومات عام لوگوں کو نہ دی گئیں کیونکہ یہ ان کی جنگی حکمت عملی کا حصہ تھا۔
اعداد و شمار کے مطابق غزہ کے لوگوں کا جانی اور مالی نقصان یقینا زیادہ ہوا۔ لیکن اسرائیل میں خوف و ہراس اور دہشت کے مناظر اس قدر دیکھے گئے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اس جنگ کے نقوش یہ قوم جلد نہ بھولے گی۔ یہی وجہ ہے کہ حماس کے سیاسی رہنما اسمٰعیل ہانیہ نے ایران کو راکٹوں کی بروقت سپلائی پر شکریے کا پیغام ارسال کیا ہے۔ یہ خبر ماسکو ریڈیو سے نشر کی گئی جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جنگی سطح پر حماس کا حوصلہ بلند اور جنگی محاذ پر ان کی سبقت نمایاں رہی ہے۔ ورنہ ایسی جنگوں میں اور انھوں نے علی الاعلان ایران کی حمایت کا اقرار کیا ہے۔
ممکن ہے کہ یہ جنگ بندی ماضی کی طرح چند دنوں کی نہ ہو بلکہ یہ جنگ بندی طویل المعیاد ہونے اور حماس کو اپنی شرائط پیش کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ اگر عالمی میڈیا کی طرف نگاہ کی جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ بین الاقوامی سطح پر اسرائیل نے جنگ میں پہلی بار شکست کے مناظر دیکھے ہیں کیونکہ پوری دنیا میں جو جلوس جنگ کے خلاف نکل رہے تھے۔
ان میں فلسطین کے عوام کی حمایت نمایاں طور پر دیکھی جاسکتی تھی حتیٰ کہ امریکی شہروں میں جو عوامی جلوس نکل رہے تھے۔ یمن کے عوام نے جو خود جنگ کا سامنا کر رہے ہیں، بہت بڑا جلوس نکالا۔ وہ بھی فلسطینیوں کی حمایت میں نعرہ زن تھے۔
موجودہ جنگی صورتحال میں گوکہ اسرائیل کو یہ توقع نہ تھی کہ دنیا اس کی مخالفت میں کھڑی ہو جائے گی۔ اس جنگ کا جو اثر عوام کی طرف سے فلسطینی عوام کے حق میں جس انداز سے آیا اسرائیلی کابینہ کبھی اس کا تصور بھی نہ کرسکتی تھی کیونکہ اس سے قبل جو جنگیں فلسطینی عوام سے اسرائیلی فوجیوں کی ہوئی ہیں وہ فلسطینی عوام پر گولیاں برساتے تھے اور اس کے مدمقابل عوام کے ہاتھوں میں صرف پتھر ہوا کرتے تھے۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ اسرائیلیوں نے بھی ہوا میں اپنی موت کے ایندھن کو اڑتے دیکھا تب کہیں ان کی سمجھ میں آیا کہ جنگ کیا ہوتی ہے۔
نقصان پھر نقصان ہے کم ہو یا زیادہ۔ اور ان کے ساتھیوں کی سمجھ میں بھی جنگی حقیقت نمایاں ہوگئی اور وہ جنگ کو مختصر عرصے میں بند کرنے پر رضامند ہوگئے ورنہ ماضی میں دس گیارہ دن طویل جنگ بے معنی ہوا کرتی تھی بلکہ اسرائیلی یہ کوشش کرتے تھے کہ جنگ کا عرصہ طویل ہو تاکہ فلسطینی جوان ہلاکت کی گولیاں چباتے رہیں۔ اس موقع پر بعض عرب جو بظاہر فلسطینی نوجوانوں کے حق میں نظر آتے تھے ان کا رویہ بھی عجیب وغریب تھا گویا وہ فلسطینی نوجوانوں پر اپنے احسانوں کی باڑھ لگا رہے ہیں۔
انھوں نے تنبیہاً فلسطینی نوجوانوں سے کہا کہ وہ جنگ کو جلدازجلد ختم کریں اور راکٹوں کا استعمال بند نہ کیا گیا تو ان کی عام امداد جو فلسطینی عوام کے لیے ہے وہ بند کردی جائے گی۔ ان جملوں سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطینی قوم اپنے مخالفین سے اکیلے ہی لڑ رہی تھی۔
یہ توکہیے کہ اتفاقاً عالمی سیاست کا دائرہ ایسا بدلا کہ ایران اس جنگ میں حماس کا براہ راست طرف دار بن گیا اور اب اس بات کے شبہات پیدا ہو چکے ہیں کہ مستقبل کی عرب اسرائیلی جنگیں نئے زاویوں سے لڑی جائیں گی اور اس بات کے امکانات بھی پیدا ہوچکے ہیں کہ عرب ریاستیں مستقبل کی جنگوں میں اپنا کردار بدل ڈالیں گی جس کے نتیجے میں جنگ بندی طویل المعیاد ہوگی اور کشت و خون کے بازار اتنے ارزاں نہ ہوں گے بلکہ فلسطینی نوجوانوں کے ہمراہ دنیا کی دیگر قوتیں بھی ان کی ساتھی ہوں گی۔
جیساکہ پوری دنیا کے مظاہروں نے یہ ثابت کردکھایا کہ فلسطینی اب یکہ و تنہا نہیں رہے بلکہ اب جو جنگیں ہوں گی وہ باقاعدہ دستاویزات کی شکل میں اختتام پذیر ہوں گی۔ جس میں دونوں مدمقابل اپنے اپنے شرائط اور حقوق کو نمایاں کرسکیں گے البتہ اس بات کے شبہات وسیع تر ہو جائیں گے کہ آیندہ جنگوں کا دائرہ کار بھی وسیع تر ہو سکتا ہے جس میں اقوام متحدہ کی خصوصی شرکت بھی نمایاں ہوسکتی ہے اب محض جنگ بندی نہیں ہوا کرے گی بلکہ جنگ کی حد بندی بھی اپنی صلاحیت منوا کے رہے گی جس کے نتیجے میں انسانی جانیں محفوظ تر ہو جائیں گی۔