ماضی کی حکومتیں جو خود کو عوام دوست اور جمہوری کہلاتی تھیں، انھوں نے بھی قرض کا انبار لگا رکھا تھا۔ حالانکہ ان حکومتوں کو سعودی عرب سے تیل کے حصول کے لیے کوئی سخت اور اضافی جدوجہد نہیں کرنی پڑتی تھی۔
یہ توکہیے کہ بقول PMLN ایک غیر جمہوری طریقے سے پرویز مشرف نے ان کی حکومت کو تہ و بالا کرکے ملک میں غیر جمہوری نظام قائم کردیا۔ مگر اسی نظام کے دوران وہ وقت بھی آیا جب پاکستان میں پٹرول کی قیمتیں کم ترین سطح پر آگئی تھیں۔ یہ کہیے کہ ان دنوں امریکا میں نائن الیون کی انہونی ہوگئی۔ جس کو پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے لیے استعمال کیا۔ بہرحال ایک آمر ہونے کے باوجود انھوں نے پاکستان پر قرضوں کا جو بوجھ تھا اسے اتار پھینکا، مگر حال ہی میں آئی ایم ایف کی جو قسط ادا کی گئی وہ تقریباً دو ارب ڈالرکی تھی۔
ابھی جو ایک طرف آئی ایم ایف کی قسطیں جا رہی ہیں تو دوسری طرف اخبار میں یہ خبر بھی آ رہی ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط منظورکرلی ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط منظور ہونے میں تو ہمیں کوئی خوشی کا پہلو نظر نہیں آتا۔ اس لیے کہ آئی ایم ایف کافی عرصے سے ملک کی بنیادی قابل صرف اشیا کی بے لگام نرخ بڑھانے پر زور دیتا رہا ہے اور جیساکہ اخباری خبروں میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط منظورکرکے مہنگائی کی ایک اور موج کے داخل ہونے کا راستہ کھول دیا ہے اور بجلی کے نرخوں کو بلند ترکرنے کی منظوری دے دی ہے۔ ظاہر ہے بجلی اور تیل کی قیمتوں میں اضافے سے پوری معیشت نئے ریٹ سے عوام کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے اور عوام مزید پست حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے خود میں نئی غوروفکر اور پریشانی کو طاری کرلیتے ہیں۔
ایک اعتبار سے پاکستانی عوام قابل تعریف ہیں کہ وہ اپنے لیڈروں کی کھائی ہوئی رقم کو اپنے ٹیکسوں میں اضافے کی شکل میں ادا کر رہے ہیں اور خاص طور سے کم آمدنی والے افراد بھی اشیائے صرف پر اتنا ہی ٹیکس ادا کر رہے ہیں جو اضافی آمدنی والے ادا کرنے میں مصروف ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تمام حکومتیں جو ماضی میں عوام پر بوجھ ڈال کر چلی گئی ہیں اور اب پھر آنے کی کوشش میں ہیں تو وہ اقساط کے ان بوجھوں کو کس طرح اتارنے کا منصوبہ رکھتی ہیں، اگر غور کریں تو ان کے پاس بھی کوئی منصوبہ نہیں۔
خیر یہ تو بات ان لوگوں کی ہے جو اقتدار میں نہیں ہیں، مگر جو اقتدار میں ہیں وہ بھی اقساط کی ادائیگی کے لیے کوئی منصوبہ نہیں رکھتے، اداروں کو پرائیویٹائز کردیا جائے اور ٹیکسوں میں نیا اضافہ کردیا جائے، بس یہی حل انھیں سوجھتا ہے، اگر صورتحال آئی ایم ایف کی اقساط دینے کی یوں ہی رہی تو پانچ دس سال کے بعد ہماری پوزیشن یہ نہیں رہے گی کہ ہم مسلسل ان کے مطابق چیزوں کے ریٹ بھی بڑھائیں اور ان کی قسطیں بھی دیں گوکہ ابھی یہ موقع نہیں آیا لیکن اس موقع کا قیاس ضروری ہے کہ ایسی صورتحال میں ہمارا کیا ردعمل ہوگا۔
اس پہلو کا احتمال یوں پیش کیا گیا کیونکہ ملک میں کوئی نیا انڈسٹریل زون قائم ہو رہا ہے اور نہ ہی بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں رقم لگانے پر تیار نظر آتے ہیں بلکہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پاکستانی سرمایہ کار اور ہنرمندوں کے اعلیٰ اقسام بیرون ملک رقم لگانے میں مصروف ہیں اور نہ ہی گورنمنٹ نے کوئی ایسا قانون بنایا کہ ملکی سرمایہ کسی حال میں بھی بیرون ملک شفٹ نہ ہو سکے۔
پاکستانی حکمران تو قرض لینے کے لیے بے تاب رہتے ہیں لیکن قرضوں کی سود سمیت واپسی کی کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ گزشتہ دو ہفتوں قبل ایک خبر یہ آئی کہ ضلع چاغی میں سونے کی کانوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اب اس کو ملکی حکمران بین الاقوامی لیول پر کس طرح ڈیل کرتے ہیں، کیونکہ اگر چاغی کی مٹی کی شکل میں سونے کو بنا دیا گیا تو مطلوبہ نتائج بحال نہیں ہوں گے۔ لہٰذا سونے کی کان کو استعمال میں لانے کے لیے اس کی مشینری کو ضلع چاغی میں ہی نصب کرنا ہوگا اور سیفٹی اور سیکیورٹی کے تمام انتظامات حکومت پاکستان کو خود کرنا ہوں گے ورنہ قدرت کی یہ دین بھی ضایع کر بیٹھیں گے۔
پاکستان میں اس قدر بڑی سیاسی مہمات چلتی نظر آتی ہیں اور سینیٹ میں ایک سے ایک بلند پایہ ٹیکنیکل سینٹر موجود ہیں، مگر ملک کی سرمایہ کاری کے لیے ان کی منصوبہ بندی منظر عام پر نظر نہیں آتی، اگر ہم اپنی زرعی پالیسی سے کوئی بلند پایہ کارہائے نمایاں انجام نہیں دے پارہے یا زمینوں کی تقسیم کا عمل کرنے میں معذور ہیں تو ملک میں مضبوط معدنی پالیسی کا عملدرآمد ضروری ہے۔ سینیٹ میں اس قدر تعلیم یافتہ اور ہنرمند عملہ موجود ہے تو اس کو بلوچستان کی معدنی پالیسی اور پورے ملک کی معدنی پالیسی اپنی آرا کی بنیادوں پر بنانی چاہیے، عوام اس کے متلاشی ہیں۔ ورنہ سینڈک کی زمین جس ناقدری کا شکار ہوئی ہے دیگر زمینیں اس طرح ملک کے لیے بے فیض ہو جائیں گی۔
گلگت بلتستان کی آبادی بھی وڈیروں یا سرداروں پر مشتمل نہیں۔ عام متوسط درجہ یا نیم متوسط درجے کے لوگ ہیں۔ ان پر ہماری خصوصی توجہ ضروری ہے، اگر پاکستان کے ایکسپورٹ کو فی الحال توانا کرنے کی کوشش کی جائے تو دو وجوہ کی بنیاد پر یہاں کامیابی نہیں ہوسکتی۔ ایک بجلی کی کمی اور دوسرا ٹیکنالوجی کا فقدان۔
بجلی مہنگی ہے اس لیے پاکستان کی پروڈکٹ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں مہنگی ہوگی۔ ہاں اگر ٹیکنیک کے اعتبار سے پاکستان کے کاریگر کوئی نمایاں فیشن کی شکل میں ان اشیا کو پیش کرسکتے ہیں تو یقینا قیمت کے اعتبار سے اور مقبولیت کے اعتبار سے پڑوسی ملکوں کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔ پاکستان کی سینیٹ میں پڑھے لکھے لوگوں کا اجتماع ہے لہٰذا ان کو یہ چاہیے کہ ہر سال پاکستان کے معدنی وسائل زرعی پیداوار برقی پیداوار کے متبادل راستے اور زرعی پیداوار میں سے کسی موضوع پر سالانہ رپورٹ شایع کی جائے جس سے عام لوگ استفادہ کرسکیں تاکہ ان ہنرمند اور پڑھے لکھے لوگوں سے ملک اور عوام کو علمی اور فنی فوائد حاصل ہوں جس سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔
اس کے علاوہ پاکستان کے پاس جو وسائل ہیں ان سے جو ترقیاتی منصوبہ بندی ہو سکتی ہے وہ تو حکومت کر رہی ہے، مگر سینیٹ کی طرف سے عوامی ہنرمندی یا فنی ہنرمندی کی کوئی راہ دکھائی جائے جس سے ملک کے معاشی مسائل کا بوجھ کم ہوسکے۔ ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ سینیٹ کو محض دستور سازی کے لیے استعمال نہ کرے بلکہ ملک کی ترقی کے لیے جن جن موضوعات کے لیے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان موضوعات پر گہری نگاہ سے جائزہ لے کر ملک کو مشکل راہوں سے بچا کر نکالیں کیونکہ ہماری پوری پوری معیشت قرض میں ڈوبی جا رہی ہے۔
یہ مسائل کا حل نہیں ہے کہ ملک پر قرض کا جو بوجھ ہے وہ صرف ٹیکس لگا کر کم کیا جائے بلکہ ملک میں انڈسٹریل ڈیولپمنٹ، معدنی ترقی اور زراعت پر گہری نگاہ ڈال کر اس کا حجم بڑھایا جائے۔ ان تمام اقدامات سے ایکسپورٹ میں اضافہ ہوگا اور روپیہ توانا ہوگا۔ جس سے قرض کا بوجھ کم تر ہوتا جائے گا اور ہماری معیشت بھی اپنی پوزیشن بحال کرسکے گی۔