عام طور سے پولیٹیکل سائنس کے طالب علم جب اپنی ڈگریاں مکمل کر لیتے ہیں یا دوران تعلیم سیاسی جلسوں میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے بلکہ اس کے برعکس ایل ایل بی یا دوسرے مضامین کے تعلیم یافتہ حضرات جن میں سائنسی مضامین کا درس لینے والے طلبا، طالب علموں کے جلسے جلوسوں میں زیادہ شرکت کرتے ہیں۔ ایم اے اور ایم ایس سی میں مذہبی جماعتوں کے طلبا زیادہ فعال ہوتے ہیں لیکن وہ طلبا کی نیم سیاسی تنظیموں میں حصہ لینے سے دور رہتے ہیں۔
البتہ منور حسن مرحوم گزشتہ چار دہائیوں میں دیکھے گئے جو تعلیم کے بعد سیاسی جماعت، جماعت اسلامی کے فعال رکن بنے لیکن طلبا کی دیگر مذہبی تنظیموں میں دوسرے مضامین کے طلبا کی کثیر تعداد دیکھی گئی ہے۔
واضح طور پر کہنا یہ ہے گزشتہ چار دہائیوں کا عرصہ گزر چکا ہے کہ طلبا کو اپنی پسند کی تنظیمیں بنانے کا قانون موجود نہیں ہے جب کہ سیاسی افق پر پاکستان کا سیاسی ماحول معیاری سیاسی جماعتوں سے بہت دور ہے۔ البتہ پاکستان کے علما بھی اپنی سیاسی آواز رکھتے ہیں مگر ان کا دائرہ کار محدود ہونے کے ساتھ ساتھ عام طور پر مذہبی دائرے میں ہی مضمر ہوتا ہے، مگر وہ عام سیاسی جماعتوں کے کہنے پر کسی نہ کسی تنظیم سے وابستہ ہوجاتے ہیں، مگر عام عوام الناس کے سیاسی یا معاشی مطالبات کی تحریکوں کا آغاز نہیں کرتے، یہی کچھ حالیہ پی ڈی ایم کی تحریک میں بھی دیکھا گیا۔
پاکستانی سیاسی جماعتوں کی ممبر سازی اتنی قلیل ہے کہ ان کو تحریک چلانے کے لیے زیادہ تعداد والے رہنماؤں کی ضرورت رہتی ہے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر وہ کسی بھی کثیر تعداد کے مذہبی رہنما کو اپنی قیادت کی لگام حوالے کر دیتے ہیں۔ اسی صورتحال کے پیش نظر پی ڈی ایم کی گزشتہ تحریک کے سربراہ پی ڈی ایم کے رہنما فضل الرحمن کے سپرد کی گئی جو ایک مشہور عالم دین مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے ہیں۔ اس انتخاب میں پاکستان کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے ان کو اپنا سربراہ مقرر کیا تاکہ ان کے جلسوں میں نفری زیادہ نظر آئے۔
یہ نہ سوچا کہ ان کا سیاسی حکومتوں کے بدلنے کا کیا راستہ اور تاریخ ہے جب کہ ماضی میں ایک چھوٹی جماعت کے سربراہ نوابزادہ نصراللہ خان اپنے جلوس اور دیگر جماعتوں کو ملا کر حکومت سے تصادم کرتے تھے جس کے نتیجے میں حکومتیں اپنا وجود کھو دیتی تھیں۔ ان کی سرخ ترکی ٹوپی کا میدان کار زار میں آجانا حکومت کو بوکھلا دیتا تھا۔ وہ ایک پرعزم اور قدیم سیاسی رہنما تھے۔ ان کا کسی تحریک میں شامل ہونا حکومتوں کو لرزہ براندام کردیتا تھا، لیکن پی ڈی ایم نے جس تحریک کا آغاز کیا وہ ہفتہ وار تحریک تھی۔ ہر اتوار کی رات کو ایک جلسہ جس میں سامعین آرام سے رات کا کھانا کھا کر اور چائے پی کر جلسے میں شرکت کرتے تھے۔ چھٹی کے روز نہ کسی کے کام کا حرج اور نہ کوئی معاشی پریشانی۔ مختلف الخیال لیڈروں کی گفتگو سن کر گھروں کی روانگی۔
سیاسی جماعتیں جب کسی تبدیلی کے لیے جلسے جلوس اور ایجی ٹیشن کا اہتمام کرتی ہیں تو اس میں وقت اس قدر زیادہ نہیں ہوتا اور جلسوں کی تقریروں کا مدعا حکومت کی کڑی کمزوریوں کی واضح تصویر کشی اور اشتعال انگیز گفتگو اور ہلا دینے والے نعرے ان جلسوں کے اثاثے ہوتے ہیں۔ مگر پی ڈی ایم کے جلسوں نے کراچی آکر جو مجمع لگایا وہ بے ہنگم اور بگڑا ہوا تھا۔
یہ نہایت غور طلب مقام ہے کہ پاکستان میں جہاں بائیس کروڑ کی آبادی ہے وہاں کے جلسوں میں کسی منصوبہ بندی کے بغیر سیاسی تقریریں کی گئیں جب کہ جلسے اس نام پر منعقد ہوتے ہیں کہ وہ نئی اور بہتر حکومت پیش کریں گے جس میں ساکنان پاکستان معاشی بدحالی، مہنگائی اور بے روزگاری سے نجات پائیں گے۔ پی ڈی ایم نے ان اہداف کے حصول کے لیے کسی راستے یا پروگرام کا تعین نہیں کیا۔
نہ ہی زراعت نہ معیشت، نہ سرمایہ کاری اور نہ غیر ممالک سے تعلقات کی بہتری کا کوئی راستہ ان جلسوں میں پیش کیا گیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں کسی متبادل پروگرام کا کوئی فلسفہ اپنے پاس نہیں رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ اپوزیشن پارٹیوں نے کوئی تحریری پروگرام کی تفصیل بھی کسی جلسے میں پیش نہیں کی تاکہ لوگوں کو یہ تجزیہ کرنے میں آسانی ہو کہ ان کو پی ڈی ایم کی حمایت کرنے سے کیا فوائد حاصل ہوں گے۔
انھوں نے مہنگائی اور بے روزگاری کا تذکرہ تو کیا ہے لیکن عوام کو یہ بتانے سے قاصر رہے کہ اشیائے صرف اور خورو نوش پر جو ساڑھے سترہ فیصد ٹیکس لگایا جا رہا ہے اگر یہ بند کردیا جائے تو حکومت غیر ملکی قرضہ جات کو کیونکر اور کیسے ادا کرے گی۔ اپوزیشن کے جلسوں سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ حکمران پارٹی نہایت ہی مستعد اور مقبول ہے بلکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں متحرک لیڈرشپ کا فقدان ہو چکا ہے۔
پاکستان میں جب بھی تحریکیں چلیں خواہ وہ انتخابی ہوں یا مزدور تحریکیں، وہ متحرک خیال آفرینی سے لیس ہوتی تھیں، اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتیں دراصل مولانا فضل الرحمن کے طلبا کو سڑکوں پر لا کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتی تھیں جب کہ مولانا فضل الرحمن کو یہ اندازہ ہو گیا تھا، اسی لیے انھوں نے وہ کردار ادا نہ کیا جس کی توقع پی ڈی ایم کے رہنما کر رہے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا فضل الرحمن بھی اپنے ساتھیوں کی ہوشیاریوں سے واقف ہوگئے۔ ویسے بھی وہ ان لیڈروں میں سے نہیں ہیں جن کو ہم متحرک ایجی ٹیشنسٹ رہنما کہہ سکیں۔ جب کہ نوابزادہ نصر اللہ خان اور معراج محمد خان کو جلسوں کو درہم برہم کرنے اور حکومت سے ٹکرانے میں ایک خاص مہارت حاصل تھی۔
ہمارے موجودہ وزیراعظم عمران خان کو معراج محمد خان کی رفاقت کا کئی برس موقعہ ملا لہٰذا موجودہ حکمرانوں اور اپوزیشن سے کہیں زیادہ ایجی ٹیشنل پالیسی اور عملی ادبی مواد کا موازنہ کرنے کا موقعہ ملا۔ لہٰذا ایسے کمزور سیاسی مخالفین توموجودہ حکومت کو گرانے کے قابل نہیں ہو سکتے۔ تابندہ اور پائیدار پاکستان کے لیے فی الحال روشن خیال لیڈر شپ کا فقدان ہے۔