قیام پاکستان کے بعد سے روس اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ نرم و نازک موڑ سے گزرتے رہے ہیں۔ ایوب خان کے دور میں روس کی جاسوسی کے لیے U2 کی صوبہ سرحد سے اڑان ایک نازک مرحلہ تھا، اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹوکے دور میں تعلقات میں کچھ بہتری آئی کیونکہ پاکستان سیٹو اور سینٹو کا رکن نہ رہا۔
کچھ دنوں کے لیے حالات بہتر ہوئے مگر بنگلہ دیش کے قیام نے تعلقات میں پھر رخنہ ڈال دیا۔ جب افغانستان میں ترہ کئی کی سوشلسٹ حکومت آگئی تو پاکستان اور روس کے تعلقات نشیب و فراز کا شکار رہے۔ اب ایک بات غور طلب ہے۔ جب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آئی تو اس نے چین اور عرب ممالک کے علاوہ ایران اور روس سے بھی تعلقات متوازن کیے ہیں۔
اسی وجہ سے صدر پیوتن نے پاکستان کی اقتصادی زبوں حالی پرگہری نظر ڈالی اور اسی اپریل 2021 کے اوائل میں اپنے وزیر خارجہ سرگئی لاروف کو ایک تفصیلی خط کے ساتھ پاکستان بھیجا جنھوں نے اس خط کی کلیدی باتوں کا انکشاف کیا جس میں پاکستان کی اسٹیل مل کا احیا بھی شامل ہے۔ یہ بات دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں موجودہ حکومت کو ہر اشیائے صرف پر ٹیکس عائد کرنا پڑا، تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا، حکومت پر خاصا معاشی دباؤ بڑھا اور عوام میں بے روزگاری کا اضافہ ہوا۔
آئی ایم ایف کی طرف سے دباؤ بڑھنے لگا۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر زبوں حالی کا شکار ہونے لگے۔ اسی لیے پاکستان کو ایکسپورٹ کی مد میں اضافہ کرنا تھا۔ مگر پاکستان میں ویلیو ایڈڈ آئٹمز کی ایکسپورٹ کے حالات نامناسب رہے ہیں۔ اسی لیے موجودہ حکومت ٹورازم کے ساتھ ساتھ دوسرے آپشنز پر غور کرتی رہی ہے۔ مگر پاکستان کے اقتصادی حالات اس قدر کمزور ہیں جس کی وجہ ایکسپورٹ آئٹم کی برآمدات نہایت زبوں حالی کا شکار ہیں۔ لہٰذا حکومت پاکستان بارہا یہ اعلان کر چکی ہے کہ پاکستان کی سرزمین انوسٹمنٹ کے لیے اچھے مواقع کی حامل ہے، لیکن کسی بڑے ملک سے اقتصادی ترقی کی راہ میں کوئی پیش رفت نظر نہ آئی۔
روسی صدر پیوتن نے اپنی کابینہ سے رائے مشورے کے بعد ایسا قدم اٹھایا جس کو پاکستانی اخباروں نے بلینک چیک کا نام دیا ہے کہ صدر پیوتن نے پاکستان کو بلینک چیک بھیجا ہے۔ یقینا پاکستان کی سکڑتی ہوئی محدود حکومت جس طرح یہ ملک چلا رہی ہے وہ قابل تحسین ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض اتارنا کسی عام حکومت کا کام نہیں ہے۔
ماہرانہ انداز میں، ٹیکس کلیکشن کا جال بچھانا ایک باوصف حکومت کا ہی کمال ہے جس نے غیروں کے علاوہ اپنی پارٹی کے کاروباری طبقے کو بھی نظروں کی گرفت سے دور جانے نہیں دیا۔ ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے روسی حکومت کے قدامت پرست کمیونسٹ ماہرین معیشت اور جدت پسند ماہرین معیشت کے مشوروں کے بعد پاکستانی حکومت کو ایسی آفر سے نوازا کہ وہ آئی ایم ایف کا شکنجہ بھی توڑتی رہے اور ملک خودکفیل ہوتا چلا جائے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ بھارت کو خود کفیل بنانے میں روس کا اہم کردار نمایاں ہے، اس کے علاوہ چین کی جنگ آزادی میں روس کے کمیونسٹ رہنماؤں کا بڑا کردار اور بعدازاں اس کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تقریباً پچاس سال تک روسی ماہرین چین میں کام کرتے رہے، اسی لیے چینی ٹیکنالوجی روسی ٹیکنالوجی سے قریب تر ہے اور دوسرے ملکوں کے ترقیاتی منصوبوں میں منصفانہ انداز میں کام کر رہے ہیں۔
اگر تجزیہ کیا جائے تو موجودہ حالات میں اقتصادی طور پر پاکستان کے پاس ایسی ٹیکنالوجی نہیں ہے جو ایکسپورٹ کی جاسکے۔ بلکہ پاکستان کا پڑھا لکھا اور ہنرمند طبقہ غیر ممالک میں ملازمتیں کرکے اپنے خاندان کو اچھے حالات سے گزار رہے ہیں۔ پاکستان کے ہنرمندوں کی بھیجی ہوئی رقوم ایکسپورٹ آئٹم کے مدمقابل کھڑی ہیں۔ مگر ویلیو ایڈڈ آئٹم کی کمی کے باعث پاکستان کی برآمدات زبوں حالی کا شکار ہیں۔
صدر پیوتن نے جن حالات میں سرگئی لاروف کو پاکستان بھیجا ہے یہ پاکستانی سرزمین کی خوش قسمتی ہے کیونکہ روس ان ملکوں میں سے نہیں ہے جو غیر ملکوں پر قبضہ کرلیتے ہیں اور اپنی نوآبادی بنا کر اپنا منافع کماتے ہیں۔ بلکہ سوویت یونین کو تحلیل کرکے گورباچوف نے تمام مسلم اور دیگر ریاستوں کو آزاد کر دیا۔ یہ تاریخ کا پہلا کھیل ہے جس میں تقریباً بارہ ممالک بغیر گولی چلے آزاد ہوگئے اور شمولیت کی شرائط کے ساتھ علیحدگی کی شرائط پر ان کو پورا اتارا گیا۔
لہٰذا یہ خیال کرنا کہ روس نے پاکستان کو کوئی چکمہ دینے کے لیے اتنی پرکشش آفر دی ہے کہ وہ ان کو نوآبادی بنا لے گا، یہ خواب و خیال کی باتیں ہیں۔ روسی فیڈریشن جن ممالک پر مشتمل ہے وہ باقاعدہ اعداد و شمار کے بعد آبادی اور اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے معرض وجود میں آئی ہے لہٰذا پاکستان کی موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی کابینہ کی ایک اعلیٰ نشستی میٹنگ بلائے اور صدر پیوتن کی آفر کو جائزے کے بعد نکتہ بہ نکتہ پہلو بہ پہلو جائزہ لے کر جواب دے۔
پاکستان کے بڑے شہروں خصوصاً کراچی کو پینے کے پانی کی کمی ہے لہٰذا سمندری پانی کو ڈی سالٹ کرکے گھروں تک پہنچانے کی روسی آفر کا نوٹس لیں اور روس کو آمادہ کارکریں۔ کراچی شہر کی آبادی ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، یہاں ٹیکنیکل آلات کا علاقہ بنایا جاسکتا ہے جو نوری آباد تک ریلوے کنکشن میں آسکتا ہے جو چینی انجینئروں کا خیال ہے، جو کراچی ریلوے لائن پر کام کر رہے ہیں۔ بلکہ یہ کام نواز شریف کے دور میں بھی ہو سکتا تھا مگر ان کو اس وسعت پر کام نہیں کرنے دیا گیا۔ آخر کار کراچی ریلوے لائن کو چین کے تعاون سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ لہٰذا چونکہ روس و چین کے مابین کوئی چپقلش نہیں ہے اس لیے روسی ڈیولپمنٹ کے ساتھ چینی ڈیولپمنٹ کو کوئی پرخاش نہ ہوگی۔
تکنیکی اور صنعتی ترقی کے علاوہ پاکستان کی زرعی ترقی کے لیے روسی پلانٹ بھی لائے جاسکتے ہیں اور پاکستان میں پھٹی اور چاول کی کاشت کو ترقی دینے کے لیے روسی آلات لائے جاسکتے ہیں کیونکہ صدر پیوتن کا خط تو ایک رائٹر کیونکر دیکھ سکتا ہے۔ لیکن ہماری حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ آفر کے خاص خاص نکات جو ہیں ان کو طشت ازبام کیا جائے۔ میں ماضی میں بھی زرعی ترقی کے متعلق کئی بار لکھ چکا ہوں جس میں زرعی ترقی کے اداروں کا قیام شامل رہا ہے۔
پاکستان میں زرعی زمین کی حد بندی کا مسئلہ تو ابھی زیر غور نہیں اس لیے پاکستان میں زرعی پیداوار بھی محدود رہے گی۔ لیکن زرعی تعلیمات کے پھیلاؤ کے سبب زرعی ترقی کے امکانات روشن ہیں اور نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے پیداوار کو بڑھایا جاسکتا ہے اس کے علاوہ بلوچستان کے پشین، چمن اور مستونگ کے علاقے میں چھوٹے زرعی بند بنا کر پاکستان کو میوہ جات اور زرعی اجناس میں خودکفیل کیا جاسکتا ہے۔
اس وقت تقریباً آدھی دنیا چاول کو بنیادی غذا کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ لہٰذا پاکستان کے جن علاقوں میں چاول کی پیداوار ہے وہاں بھی چھوٹے بند بنا کر نئی زمینوں کو زیر کاشت کیا جاسکتا ہے اور چائنا کی مدد سے ہائیڈرو پلانٹ بھی لگائے جاسکتے ہیں کیونکہ پاکستان میں نئے رخ سے برساتیں شروع ہوچکی ہیں اور زیرزمین واٹر ٹیبل بلند ہو رہا ہے۔ لہٰذا ہائیڈرو پاور سے چاول کی کاشت ممکن ہے۔ سندھ کے بہت سے علاقے ہائیڈرو پاور کے استعمال کے لیے موزوں ہیں۔ اس کا بھی ایک سروے زرعی ماہرین سے کروانے کی ضرورت ہے۔
اختتام سے قبل روسی سفیر کے اس بیان کا حوالہ ضروری ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ کولڈ وار کا وقت گزر چکا ہے اور اب دوستی کا نیا رخ شروع ہونے کو ہے۔ جس کو چین کے سابق وزیر اعظم چو این لائی نے پنج شیلا کا نام دیا ہے۔ چواین لائی نے دو مختلف اقتصادی نظریات کے ممالک کے ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے اور مل جل کر مشترکہ مفادات کی راہ اپنانے کے پانچ اصول وضع کیے ہیں۔ انھی اصولوں کی بنیاد پر چین نے پاکستان سے تعلقات کو فروغ دیا ہے۔