Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Pope Francis Ka Muslim Dunya Ko Pegham

Pope Francis Ka Muslim Dunya Ko Pegham

ابھی مشکل سے ہفتہ بھر گزرا ہوگا کہ پوپ فرانسس نے عراق کا تین روزہ دورہ کیا اور ان تین دنوں میں انھوں نے عراق کے چھ قدیم شہروں کا دورہ کیا۔ اس دورے میں انھوں نے مسلم نوجوانوں کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے داعش کو پسپا کرنے میں عیسائی نوجوانوں کا ساتھ دیا۔

خصوصیت کے ساتھ اُر شہر جہاں حضرت ابراہیم پیدا ہوئے تھے وہاں انھوں نے مسلمان علماء کی موجودگی میں کرسچن نوجوانوں سے خطاب کیا۔ دوران خطاب انھوں نے داعش کی سفاکی اور خونریزی میں مسلم امہ کی قربانیوں کا تذکرہ کیا۔

اس کے علاوہ مسلم نوجوانوں نے عیسائیوں کی عبادت گاہوں کی داعش کے ہاتھوں تباہی کے بعد تعمیر میں جو حصہ لیا اس کی تعریف کی۔ اُر شہر قدیم دورکی یاد تازہ کرتا ہے جہاں انبیا کی قبریں موجود ہیں، جن کو داعش نے تباہ کرنے کی ٹھان لی تھی، مگر آیت اللہ سیستانی کے کہنے پر مسلم نوجوانوں نے داعش سے روبرو مورچہ لیا۔

ماضی میں کئی پوپ حضرات گزرے ہیں مگر انھوں نے مسلمانوں اور عیسائیوں کے اشتراک عمل کی اس طرح داد نہ دی جیساکہ پوپ فرانسس نے اکیانوے سالہ آیت اللہ سیستانی کا شکریہ نجف جاکر بالمشافہ ادا کیا۔ اس عمل سے مسلمانوں اور مسیحیوں میں یگانگت، رواداری اور قربت پیدا ہوئی۔ ماضی میں عیسائی اور مسلمان حکمرانوں میں صلیبی جنگوں کا ایک تسلسل رہا ہے جس کی طوالت تقریباً ایک صدی کے قریب رہی ہے اور مسلمانوں میں صلاح الدین ایوبی کا تذکرہ آج بھی کیا جاتا ہے۔ اس بڑی خلیج کو پُرکرنے کے لیے بڑی حکمت عملی درکار ہے۔

پوپ فرانسس کو اس تاریخی دوری کا اندازہ تھا۔ اس لیے انھوں نے جن جن شہروں کا دورہ کیا اس کی تھوڑی بہت تفصیل کی ضرورت ہے، ان میں شہر اُر کے علاوہ قرقوش، اربل، ناصریہ، بغداد اور نجف شامل ہیں۔ ان شہروں میں عیسائی تقریباً چالیس فیصد کے قریب ہیں، جو جنگ سے براہ راست متاثر ہوئے۔ آیت اللہ سیستانی نے جن قربانیوں کا تذکرہ کیا اس کا اثر پوپ فرانسس پر کافی رہا۔ کیونکہ انھوں نے جن شہروں میں کرسچن عوام سے خطاب کیا ان کو یہ بتایا کہ عراقی مسلمانوں نے داعش کے خاتمے کے لیے کس قدر قربانیاں دی ہیں۔

پوپ فرانسس کے اس دورہ عراق کے نتیجے میں جو یہودی لابی ہے اس کے بھی اعتدال پسند حلقے پوپ کے اس وزٹ کو مثبت خیال کر رہے ہیں، پوپ کے اس دورہ سے بین المذہبی رواداری کا ایک نیا دور چل سکتا ہے۔ اس وزٹ سے اس بات کے امکانات پیدا ہوئے ہیں کہ مذاہب کے مابین رواداری رکھنے والی تنظیمیں وجود میں آسکتی ہیں۔ اب تک دنیا میں بین البراعظمی اسلحوں کا دور تو چلتے دیکھا ہے لیکن مذہبی رواداری میں قربت ترلانے والی تنظیمیں اب تک وجود میں نہیں آئی ہیں۔ کاش کہ یہ تنظیمیں وجود میں آجائیں تاکہ انسانی تہذیب کو قتل و غارت سے نجات ملے۔

گزشتہ ماہ مریخ تک جانے کے لیے دوڑ لگی رہی۔ ممکن ہے کہ کوئی سیارہ ایسا بھی مل جائے جہاں انسان نئے علاقائی اصول ترتیب دے اور دنیا میں کیے گئے تمام مظالم کو ترک کرکے رواداری کے نئے اصول بنا کر ایک نئی دنیا کا آغازکریں۔ کیونکہ دنیا میں نوآبادیاتی طرز حکومت کی دوڑ نے جو خلفشار پیدا کیا وہی تمام جنگوں کی بنیاد ہے۔ مغربی دنیا نے پوپ فرانسس کے عراق وزٹ کو بڑی اہمیت دی۔ اخباری مضامین میں یہی عندیہ دیا گیا کہ پوپ فرانسس اور آیت اللہ سیستانی کے مابین آیندہ ملاقاتیں اور روابط بھی ہوتے رہیں گے۔ جس سے مسلم دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔

سائنسی دنیا تگ و دو میں لگی ہوئی ہے کہ وہ روشنی کی رفتار کو کس طرح اپنا اسیر بنا سکتی ہے۔ روشنی کی رفتار پر قدرت پا لینے کے بعد دنیا ایک نئے آفتابی انقلاب سے دوچار ہوجائے گی، امن اور سلامتی انسان کی تقدیر کا پہلا بولتا پہلو ہے خواہ وہ زمین پر ہو یا کسی اور سیارے پر مگر سیارے کے سفر میں سائنس دانوں کو یہی یقین ہے کہ اگر وہ دوسرے سیاروں کے سفر پر جانے کی تگ و دو کرتے رہے تو ممکن ہے کہ وہ کامیاب ہو جائیں۔ مگر اس کامیابی سے قبل انسان کو انسانی مساوات کا درس پوری طرح سے وجود میں لانا ہوگا۔

دنیا کے جو بھی مذاہب عوام تک پہنچے ان سب میں سلامتی اور رواداری کا درس دیا گیا اور اس درس پر عمل پیرا ہو کر تمام انسان ایک دوسرے کے لیے زحمت کے بجائے رحمت بن سکتے ہیں۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ہر مذہب میں امن کو مرکزی درجہ حاصل ہے اور فساد کو انسانیت کے لیے خطرناک ترین عنصر قرار دیا گیا ہے۔

لہٰذا جو زمین پر فساد برپا کرتے ہیں اور مذاہب کے نام پر ایک دوسرے کے حقوق کو غصب کرتے ہیں ان کو کوئی مذہب اچھا قرار نہیں دیتا۔ لہٰذا پوپ فرانسس کے وزٹ سے مسلم امہ اور کرسچن ورلڈ کے مابین تلخیاں کم ہوں گی۔ اب دیکھنا یہی ہے کہ پوپ فرانسس خود عراق کے اس دورے کے بعد مزید اپنی تقریرکو کس قدر عملی شکل دیتے ہیں۔

اگر انھوں نے اُر شہر میں کی گئی تقریر کو عملی شکل دے دی تو پھر مسلم امہ اور عیسائیت میں فاصلے نہ صرف کم ہو سکتے ہیں بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے مزید قریب آسکتے ہیں۔ اس لیے ہم کرسچن رائٹر کے خیال کو بڑی حد تک مثبت خیال کرتے ہیں اور پوپ فرانسس کا یہ وزٹ آیندہ آنے والے دنوں میں نئی روشنی کی امید رکھتا ہے۔