Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Aurat Ke Naam Per Ghinona Khel Benaqab Hua

Aurat Ke Naam Per Ghinona Khel Benaqab Hua

"عورت آزادی مارچ" کے نام پر 8مارچ کو پاکستان کے چند بڑے شہروں میں جو کچھ ہوا اُس کا خواتین کے حقوق کے ساتھ تو کیا تعلق ہونا تھا لیکن بے شرمی، بے غیرتی اور فحاشی کے فروغ سے تعلق ضرور تھا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اس "عورت آزادی مارچ" میں شریک مظاہرین کے ہاتھوں میں موجود پوسٹرز پر درج نعروں کو پڑھ کر بہت سوں کا سر شرم سے جھک گیا کہ یہ کن حقوق اور کیسی آزادی کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ چند سال پہلے "میرا جسم میری مرضی" کا نعرہ دینے والی یہ مہم گندگی کی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اس بار درج نعروں میں کئی ایسے بھی تھے جو اس قدر فحش ہیں کہ ان کو کالم میں لکھا بھی نہیں جا سکتا۔ کچھ پوسٹرز میں تو گندگی کو واضح کرنے کے لیے کچھ نقوش بھی کھینچے گئے تھے، ان کا بھی میں یہاں ذکر تک نہیں کر سکتا۔ "میں آوارہ، میں بدچلن"، "ناچ میری بلبل، تجھے کوئی کچھ نہیں کہے گا"، "اکیلی، آوارہ، آزاد"، "لو! بیٹھ گئی صحیح سے"، "عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں"، "اگر دوپٹہ اتنا ہی پسند ہے تو آنکھوں پہ باندھ لو"، "گھٹیا مرد سے آزادی، سر درد سے آزادی" یہ وہ چند ایک نعرے تھے جو میں یہاں قارئین کے سامنے پیش کر سکتا ہوں۔ عورت آزادی مارچ کے نام پر جو کچھ ہوا اُس نے نہ صرف پاکستان میں رہنے والوں کی اکثریت کو پریشان کر دیا بلکہ بہت سے ماڈرن اور لبرلز تک کو حیران کر دیا کہ یہ کس قسم کی آزادی کی باتیں کی جا رہی ہیں اور کیسے حقوق مانگے جا رہے ہیں۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں حکومت کی طرف سے ایسے مظاہروں کی اجازت دینا سمجھ سے بالاتر ہے لیکن اس بے شرمی اور بے غیرتی کے مظاہرے نے کم از کم پاکستان کے عوام کی آنکھیں کھول دیں اور اُنہیں بتا دیا کہ عورت کے حقوق اور آزادیٔ نسواں کے نام پر ایک ایسا مذموم کھیل کھیلا جا رہا ہے جس کی نہ تو ہمارے دین میں کوئی جگہ ہے اور نہ ہی ہمارے معاشرتی اقدار اس بے شرمی کی اجازت دیتے ہیں۔ مظاہرے میں شریک ایک شخص نے تو یہاں تک کہا کہ خواتین کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک"نکاح" کو ختم نہیںکیا جاتا۔ خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور ظلم کے خاتمے کے لیے ہمیں نکاح ختم کرنا چاہئے۔ اس طرح کے "افکار" سے سب کو پتا چل گیا کہ اس شو کا مقصد ہمارے دینی و معاشرتی اقدار اور فیملی سسٹم کو تباہ و برباد کرنا ہے۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات نے اس مارچ کو کافی کوریج دی اور سراہا بھی لیکن افسوس کہ عمومی طور پر اُس بے شرمی اور بے غیرتی کا ذکر تک نہ کیا جس بارے سوشل میڈیا میں بہت بات ہو رہی ہے اور سخت اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ البتہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے اس بارے اپنے اعتراضات سوشل میڈیا پہ ضرور شیئر کیے۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والی چند خواتین نے اس نام نہاد عورت کی آزادی کو کچھ اس طرح مسترد کیا کہ ایک صحافی جویریہ صدیقی نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا "میں عورت ہوں اور مجھے اپنے مذہب، تہذیب اور ثقافت سے باہر آزادی درکار نہیں"۔ ایک اور خاتوں صحافی عفت حسن رضوی نے ایک بلاگ (Pakistan 24.tv) جس کا عنوان "کیا واقعی آج ماں بہن ایک ہو گئیں؟" تھا، کا یہ حصہ ٹویٹ کیا "بعض پوسٹرز میں مردوں کو براہ راست "کچن میں چھریاں، موجود ہونے کی دھمکی دی گئی، جبکہ کچھ پوسٹرز میں مردوں کو ان کے اعضائے مخصوصہ کا طعنہ بھی دیا گیا۔ نئی بحث یہ ہے کہ آیا ایسے نعروں سے عورت حقوق کاز کو فائدہ ہوا یا نقصان؟" ایک اور بلاگ humsub.com.pk، جسے عمومی طور پر لبرلز کی Voice سمجھا جاتا ہے، میں صوفیہ کاشف صاحبہ نے "آزادی مارچ، عورت اور حقوق" میں کچھ یوں لکھا "سو وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ عورت کا عالمی دن ایک کلنک کے ٹیکے کی طرح سب عورتوں کے منہ پر لگا دیا گیا۔ ایک ایسے گھٹیا اور بھونڈے طریقے سے منانے والوں نے منایا، دکھانے والوں نے دکھایا اور تبصرے کرنے والوں نے تبصرے کیے کہ اب سال بھر جو بھی عورت عورتوں کے حقوق کی بات کرے گی اس کے نام کے ساتھ اِسی دن کی لعنت پڑے گی۔ سارا سال ان نعروں کے ساتھ عورتوں کے استحصال کو تقویت دی جاتی رہے گی۔ "میرا جسم میری مرضی" "لو بیٹھ گئی" "ماں بہن، جیسے فقرے سارا سال ہمارے چہروں پر تھپڑوں کی طرح پڑتے رہیں گے۔ نہ فیکٹری میں کام کرنے والی عورت کی تنخواہ میں اضافہ ہوا، نہ مزدور عورتوں کو روک کر کھانا پیش کیا گیا، نہ کسی دفتر، کسی ادارے میں اس دن کے احترام میں ایک ڈے کیئر قائم کیا گیا، نہ کسی باپ بھائی نے بیٹیوں میں وراثت تقسیم کی، نہ بیٹیوں کو چند سال اور تعلیم کی اجازت دی گئی، نہ کسی بہن بیٹی سے منگنی یا شادی کرتے وقت اس کی رِضا پوچھی گئی، نہ کسی کے سر سے تہمت اتاری گئی اور نہ ہی کسی کا الزام جھوٹا قرار پایا، بس ایک عالمی دن منایا گیا اور پاکستان کی پسی ہوئی عورت کی عزت کو مزید روند ڈالا گیا۔ اتنے بڑے ملک کے ایک چوک پر کسی مہنگے ادارے میں پڑھنے والی، لاکھوں کی فیسیں دے کر انگلش سیکھنے والی جینز پہنے خواتین نے ایک چھوٹی سی ریلی نکالی، چار پانچ بے ہودہ قسم کے سلوگنز لکھے اور عورت کے لیے اٹھائی گئی ہر آواز کا گلا گھونٹ دیا..."میری ذاتی رائے میں اس شو کے ذریعے عورت آزادی مارچ کے منتظمین کا اصل ایجنڈا ضرور بے نقاب ہوا جس کے سامنے نہ صرف بند باندھنے کی ضرورت ہے بلکہ حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ عورت کے نام پر کسی بیرونی سازش کو یہاں کامیاب نہ ہونے دیں۔ اپنی خامیوں کو دور کرنے کے لیے جہاں ایک طرف معاشرے کی تربیت کی ضرورت ہے تو وہیں دوسری طرف اسلامی تعلیمات کے مطابق خواتین کو اُن کے حقوق دلانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ ہمیں مغربی ایجنڈے پر کام کرنے والوں سے ہوشیار رہنا ہوگا جن کا اصل مقصد عورت کا نام استعمال کر کے یہاں فحاشی، عریانیت اور بے راہ روی کو فروغ دینا ہے۔

About Ansar Abbasi

Ansar Abbasi

Ansar Abbasi born on June 12, 1965, is an investigative editor for one of the leading newspapers from Pakistan, The News International. He has published several exclusive reports.

Abbasi was born in Murree, Pakistan, to a Dhund Abbasi family of that locality. He received his early education in his native village. Abbasi obtained matriculation from Sir Syed School, Rawalpindi. Later he joined Government College Asghar Mall, where he completed his Intermediate and Bachelor of Arts education. He received his Masters degree from Balochistan University, Quetta. He also earned another Masters degree from Goldsmiths College, University of London. His research thesis was on child labor.