عمران خان نے چند ہفتوں میں پاکستان کے اندر تیل کے وسیع ذخائر دریافت ہونے کی امید دلائی تھی۔ نجانے وہ تیل کب نکلے گا لیکن مہنگائی اور ملک کی دگرگوں معاشی حالت کی وجہ سے حکومت نے عوام کا تیل ضرور نکال دیا ہے۔ خان صاحب اپنے سیاسی مخالفین کو رلانے کی بھی بات کرتے رہے لیکن آٹھ ماہ کی اپنی حکومت میں وہ جو حالات پیدا کر رہے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں عوام کو ہی نہ رلا دیں۔ جس سے بات کریں، وہی پریشان ہے اور پریشانی کی سب سے بڑی وجہ ملکی معیشت کا اس حد تک تشویشناک حالت میں پہنچنا ہے کہ حکومت کی کوئی معاشی پالیسی کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی بلکہ حکومت جو اقدام کرتی ہے، اُس کا فائدہ کے بجائے نقصان ہوتا ہے۔
کہتے تھے پیٹرول سستا کریں گے، گیس کم قیمت مہیا ہو گی، ڈالر مہنگا نہیں ہو گا، آئی ایم ایف کے پاس جانا عوام دشمنی کے سوا کچھ نہیں، قرضے نہیں لیں گے، کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے، برآمدات بڑھائیں اور درآمدات کم کریں گے، ملک سے لوٹے گئے اور بیرونِ ملک چھپائے گئے دو سو ارب ڈالر واپس لائیں گے، ٹیکس نیٹ کو دو گنا تک بڑھائیں گے، کوئی ایمنسٹی اسکیم نہیں دیں گے کیونکہ یہ ٹیکس چوروں اور کرپٹ لوگوں کے لیے سہولت اور ایماندار ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی ہے اور نجانے کیا کیا کچھ۔ مگرگزشتہ آٹھ ماہ کے دوران جو کیا، وہ اُن وعدوں اور نعروں کے جو خان صاحب، اسد عمر اور دوسرے تحریک انصاف کے رہنما حکومت میں آنے سے قبل بار بار لگاتے رہے، بالکل الٹ ہے۔ تشویشناک بات ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی ملک کے معاشی حالات بہتر ہونے کے بجائے بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ اتنا گر گیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، قرضے اتنے لے لیے گئے ہیں کہ ماضی کے تمام ریکارڈز توڑ ڈالے، گردشی قرضوں کا حجم اس اسپیڈ سے بڑھ رہا ہے کہ پہلے نہ کبھی کسی نے سوچا، نہ دیکھا۔ مہنگائی کے نئے ریکارڈ بن رہے ہیں، ٹیکس موصولات ڈبل ہونا تو کجا اُس کو ایسی کمی کا سامنا ہے جو بذاتِ خود ایک نئی تاریخ ہو گی۔
امید تو دلائی گئی تھی کہ عمران خان کی وجہ سے باہر سے پیسہ پاکستان آئے گا لیکن ہم تو اس حالت کو پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان کے اندر کاروباری طبقہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔ نئے کاروبار کے بجائے جو پہلے سے کاروبار چل رہے تھے، وہ بھی ٹھپ ہو رہے ہیں۔ دو سو ارب ڈالر نے کہاں آنا تھا، حکومت تو اب نئی ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کر رہی ہے جس کی خان صاحب اور اسد عمر ہمیشہ مخالفت کرتے رہے۔ آج تقریباً تمام معاشی اشاریے معیشت کی تباہی کی خبر دے رہے ہیں۔
خان صاحب اور ان کی حکومت کی نیت اچھی ہو گی لیکن جو وہ کر رہے ہیں اُس سے اب دل میں یہ ڈر بیٹھ گیا ہے کہ نجانے پاکستان کا کیا بنے گا۔ اب تو جہانگیر ترین تک نے معاشی پالیسیوں پر سوال اٹھا دیئے ہیں۔ خان صاحب کی معاشی امور سے متعلق ایڈوائزری کمیٹی کے رکن ڈاکٹر اشفاق نے تو یہ کہہ دیا کہ نئی ملازمتیں ہوں گی نہ نئے گھر بلکہ جو معیارِ زندگی ہے وہ بھی زوال پذیر ہوگا۔ یعنی ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر کا وعدہ کیا وفا ہو گا بلکہ پہلے سے لوگوں کے پاس جو کچھ ہے، وہ بھی اُن سے چھن جائے گا۔ نوکریاں تو ویسے ہی گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران لاکھوں کی تعداد میں کم ہو چکی ہیں۔ نجانے کل کیا ہو گا؟ یہ وہ خوف ہے جو معیشت کو سمجھنے والے ہر پاکستانی کے دل و دماغ پہ چھایا ہوا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹس دیکھیں تو وہ بھی مایوس کن خبریں دے رہی ہیں۔ بین الاقوامی معاشی ادارے بھی پاکستان کی معیشت کے بارے میں منفی خبریں دے رہے ہیں۔ ان حالات میں اسحاق ڈار کی یاد تو بہت سوں کو آتی ہو گی جن کی پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کی ترقی کی شرح بہت اچھی رہی بلکہ دنیا بھر کے معاشی ادارے پاکستان کی معیشت کے بارے میں حوصلہ افزا بات کرتے رہے۔ اسحاق ڈار کا اصل قصور کیا تھا، اُس بارے میں اُنہوں نے اشاروں کنایوں میں اپنے حالیہ انٹرویوز میں ایک دو مرتبہ بات بھی کی لیکن اب سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہو گا اور کیسے پاکستان کی معیشت کو بہتری کی طرف گامزن کیا جا سکتا ہے، کیسے یہ مایوسی ختم ہو گی۔ اس نکتہ پر وزیراعظم عمران خان کو سوچنا چاہئے۔ ویسے سوچتے تو "وہ" بھی ہوں گے کہ یہ کیا ہو گیا!