Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Liberals Bhi Molana Ke Difa Main Agay Agay

Liberals Bhi Molana Ke Difa Main Agay Agay

مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ سے نجانے کس کس نے اپنی امیدیں باندھ رکھی ہیں۔ نہ صرف تقریباً تمام اپوزیشن جماعتیں مولانا کے ساتھ کھڑی ہیں بلکہ بڑی تعداد میں ہمارے لبرلز بھی مولانا کی کامیابی کے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔ کچھ تو مولانا کے کنٹینر پر بھی چڑھے نظر آئے۔ حکومتی ترجمانوں کے مطابق عمران خان کی مخالفت میں ان لبرلز کو مولانا فضل الرحمٰن کی صورت میں ایک ہیرو مل گیا۔ لبرلز کا ایک طبقہ تو اس صورتحال سے واقعی پریشان اور کنفیوزڈ ہے۔ ہمارے سینئر اور محترم مظہر عباس نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی یہ رائے دی کہ اُن کے خیال میں پاکستانی لبرلز اور سیکولرز وہی غلطی کر رہے ہیں جو اُن سے 1977ء میں سرزد ہوئی جب اُنہوں نے پی این اے کو سپورٹ کیا تھا۔ مظہر عباس کا کہنا تھا کہ بلاشبہ مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں بہت سے لوگ اکٹھے کر کے ایک بڑا شو کر رہے ہیں لیکن آگے کیا ہوگا، اس بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ پاکستانی لبرلز کو ایک عجیب صورتحال کا سامنا ہے جہاں ایک طرف عمران خان کھڑے ہیں جو پاکستان کو ریاستِ مدینہ کے اصولوں کے مطابق چلانے کا وعدہ کر رہے ہیں اور جنہیں یہ لبرلز تسلیم کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں تو دوسری طرف وہ اُن مولانا فضل الرحمٰن سے امیدیں باندھے ہوئے ہیں جن کی جماعت ہے ہی اسلامی اور جنہوں نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر نہ صرف "مذہب کارڈ" کا دفاع کیا بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان اور اسلام کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ اور اب تو بلاول بھٹو جو اب تک پاکستانی لبرلز کی ترجمانی کرتے رہے اور پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی باتیں کرتے رہے، نے بھی مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے ساتھ کنٹینر پر کھڑے ہو کر "اسلامی جمہوری پاکستان" کے وعدے کو پورا کرنے کی بات کر دی ہے جس پر مجھے ذاتی طور پر بہت خوشی ہوئی اور میں یہ امید کرتا ہوں کہ بلاول بھٹو اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کے روشنی میں اب اسلامی پاکستان کے ایجنڈے پر ہی کاربند رہیں گے۔ جب مولانا اسلام، پاکستان اور پھر آئین پاکستان کے مطابق "مذہب کارڈ" کا دفاع کر رہے تھے تو بلاول بھٹو اُس وقت کنٹینر پر اُن کے ساتھ کھڑے مسکر ا رہے تھے۔ شاید بلاول بھٹو بھی سمجھ گئے ہوں کہ مذہب کارڈ کی تکرار کرنے والوں کا اصل مقصد تو پاکستان کو اسلام سے دور کرنا ہے جو ممکن نہیں اور اس حقیقت کو اُن کے نانا نے بھی تسلیم کیا اور اسی لیے پاکستان کو ایک اسلامی آئین دے کر اپنا نام تاریخ میں لکھوا دیا۔

مولانا فضل الرحمٰن کے جلسے میں کوئی ایک آدھ جھنڈا افغان طالبان کا بھی نظر آیا جس پر حکومت اور میڈیا کے ایک حصہ نے خوب شور مچایا کہ اس سے تو پاکستان کا دنیا میں امیج خراب ہو گا۔ اگرچہ اس پروپیگنڈا پر مولانا نے کڑاکے کا جواب دیا کہ اُن طالبان کی ہی بات ہو رہی ہے نا جن کے ایک وفد کو حکومت پاکستان نے حال ہی میں بڑے پروٹوکول کے ساتھ اسلام آباد میں خوش آمدید کہا اور جن کے ساتھ امریکہ، روس اور دوسرے اہم ممالک بات چیت کر رہے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے لبرلز نے سوشل میڈیا کے ذریعے وزیراعظم عمران خان کے طالبان کے حق میں دیے گئے کچھ پرانے وڈیو کلپ چلا کر تحریک انصاف والوں کو مخاطب کر کے کہا مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے میں افغان طالبان کے جھنڈے پر سیخ پا ہونے والے ذرا سن لیں عمران خان طالبان کے دفاع میں کیا کچھ کہتے رہے۔ گویا آج مولانا فضل الرحمٰن تو کیا افغان طالبان کے دفاع کے لیے بھی ہمارے لبرلز بھائی سب سے آگے ہیں۔ ان کے نقاد کہتے ہیں کہ ان لبرلز کی اکثریت بغضِ عمران میں یہ سب کچھ کر رہی ہے لیکن مجھے امید ہے کہ ان میں سے کئی واقعی حق کو پہچان کر ماضی کے اپنے رویے سے شرمندہ ہوں گے اور قیامِ پاکستان کے اصل مقصد کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد کریں گے۔

داڑھی والوں اور جے یو آئی کی رضاکار فورس انصار الاسلام کو ڈنڈا بردار جتھہ اور نجانے کیا کچھ کہنے والے سب حیران و پریشان ہیں کہ مولانا کا کراچی سے اسلام آباد تک مارچ انتہائی منظم رہا، کوئی ایک گملا بھی نہ ٹوٹا بلکہ ٹریفک تک کو نہ روکا گیا، ایمبولنس کو جگہ دی گئی۔ اسلام آباد میں دھرنے میں جانے والے میڈیا نمائندگان بھی شرکاء کے رویے سے بہت متاثر نظر آئے۔ ایک چینل کے ڈائریکٹر نیوز کے مطابق اُن کے رپوٹرز تو مولانا کے مارچ کے نظم اور دوستانہ رویے سے بہت متاثر ہوئے۔ حکومت کی طرف سے ایک خاتون صحافی کو اُس کے لباس پر اعتراض کی وجہ سے دھرنے میں داخل ہونے سے روکنے کی وجہ سے کافی شور کیا گیا اور اسے حقوقِ نسواں کا مسئلہ بنانے کی بھی کوشش کی گئی پروپیگنڈا کرنے والوں کا یہ سودا بھی نہ بکا بلکہ دھرنے والوں نے خواتین صحافیوں کو ویلکم کیا اور اُن سے بہت عزت کے ساتھ پیش آئے۔ اکثر خواتین اینکرز نے دھرنے والوں کے احترام میں خود چادریں اوڑھ لیں۔

سیاسی میدان میں کیا ہوتا ہے، ایک استعفیٰ آتا ہے یا کسی دوسرے استعفے کی بھی کوئی بات ہے، آنے والے دنوں میں مولانا کیسے کیسے حربے آزما کر وزیراعظم کو چت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس سب کا فیصلہ تو آنے والے دن ہی کریں گے لیکن ایک بات کا فیصلہ ہو چکا کہ مولانا آج اپوزیشن کے ساتھ ساتھ لبرلز کی بھی واحد امید بن چکے ہیں۔

About Ansar Abbasi

Ansar Abbasi

Ansar Abbasi born on June 12, 1965, is an investigative editor for one of the leading newspapers from Pakistan, The News International. He has published several exclusive reports.

Abbasi was born in Murree, Pakistan, to a Dhund Abbasi family of that locality. He received his early education in his native village. Abbasi obtained matriculation from Sir Syed School, Rawalpindi. Later he joined Government College Asghar Mall, where he completed his Intermediate and Bachelor of Arts education. He received his Masters degree from Balochistan University, Quetta. He also earned another Masters degree from Goldsmiths College, University of London. His research thesis was on child labor.