میاں نواز شریف اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران جب برطانیہ میں ہارٹ سرجری کے لیے گئے ہوئے تھے تو ایک موقع پر شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان اُن سے ایمرجنسی ملاقات کے لیے پہنچے۔ ذرائع کے مطابق موضوعِ بحث اُس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف تھے۔ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان وزیراعظم سے درخواست کر رہے تھے کہ جنرل راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر دیں ورنہ مارشل لا کا خطرہ ہے۔ شہباز اور نثار واقعی پریشان تھے لیکن نواز شریف جو اپنی ہارٹ سرجری کے بعد آرام کر رہے تھے، نے اُنہیں صاف صاف کہہ دیا کہ وہ کسی صورت ایکسٹینشن نہیں دیں گے۔ ذرائع کے مطابق جب نواز شریف سے اس خوف کا اظہار کیا گیا کہ پھر مارشل لا بھی لگ سکتا ہے تو اُنہوں نے دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ بھی ہو، میں ایکسٹینشن نہیں دوں گا۔ جب دوسری طرف سے دوبارہ اصرار ہوا تو میاں صاحب نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو آپ دونوں میں سے کوئی وزیراعظم بن جائے، میں تو ایسا نہیں کر سکتا۔
عموماً کہا جاتا ہے کہ شریف برادارن ’گڈ بوائے اور بیڈ بوائے، کا کھیل کھیلتے ہیں لیکن جہاں تک میری معلومات ہیں، دونوں کا اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ڈیل کرنے کا طریقہ کار ہمیشہ سے مختلف رہا ہے۔ شریف فیملی کے ایک اہم فرد کا کہنا ہے کہ دونوں میں اس معاملہ میں اختلافِ رائے کے باوجود شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپ سکتے۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف کو نواز شریف سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن تین اہم افراد سے ایک ملاقات کے دوران شہباز شریف نے بتایا کہ وہ کسی بھی قسم کی محاذ آرائی کے حق میں نہیں اور معاملات کو افہام و تفہیم سے چلانے کے قائل ہیں لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی کی پیٹھ میں چھرا گھونپیں گے تو یہ توقع اُن سے نہ رکھی جائے، وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد شہباز شریف کے لیے مشکلات پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔ اختلافِ رائے کے باوجود شریف فیملی میں نواز شریف اور شہباز شریف کی حد تک تو ایک مضبوط رشتہ قائم ہے لیکن جب بچوں کی بات آتی ہے تو پھر معاملات میں گڑبڑ ہے۔
موجودہ صورتحال میں نواز شریف نے اپنی اور اپنی فیملی کی تمام تر مشکلات، جیل اور مقدمات کے باوجود ڈٹ جانے کا فیصلہ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ میں مکمل شرکت کا فیصلہ کیا ہے۔ شہباز شریف کی رائے مختلف تھی اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس مارچ کے دوران Low Profileمیں رہیں لیکن نواز شریف سے راہیں جدا کرنے یعنی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا کوئی امکان نہیں۔ نواز شریف کسی ڈیل کے لیے تیار نہیں اور وہ بھی اب مولانا فضل الرحمٰن کے طرح ہر حالت میں عمران خان حکومت کو چلتا کرنے کے لیے بے چین ہیں۔
پاکستان کی سیاست کا یہ المیہ ہے کہ 2014ء میں جو دھرنا نواز شریف، مولانا فضل الرحمٰن، آصف علی زرداری، اسفندیار وغیرہ کے لیے حرام تھا وہ آج اُن کے لیے حلال ہو چکا ہے۔ اسی طرح جس 126روزہ دھرنے اور لاک ڈائون کو عمران خان جمہوریت، عوام اور پاکستان کے لیے فخر کا باعث اور ہر پاکستانی کا سیاسی حق سمجھتے تھے، آج وہ سب پاکستان کے مفاد کے برخلاف اس لیے ہو گیا ہے کیونکہ حکومت عمران خان کی اور دھرنا مولانا کا ہے۔ خان صاحب اور طاہر القادری کے دھرنے کے دوران پارلیمنٹ، پی ٹی وی پر حملے، کرینوں، کلہاڑیوں کا استعمال، وفاقی حکومت کے دفاتر پر قبضہ سمیت سب کچھ جمہوریت اور عوام کے حقوق کے حصول کے لیے جائز تھا۔ جس انداز میں خان صاحب نواز شریف سے استعفیٰ لینا چاہتے تھے، مولانا بھی اُسی رواج کو زندہ کرتے ہوئے عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کو جب وزارتِ عظمیٰ سے نکالا گیا تو اُس کے بعد اُنہوں نے ’ووٹ کو عزت دو، کا نعرہ بلند کیا اور بار بار سوال اٹھایا کہ ہر وزیراعظم کو اپنی مدت پورا کرنے سے پہلے کیوں نکال دیا جاتا ہے۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب خود اُس اندازِ احتجاج کا حصہ کیوں بن گئے جس کا مقصد ایک اور وزیراعظم (اس بار عمران خان) کو اُن کے عہدے سے زبردستی نکال باہر کرنا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ میاں نواز شریف کے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے، اُن کی بیٹی مریم نواز کو بھی سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہے کہ زیادتی کے جواب میں اپنے اصول چھوڑ دیے جائیں؟ کیا میاں صاحب نے بھی یوٹرن تو نہیں لے لیا؟ جہاں تک عمران خان صاحب کا معاملہ ہے تو گزشتہ چودہ مہینوں کے دوران وہ مکافاتِ عمل کا کچھ ایسا شکار ہیں کہ جس کی شاید کوئی نظیر نہیں ملتی۔