وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو خطاب کیا اُسے سننے کے لیے کان ترس گئے تھے۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں جو کہا وہ ہر مسلمان کے دل کی آواز اور اسلام کی بہترین نمائندگی تھی، جس پر عمران خان تحسین کے حقدار ہیں۔ خان صاحب کے بڑے بڑے مخالفوں تک نے اُن کی تقریر کی تعریف کی لیکن کچھ نے اس تعریف کے ساتھ اپنے سابقے لاحقے لگا کر یہ سوال اٹھا دیا کہ تقریر تو اچھی تھی، دیکھتے ہیں عمل کیا کرتے ہیں۔ ایک مذاق سوشل میڈیا پر یہ بھی چلا کہ دو وزیراعظم رکھ لیتے ہیں، ایک (یعنی خان صاحب) کو تقریروں کے لیے، دوسرے کو حکومت چلانے کے لیے۔ خان صاحب کے اندازِ حکومت اور معیشت پر اعتراضات اپنی جگہ لیکن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو اُنہوں نے کہا اُسے محض ایک تقریر کے طور پر دیکھنا جائز نہ ہو گا۔ نائن الیون کے بعد میں نے بڑے بڑے اسلامی سوچ رکھنے والے سیاسی اور سماجی رہنمائوں کو دیکھا کہ وہ پبلک میں اسلام کا نام لینے سے ہچکچانے لگے تھے۔ اسلام کے حوالے سے زیادہ تر وہی زبان بولی جاتی جو امریکہ بولتا یا سننا پسند کرتا۔ اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑا جانے لگا، داڑھی اور حجاب کو شک کی نظر سے دیکھنا رواج بن گیا، اپنے آپ کو روشن خیال اور Moderate مسلمان کہلوانا فیشن بن گیا اور آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پر اسلام اور انتہائی برگزیدہ مذہبی ہستیوں کی گستاخی کا دفاع کیا جانے لگا۔ اسلامی ممالک کے حکمران اور سیاستدان جب امریکی یا یورپی رہنمائوں سے ملتے تو اپنے مذہب اور دہشت گردی سے متعلق اُسی انداز میں بات کرتے جو امریکی یا یورپی سننا چاہتے، لیکن عمران خان نے جو کہا وہ اس لیے باکمال تھا کہ انہوں نے امریکہ میں دنیا بھر کے رہنمائوں کی موجودگی میں ڈنکے کی چوٹ پر بڑے فخر کے ساتھ کہا کہ کوئی موڈریٹ اسلام اور ریڈیکل اسلام نہیں ہوتا بلکہ اسلام صرف ایک ہے اور وہ اسلام حضرت محمدﷺ کا اسلام ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ میں مودی کے ساتھ اپنے مشترکہ جلسہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتہ ہی ریڈیکل اسلام اور Islamic Terrorismکی بات کی تھی۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں ایک اسلام کی بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ریڈیکل اسلام اور دہشت گردی کو اسلام سےجوڑنے والے دراصل مغرب میں اسلامو فوبیا کے ذمہ دار ہیں جس سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہوئے اور اُن سے بدسلوکی کے واقعات بڑھنے لگے۔
عمران خان کی تقریر اس لیے اچھی تھی کہ انہوں نے گوروں کے سامنے اُن کی زبان بولنے کے بجائے مغرب میں مسلم خواتین کے پردے کے خلاف بڑھتے ہوئے ریاستی اقدامات کو آڑے ہاتھوں لیا اور سوال اُٹھایا کہ ایسا کیوں ہے کہ عورت اگر کپڑے اتارے تو اُس پر کسی کو اعتراض نہیں لیکن اگر وہ پردہ کرے اور اپنے جسم کو ڈھانپے تو اُس پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ عمران خان نے نائن الیون کے بعد Islamic Terrorismکے نام پر مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر مارنے کے رواج کا بھی حوالہ دیا اور پوچھا "کیا سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کو کسی نے ہندو دہشت گرد کہا" اور سوال اُٹھایا کہ مسلمانوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟ عمران خان نے میانمار، کشمیر کا بالخصوص ذکر کیا اور دنیا کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کی کوشش کی کہ مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر اقوام متحدہ اور مغرب کیوں نہیں بولتے؟؟ اُنہوں نے کہا کہ جو کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے اگر وہ مغرب میں جانوروں کے ساتھ بھی ہوتا تو مغرب والے اُٹھ کھڑے ہوتے!! عمران خان نے یہ بھی کہا کہ میں دیکھتا اگر صرف آٹھ ہزار یہودیوں کو کشمیریوں کی طرح گھروں میں قید کر دیا جاتا تو دنیا کس طرح اپنا ردعمل دیتی!!
عمران خان کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ اُنہوں نے ناموسِ رسالتﷺ کا بڑے بہترین انداز میں دفاع کیا اور دنیا کو باور کروایا کہ آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پر جو کیا جاتا ہے، اُس سے مسلمانوں کے دل دکھتے ہیں جس کو اُسی طرح قانوناً روکا جانا چاہئے جس طرح مغرب یہودیوں کی خاطر ہالو کاسٹ پر بات کرنے کو جرم قرار دیتا ہے۔ عمران خان نے ریاستِ مدینہ کا حوالہ دے کر اُس کو ایک بہترین مثال کے طور پر بھی اُس مغرب کے سامنے پیش کیا جو اسلام کے بارے میں صرف منفی انداز میں بولنا اور سننا پسند کرتا ہے۔ کشمیریوں کی بھی عمران خان نے بہترین نمائندگی کی۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ خان صاحب کشمیریوں کے سفیر کی حیثیت سے اقوم متحدہ گئے لیکن کشمیریوں کے ساتھ ساتھ پوری مسلم امہ کی بہترین نمائندگی کر کے واپس لوٹے۔ بھارتی وزیراعظم اور مسلمانوں کے قاتل مودی کی تو خان صاحب نے مٹی پلید کر دی اور اُس کی دو ٹکے کی عزت نہیں چھوڑی۔ خان صاحب کی یہ بھی کامیابی ہے کہ نہ صرف اُنہوں نے بڑے شاندار انداز میں کشمیر کے مسئلہ کو اقوام متحدہ میں اٹھایا بلکہ پاکستان کے علاوہ ترکی، ملائیشیا اور چین نے بھی اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ کشمیر کے مسئلہ کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل کروائے اور مقبوضہ وادی میں کشمیریوں پر جاری ظلم روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ خان صاحب نے یقیناً مسلمانوں کے دل جیت لیے۔ ویسے اسلام کا اس انداز میں دفاع کرنے والا ’یہودی ایجنٹ، کیسے ہو سکتا ہے؟ الزام لگانے والوں کو ضرور سوچنا چاہئے۔
بحیثیت مسلمان اور پاکستانی میں خان صاحب سے توقع رکھتا ہوں کہ اقوام متحدہ میں جو اُن کی پرفامنس تھی، اُس کے تناظر میں پاکستان میں اُنہیں وہ اقدامات کرنا چاہئیں جو اس ملک کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنائیں۔ جس اسلام کی اُنہوں نے اقوم متحدہ میں بات کی اس میں سود کی کوئی گنجائش نہیں، وہاں شراب، فحاشی و عریانیت کو برداشت نہیں کیا جا سکتا، وہاں پردہ اور اسلامی ماحول کی فراہمی کے لیے کیے گئے اقدامات کا دفاع کیا جاتا ہے نہ کہ اُنہیں لبرلز اور ’روشن خیالوں، کے دبائو میں واپس لے لیا جاتا ہے۔ امید ہے عمران خان اُس اسلام، جس کا اُنہوں نے اقوام متحدہ میں بہترین دفاع کیا، کی تعلیمات کے مطابق پاکستان میں رہنے والے شہریوں کی اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت کا اہتمام کریں گے تاکہ جس معاشرتی اور اخلاقی گراوٹ کا ہم شکار ہیں اُسے روکا جا سکے اور ہم باکردار مسلمان کی صورت میں اسلام کی دنیا بھر میں نمائندگی کر سکیں اور عورتوں، بچوں، اقلیتوں، غربا و مساکین اور مسافروں کا اسلامی تعلیمات کے مطابق خیال رکھ سکیں۔
ویسے جو عمران خان ہمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نظر آیا وہ اس خان سے مختلف ہے جو پاکستان میں گزشتہ 14ماہ سے حکمرانی کر رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے والا عمران خان پنجاب میں عثمان بزدار کو ہی رکھنے پر ضد کیسے کر سکتا ہے، اقوام متحدہ میں اسلام کی بہترین انداز میں نمائندگی کرنے والا عمران خان پاکستان میں اپنے سیاسی مخالفین سے متعلق اتنا غصہ دل میں کیسے رکھ سکتا ہے کہ انصاف کے بجائے کئی کیسوں میں ناانصافی ہوتی ہوئی صاف نظر آتی ہے۔ تحریک انصاف اور عمران خان سمجھ لیں کہ اقوام متحدہ والا عمران خان ہی تبدیلی لا سکتا ہے۔