رضوان احمد عرف رز احمد کو آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہونے والا پہلا مسلمان اور پاکستانی اداکار ہونے پر مبارک باد۔ اس کا مقابلہ انتھونی ہاپکنز جیسے نابغوں کے ساتھ ہے۔
تقریباً چار سال پہلے، 2017 میں، برطانوی ہاؤس آف کامنز (دار العوام)میں اس کی شاندار تقریر سننے کے بعد جب میں نے اسے مبارک باد دی اور آنکھ مارتے ہوئے پوچھا تھا کہ وہ ایکٹنگ میں آسکر کب جیتے گا تو اس نے جواباً آنکھ میچتے ہوئے کہا تھا، انشاء اللہ دس سال میں۔ کون جانتا ہے کہ وہ 2021ء کا سال ہی ہو۔ ایک بات کی گارنٹی ہے کہ اس سال کے آسکر ایوارڈز پاکستان میں بھی بھرپور طریقے سے دیکھے جائیں گے۔
رض احمد میں خاص بات کیا ہے؟ مسلمان تو عمر شریف بھی تھا اور ہالی ووڈ کی ایلیٹ میں شامل تھا۔ کئی دوسرے مسلمانوں کو آسکر ایوارڈ دیے گئے مگر اداکاری کی کیٹیگری میں یہ پہلی نامزدگی ہے۔ رض احمد سوچنے، سمجھنے والا فلاسفر ہے۔ شاید یہ آکسفورڈ سے پڑھنے کا نتیجہ ہے۔ وہ شامی مہاجرین اور روہنگیا مسلمانوں کے لیے بھی آواز اٹھاتا ہے اور میڈیا میں مسلمانوں کو رگڑنے پر بھی بولتا ہے۔ جب مودی نے کشمیر کا خصوصی اسٹیٹس ختم کیا تو ہندوستان کی پالیسی پر بھی کھل کر تنقید کی۔
2018 میں اس نے چین میں مبینہ طور پر اوئیگر مسلمانوں کو یرغمال بنائے جانے کے ساتھ بریگزٹ کے بعد برطانیہ میں نسل پرستی کے واقعات کے خلاف بھی آواز اٹھائی۔ مجھے یاد ہے 2017 کی برطانوی پارلیمنٹ میں اس کی مشہور تقریر میں سب سے زیادہ قہقہے اس وقت نکلے تھے جب اس نے کہا تھا کہ ہم اداکار اور آپ سیاستدان لوگ دونوں کہانیاں بیچتے ہیں، لیکن عموماً آپ سیاستدان لوگ اس کام میں بازی لے جاتے ہیں۔
رضوان احمد کے والدین کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور آلہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شاہ محمود سلیمان کے خاندان سے ہیں۔ وہ 1970کی دہائی میں برطانیہ پہنچے اور یہیں ٹک گئے۔ رض یہیں پیدا ہوا۔ اس میں برٹش بورن کنفیوزڈ دیسی(بی بی سی ڈی) کی کافی ساری علامات موجود ہیں، تاہم اس نے ان کو کمال فنکارانہ طریقے سے منعکس کیا۔ جنھوں نےFour Lionsدیکھی ہے یاریلکٹینٹفنڈامنٹیلسٹ دیکھی ہے وہ ابھی بھی اس کی اداکاری کے معترف ہیں۔ ایمی ایوارڈ، گولڈن گلوب، وہ آسکر سے پہلے کی ساری سیڑھیاں چڑھ چکا ہے۔ وہ ایمی ایوارڈ جیتنے والا پہلا مسلمان تھا۔
2006 میں جب رض جرمنی سے واپس برطانیہ پہنچا تھا تو اسے ائیر پورٹ پر روک کر تفتیش کی گئی تھی کیونکہ اس نے گوانتاناموبے پر بننے والی فلم میں کام کیا تھا۔ یہی نہیں، اسے بعد میں بھی دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمان ہونے کے ناطے کہیں نہ کہیں تفتیش کا سامنا کرنا پڑا اور ان ممالک میں امریکا بھی شامل ہے۔ ان واقعات نے رض کے حساس ذہن کو مختلف حوالوں سے متاثر کیا اور وہ ہالی ووڈ میں اداکاری کی دنیا میں پہلا بڑا نام بنا جس نے مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے امتیازی سلوک کے خلاف آوازیں اٹھائی۔
2018 میں رض احمد نے اسٹار وارز کی فلم فرنچائز میں کام کیا مگر وہ شکاگو میں فلم کی لانچنگ میں شامل نہ ہوسکا کیونکہ اسے ایک بار پھر ایئرپورٹ پر روک کر تفتیش کی گئی اور سفر کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔
رض نے اس بار بھرپور احتجاج کیا اور یہاں تک کہ دیا کہ "آج کل کی دنیا میں مسلمان ہونا اچھا خاصا پرابلم ہے" امریکی میگزین ورائٹی، کے مطابق رِض احمد نے اپنے ساتھ امتیازی سلوک کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ کس طرح مسلمانوں کو نسلی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رِض نے کھل کر کہا کئی ہائی پروفائل مسلمانوں کی کامیابی نے امریکا میں دیگر مسلمانوں کی حالت بہتر کرنے میں کوئی مدد نہیں کی ہے۔
اس نے کہا "حسن منہاج (مشہور امریکی کامیڈین) مشہور پی باڈی ایوارڈ جیت سکتا ہے، میں ایمی (امریکی ایوارڈ) جیت سکتا ہوں، ابتہاج محمد اولمپک جیت سکتی ہے۔ لیکن ابھی بھی مسلمان ہونا ایک مشکل معاملہ ہے اور مسلمانوں کو کئی حوالوں سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رض نے زور دے کر کہا کہ امریکی پریس، میڈیا اور فلم انڈسٹری کو اس سلسلے میں مسلمانوں کی مدد کرنی چاہیے۔