اس ہفتے 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منایا گیا ہے اور میرے سامنے سی ایس ایس 2021 کا انگریزی زبان کا پرچہ موجود ہے، جسے دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ اس سال بھی سی ایس ایس کے امتحان میں کامیاب ہونے والوں کی تعداد ڈھائی، تین فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی۔ یوں انگریزی زبان کو اسکرین آؤٹ کرنے کا ذریعہ بنانے والوں کی خواہش پوری ہوجائے گی۔
2021 کے انگریزی کے پرچے میں پوچھے جانے والے مترادفات اور متضاد الفاظ میرے سامنے ہیں۔ مجھے تقریباً آدھے الفاظ کا مطلب سمجھ میں آتا ہے۔ تقریباً تمام تر الفاظ فرسودہ اور کلاسیکی انگریزی سے ماخوذ ہیں اور ان کا استعمال ندارد ہے۔ میں نے آکسفورڈ اور کیمبرج میں پڑھنے والے چار طلباء وطالبات سے مطالب پوچھے، تو سب سے بڑا اسکور چار رہا۔
میرے جاننے والے دو عالی مقام گوروں نے(ایک پچاس کتابوں کا مصنف اور دوسرا پینگوئن جیسے ادارے میں تیس سال ایڈیٹر رہا) پچاس سے ساٹھ فیصد درست جوابات دیے۔ پاکستان میں یہ پرچہ دودھ میں سے کریم الگ کرنے کے کام آئے گا اور یوں 97 فی صد پھٹا ہوا دودھ پیچھے یا نیچے رہ جائے گا۔
میں گناہ گار ہونے کا اعتراف کروں گا کہ میں بذات خود انگریزی نظام سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے ایک ہوں۔ اس زبان نے عشق سے لے کر اقتدار اور اثر و رسوخ کے دروازے کھولے۔ میں نے بیس برس انگریزی زبان پڑھانے کے ادارے کھولے اور میرے اور میاں جہانگیر کے سسٹم نے ساؤتھ پنجاب میں دس لاکھ سے زائد افراد کو تربیت دی۔ اس نظام کی آنتوں سے گزرنے کے بعد بتا سکتا ہوں کہ یہ ایک کینسر سے کم نہیں ہے۔
وادی سون میں پیدا ہونے اور ٹاٹ میڈیم سرکاری اسکولوں میں پڑھنے کے بعد مجھے انٹرمیڈیٹ کے آس پاس یہ بات سمجھ آچکی تھی کہ مجھے اوپر والے طبقے میں " گھس بیٹھیا" بننے کے لیے انگریزی سے بہتر پیراشوٹ موجود نہیں تھا۔ میں نے برٹش کونسل اور امریکن سینٹرز سے حتیٰ الوسع فائدہ اٹھایا اور اپنے شین قاف کو درست کرکے استعماری سسٹم میں نقب لگالی۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ سی ایس ایس میں انٹرویو کرنے والے صاحب نے خاص طور پر مجھ سے پوچھا تھا کہ پاکستان سے باہر گئے بغیر، میرا انگریزی لہجہ ایسا کاٹھا کیوں ہے؟ میں ایک ایسا کوا تھا، جو انگریزی کا مور پنکھ لگا کر نظام میں نقب لگانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اور یہ فارمولا آج بھی اسی قدر کارآمد ہے۔
بیس سال قبل سی ایس پی بننے کے بعد مجھے انگریزی کے جلوؤں سے خوب آگہی حاصل ہوئی۔ سب سے پہلے تو یہ معلوم ہوا کہ صرف میں ہی نہیں، پچاس، ساٹھ فیصد کریم بھی میری طرح کوؤں پر ہی مشتمل تھی۔ دیکھا کہ اسسٹنٹ کمشنر سطح سے لے کر سیکریٹری کی سطح تک سب اس زبان کے رعب کا شکار ہیں۔
یہ بھی دیکھا کہ انگریزی زبان بولنا ایک برتری کی نشانی تھی چاہے اس میں کچھ مغز ہو یا نہ ہو۔ مجھے بار بار لطیفہ یاد آتا جب جی ٹی ایس، سرکاری بس میں کنڈکٹر سفر کرنے والے طالب علموں سے کرایہ مانگتے تو وہ آگے سے تھرسٹی کرو(پیاسا کوا) سنا دیتے تھے اور یوں انگریزی کے رعب سے کرایہ بچا لیتے تھے۔ معلوم ہوا تھرسٹی کرو کی تلاوت صرف بس میں ہی نہیں، اقتدار کے تمام ایوانوں میں سب سے کارآمد کرنسی ہے۔
پچھلے دس سال میں صدر پرویز مشرف کے ساتھ، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ اور وزیر اعظم نواز شریف اور موجود وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بین الاقوامی سطح کی تقریبات میں شامل ہوا اور وہاں پر انگریزی کی مزید درگت بنتی دیکھی۔ ان سب میں عمران خان کو زیادہ نیچرل انداز سے بولتے دیکھا۔ میں نے درجنوں وزیروں، اراکین پارلیمنٹ کو زبان اور بیان کی مختلف مہارتوں میں تربیت دی۔ پھر اپنے سفیروں، سیکریٹریوں، جرنیلوں کو بین الاقوامی سطح پر انگریزی بولتے دیکھا اور اس کوشش میں ہلکان ہوتے دیکھا۔
میں ایسی سیکڑوں تقریبات کے ہزاروں گھنٹوں پر محیط تجربے کی روشنی میں بتا سکتا ہوں کہ ان تمام اعلیٰ حکام میں سے 80 فی صد صرف انگریزی بولنے کی کوشش میں خوار ہوتے ہیں اور صرف 20 فی صد اعتماد کے ساتھ اپنا مافی الضمیر بیان کر سکتے ہیں۔ اگر یہ سب اردو میں بولیں تو اپنی تعلیم اور تجربے کی بنیاد پر 90 فی صد شاندار بات چیت کر پائیں گے۔
آپ کو حیرت ہوگی کہ پاکستان مقتدرہ کی اعلیٰ ترین مسند پر بھی انگریزی میں اٹھک بیٹھک ہی سب سے بڑا معیار ہے۔ کئی اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں میں نواز شریف کی کرپشن سے زیادہ اعتراض ان کی بری انگریزی پر خود سنا ہے۔ صرف سیاسی ہی نہیں، غیر سیاسی اشرافیہ میں بھی وہی بامراد ٹھہرتا ہے جو انگریزی زبان کے ناکے سے نکل پاتا ہے۔
ایک بات پورے اعتماد سے عرض کرسکتا ہوں کہ بین الاقوامی سطح پر ہم پاکستانی گونگے ہیں اور دنیا ہمارے ریاستی بیانیے سے بڑی حد تک متفق نہیں ہوتی اور ہماری نالائقیوں کے علاوہ اس کی بڑی وجہ یہی زبان غیر ہے جس میں ہم " شرح آرزو" کرتے ہیں۔ (جاری ہے)