زندگی بہت مشکل ہے۔ بس کانٹوں پر گھسٹتی ہوئی ایک ریشمی چادر ہے۔ کچھ نہیں ہوسکتا کہ زمین سخت اور آسمان نامہربان ہے۔ قسمت کا کھیل ہی کچھ ایسا ہے کہ کوئی پتا صحیح نہیں جمتا۔ شاید یہ یا اور کئی طرح کے بہانے روز ہم اپنے آپ کو بتاتے ہیں۔ پھر کبھی کبھی ہم کچھ ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جو ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم اپنی آزمائشوں اور بہانوں سے کہیں زیادہ بڑے ہوسکتے ہیں۔
آپ سوچیں کہ تقریبا 25 میٹر (82 فٹ) کے دائرے میں چلتے ہوئے آپ دنیا کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟ خاص طور پر جب آپ کی عمر 99 سال ہو، کولہے کی ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو، گھٹنا کھسکا ہوا ہو، اور چلنے کے لیے بھی بیساکھیوں کی حاجت ہو اور بے ترتیب سانسوں کو پکڑنا محال ہو؟ میں آپ کو ایسے بوڑھے اور ٹوٹے پھوٹے وجود والے شخص کی کہانی سنانے لگا ہوں جس نے بڑھاپے اور ہیرو کے معانی ہی بدلے دیے۔
کہانی یہ ہے کہ 1920 میں پیدا ہونے والا ایک شخص 99 برس تک، اربوں دوسرے انسانوں کی طرح جی رہا تھا، پھر 100 سالہ سالگرہ سے کچھ ہفتے پہلے اس نے کچھ ایسا کیا کہ وہ کروڑوں میں ایک، اور لیجنڈ بن گیا۔
پوری زندگی وہ ایک عام انسان تھا، جنگ عظیم کے کروڑوں سپاہیوں میں وہ ایک افسر تھا، تاہم وہ فوج سے بحیثیت کپتان ریٹائر ہوگیا، مگر اس نے زندگی بھر بوٹ نہیں اتارے۔ زندگی بھر شاید اس نے ناموری کی خواہش کی ہوگی، مشہور ہونے کا دل چاہا ہوگا۔ مگر زندگی کے 99 برس اپنے لیے جینے کی وجہ سے ان میں سے کوئی سپنا بھی پورا نہ ہوا۔
ہاں، یہ سب کچھ اکٹھا 30 دن میں مل گیا کہ وہ 30 دن اس نے دوسروں کے لیے وقف کر دیے تھے۔ گزشتہ سال کورونا وائرس کی یلغار ہوئی تو ایک دم سناٹا چھا گیا۔ امریکا، لندن، یورپ، دبئی، ہانگ کانگ کے بازار خالی ہوگئے۔ برطانیہ دنیا میں کورونا وائرس کا شکار ہونے والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ برطانیہ میں پہلا لاک ڈاؤن ہوگیا اور اسپتال مریضوں سے بھرنے لگے۔ یک لخت ایسا محسوس ہوا کہ کل سورج طلوع نہیں ہوگا۔ تبھی اس 99 سالہ بوڑھے کی آواز ابھری "ٹومارو ول بی اے گڈ ڈے"۔
پہلے لاک ڈاؤن میں، میں اپنے دوستوں سلیمان رضا اور بلال ثاقب کے ساتھ ایک طرح سے محاذ پر تھا۔ لاک ڈاؤن کی شدت کی وجہ سے برطانیہ میں خوراک کا بڑا بحران پیدا ہوچکا تھا کہ سارے ہوٹل، ریسٹورنٹ، ڈھابے بند ہوچکے تھے۔ ڈاکٹر اور طبی عملہ دن رات ایک کر کے انسانی جانیں بچا رہے تھے مگر انھیں خوراک اور انرجی کی حاجت تھی۔
ہم تینوں نے رضاکاروں کے ساتھ مل کر "ون ملین میل" مہم شروع کردی جس کا مقصد طبی عملے کو خوراک کی مفت فراہمی تھا۔ اوپر والے نے ہاتھ پکڑا اور ہم دس دنوں کے اندر انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور ویلز کے اسپتالوں میں مفت خوراک فراہم کر رہے تھے۔ برطانوی سپراسٹار ڈیوڈبیکہم ہماری سپورٹ کر رہا تھا اور بعد میں ملکہ برطانیہ سے لے کر وزیر اعظم برطانیہ نے بھی "ون ملین میل" کی خدمات کا اعتراف کیا۔ بحران کے انھی دنوں نے ہمارا 99 سالہ ہیرو کو جنم دیا۔ ہی واز میڈ ان کرائسس۔
بیڈفورڈ شائر میں رہنے والا 99 سالہ کیپٹن ٹام مور اپنے گارڈن میں تقریباً 25 میٹر (82 فٹ) کے دائرے میں بیساکھی کی مدد سے چلتے ہوئے برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کی خدمات کے اعتراف میں ہزار پاؤنڈ جمع کرنا چاہتا تھا۔ ہر روز ایک چکر لگانا تھا اور لوگوں سے چندے کی اپیل کرنی تھی۔ 6 اپریل کو اس نے اپنے باغ میں چلنا شروع کیا تاکہ 30 اپریل تک اپنی سالگرہ تک ہزار پاؤنڈ (تقریباً دو لاکھ روپے)جمع کرسکے۔
یہ ایک چھوٹی سی انسانی خواہش تھی جس میں کہیں سے رحمانی مرضی شامل ہوگئی۔ 99 سالہ کیپٹن ٹام مور کے جذبے کی حدت نے برطانویوں کو پگھلا دیا۔ اس کے ہیٹ میں سکے گرتے ہی چلے گئے اور کورونا وائرس کی پھیلائی ہوئی دھند میں 99 سالہ سپاہی عزم کا استعارہ بن گیا۔ 24 دن میں رقم ہزار پاؤنڈ نہیں، پندرہ لاکھ عطیات کی وجہ سے 32 ملین پاؤنڈ اور اختتام پر 44 ملین پاؤنڈ(تقریباً 10 ارب پاکستانی روپے) تک جا پہنچی۔ جب 30 اپریل کو ٹام مور اپنی سوویں سالگرہ منا رہا تھا، سیکڑوں رضاکار اس کے نام ملنے والے ڈیڑھ لاکھ سے زائد سالگِرہ کے کارڈ کھول رہے تھے۔
یہی نہیں، کیپٹن ٹام مور کی 100ویں سالگرہ منفرد انداز میں منائی گئی۔ رائل ائرفورس کے طیاروں نے فلائی پاسٹ پیش کیا۔ اسے اعزازی طور پر کرنل کے عہدے پر ترقی دی گئی، اعزازی طور پر برطانیہ کی کرکٹ ٹیم کا رکن بھی بنایا گیا، ملکہ برطانیہ اور وزیراعظم بورس جانسن نے ان کے لیے خصوصی پیغامات بھیجے، آرمی کے سربراہ جنرل سر مارک کارلیٹن اسمتھ نے کیپٹن ٹام کو "متاثرکن رول ماڈل" قرار دیا۔
سالگرہ کے موقع پر پٹ فائر اور ہوری کین طیاروں نے کیپٹن ٹام کو فلائی پاسٹ پیش کیا۔ رائل میل نے کیپٹن ٹام کے گھر کے نزدیک خصوصی پوسٹ باکس بھی نصب کیا تھا۔ اسے فریڈم آف دی سٹی آف لندن کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ 20 مئی کو ملکہ برطانیہ نے ایک خاص طور پر منعقدہ تقریب میں ٹام مور کو نائٹ ہڈ کا اعلیٰ ترین اعزاز پیش کیا اور وہ سر ٹام مور ہوگیا۔ دو یونیورسٹیوں نے اسے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی اور وہ کیپٹن کرنل ڈاکٹر سر ٹام مور بن گیا۔ اس کے نام پر ریلیز ہونے والا گانا (You Will Never Walk Alone)ہٹ سنگل بن گیا اور گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں دو ریکارڈ بھی اس کے نام پر شامل ہوگئے۔ یہی نہیں درجنوں ٹرینوں اور طیاروں کے نام "کیپٹن ٹام مور" رکھ دیے گئے۔
2 فروری 2021 کو کیپٹن ٹام مور کورونا وائرس کی وجہ سے چل بسا۔ تاہم کورونا وائرس اسے کبھی نہیں مار سکے گا۔ ایک ٹوٹے ہوئے کولہے والے 99 سالہ شخص نے کروڑوں لوگوں کو زندگی میں کچھ کر گزرنے کے لیے اکسا دیا۔ اس کی روح آج بھی ہم سب سے مخاطب ہے۔" تم بولو، تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو، کب کرو گے؟ تمہیں کس گھڑی، کس پیغام کا انتظار ہے؟ تم اکھاڑے میں کب اترو گے جب کہ زندگی کی رزم گاہ تمہارے انتظار میں ہے؟ تمہارے پاس اپنی کرنی، کر گزرنے کے لیے کیا بہانہ ہے؟ "