تلاشِ حق ایک سفرِ مسلسل ہے، اِس کے پَڑاؤ بھی دراصل منزلیں ہیں، جوتھک کر رْک جاتے ہیں وہ" اپنی دانست" کے مقام کو پا لیتے ہیں اور جو بِنا تھمے چلتے رہتے ہیں اْنہیں منزل خود اپنا پتہ بتا دیتی ہے۔ آبلے، مشقت، خطرات، فاقے اور تردد اِس راہ کے مسافروں کی نشانیاں ہیں جب کہ زادِ راہ "ہدایت" ہے اور بے شک اللہ کے سوا کوئی کسی کو "ہدایت" دے ہی نہیں سکتا۔
ہدایت اِتنا بڑا لفظ ہے کہ فقہائے عظام اور علمائے کرام نے اِس کے متعدد معنی اخذ کیے ہیں، بعض سطح پر رہے اور بعض گہرائی میں اْترگئے، کسی نے ہدایت کو نہ بجھنے والا چراغ کہا توکوئی اِسے ایمان کے سرسبز باغ سے تعبیر کرتا رہا، کسی کی نگاہ میں یہ عطائے عظیم ہے اورکسی کے علم کے مطابق ہدایت ہی قرآن کریم ہے۔
یہ سب تعبیریں درست، متوازن اور روشن ہیں لیکن ہدایت کا اصل سرچشمہ میرے سیدی ﷺ کی ذاتِ اقدس ہے جنھیں مختارِکْل نے بڑے پیار سے تخلیق کیا اور اِسی لیے آپ اِرشاد فرماتے ہیں کہ " اللہ نے مجھے جس ہدایت اور علم کے ساتھ بھیجا اْس کی مثال اْس بارش کی سی ہے جو زمین پر پڑتی ہے، زمین میں سے ایک قِسم پاکیزہ ہوتی ہے جو پانی کو قبول کرتی ہے اور پھر گھاس اور سبزہ کثیر اْگاتی ہے، دوسری قِسم پتھریلی اور بے آب وگیاہ ہے جو پانی کو روک لیتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اِس کے ذریعے بھی لوگوں کو نفع دیتا ہے، اِس جمع ہوئے پانی سے لوگ خود پیتے اور مویشیوں کو پِلاتے ہیں اور اِسی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں اور تیسری قِسم وہ ہے جس پر بارش تو برستی ہے لیکن وہ سخت پتھریلی زمین ہوتی ہے، نہ تو پانی کو روک سکتی ہے اور نا ہی گھاس اْگا سکتی ہے"پھر آپ مزید اِرشاد فرماتے ہیں کہ پہلی مثال اْس شخص کی ہے جو دین میں سمجھ حاصل کرتا ہے اور جس علم کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے اْس سے خود بھی نفع اْٹھاتا ہے اور دوسروں کو بھی اِس کی تعلیم دیتا ہے اور آخری مثال اْس شخص کی ہے جو اْس کی طرف سر اْٹھا کر نہیں دیکھتا اور جس ہدایت کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں اْس ہدایت کو قبول بھی نہیں کرتا۔"
ہفتے میں دو بار اِن ہی کالموں میں آپ سے "مخاطب" ہوتا ہوں، تحریر قلم کی وہ سرگوشیاں ہوتی ہیں جو آپ تک پہنچ کر"آواز" بن جاتی ہیں، سوچا کہ کیوں نہ اِس بار اْس روایت اور اْس پاک نفس کی آپ بیتی کا ذکر کروں جس نے بچپن ہی سے میرے دل پرگہرا اثر ڈالابلکہ یوں کہیے کہ دل کی دنیا ہی بدل ڈالی اور میرا دعویٰ ہے کہ ہماری زندگیوں میں اْٹھنے والے ہر نئے سوال کا جواب سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اِس "تلاشِ حق" میں پوشیدہ ہے۔ ہدایت کی جستجو آسان نہیں، اور ہدایت تو رسول ﷺ ہیں، اللہ جسے چاہتا ہے اْسے "سرکار" عطا فرمادیتا ہے یعنی اْن کی اِطاعت کی دولت سے مالا مال کردیتا ہے۔
کچھ ایسا ہی قبیلہ رام ہرمز کے سلمان ؓکے ساتھ ہوا، آپ بیان کرتے ہیں کہ میں یتیم تھا اور رام ہرمزکے ایک کسان کا بیٹا تھا، میرا ایک ہی بھائی تھا جو مجھ سے بڑا اور اپنی مرضی کا مالک تھا لیکن میں فقیر تھا، میراایک اْستادتھا، جو بادشاہ کا بیٹا تھا لیکن مجھے تعلیم دیا کرتا تھا، ایک دِن میں اْسی کے ساتھ ہولیا تاکہ اْس کے گرجے میں اْس کے ساتھ ہی رہا کروں۔ میرے اْستاد کا معمول تھا کہ جب وہ اپنی مجلس برخاست کرتاتو اْس کے محافظ اْس سے علیحدہ ہوجاتے اور جب وہ چلے جاتے تو یہ چہرہ چھپا کر باہر نکلتا اور پہاڑوں پر کہیں چلاجاتا، ایک دن میں نے اْس سے کہا کہ" آپ مجھے اپنے ساتھ لے کرکیوں نہیں چلتے؟ "
اْس نے جواب دیا کہ آپ ابھی چھوٹے ہیں، اور مجھے ڈر ہے کہ آپ سے کوئی بات ظاہر نہ ہوجائے لیکن میرے مسلسل اِصرار پر اْس نے بتایا کہ "پہاڑوں پر ایک غار ہے جس میں کچھ ایسے لوگ رہتے ہیں جن کا کام بس عبادت اور آخرت کو یاد کرنا ہے، یہ آگ اور بْتوں کے پجاریوں کو بے دین کہتے ہیں اور اِن کے نزدیک ہم بے دین ہیں …میں تو بس اِن کی باتیں سننے چلا جاتا ہوں "…
حضرت سلمان فارسیؓ نے بتایا کہ "میں نے اْس سے کہا کہ آپ مجھے بھی اْن کے پاس لے چلیں "اْستاد نے جواب دیا کہ اْن سے پوچھے بنا میں ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ اگر تمہارے منہ سے کچھ نکل گیا اور یہ بات میرے باپ کے علم میں آگئی تو وہ اْن لوگوں کو قتل کرادے گا"لیکن میری یقین دہانیوں اور لگن کے سامنے اْسے ہتھیار ڈالنا پڑے اور وہ اْن سے اجازت لے کر مجھے اْن کے پاس لے گیا۔ وہ سات افراد تھے جن کے دن روزے اور راتیں قیام میں گذرتی تھیں اور اِن کی غذا درختوں کے پتے یا جو چیز اِن کو ہدیتاً مل جاتی تھی کھالیتے، وہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے رہے، اْس کے رسولوں کا تذکرہ کرتے رہے حتیٰ کہ عیسٰی ابن مریم علیہ السلام تک جاپہنچے، اْنہوں نے کہا "اللہ نے اْنہیں مبعوث فرمایا اور اْنہیں بغیرکسی نَر(باپ) کے پیدا کیا اوراْنہیں مْردوں کو زندہ کرنے والی قوت عطا فرمائی مگر اْ ن کی قوم نے اْن کے ساتھ کفرکیا، البتہ ایک جماعت نے اتباع کرلی تھی، بے شک وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور اے لڑکے وہی اللہ تیرا بھی رب ہے، تجھے مرکے دوبارہ جینا ہے، تیرے آگے جنت اور جہنم ہے اور تْو اِن ہی کی طرف رواں دواں ہے اور یہ لوگ جو آگ کی پوجا کرتے ہیں یہ گمراہی میں گھرے ہوئے ہیں اور اللہ اِن سے راضی نہیں ہے۔"
مجھے اْن کی باتیں ایسی بھائیں کہ میں اْن کے پاس ہی رہ گیا، اْنہوں نے مجھ سے کہا کہ "سلمان! ابھی آپ کی استطاعت نہیں کہ جو ہم کرتے ہیں وہی آپ کریں، آپ تو بس نمازیں پڑھیں اورکھا پی کر سوجایا کریں " میں نے اْن کی بات مان لی اور وہی کیا جو اْنہوں نے مجھ سے چاہا، کچھ دنوں کے بعد نہ جانے بادشاہ کوکیسے خبر ہوگئی اور اْس نے غار میں اِن عبادت گذار لوگوں کو جالیا اور اْن سے سختی سے پیش آتے ہوئے کہنے لگاکہ "میں نے تمہارے ساتھ کوئی برائی نہیں کی لیکن تم نے میرے بیٹے کو غلط راہ پر لگا دیا ہے لہٰذا میں تمہیں تین دن کی مہلت دیتا ہوں کہ یہاں سے چلے جاؤ، اگر تین دن کے بعد میں نے تمہیں یہاں پایا تو میں تمہاری پناہ گاہ کو آگ لگادوں گا"اْن لوگوں نے جواب دیا کہ "ہم چلے جاتے ہیں مگر یاد رکھ کہ ہم نے تیرے ساتھ بْرائی کا نہیں بلکہ بھلائی کا اِرادہ کیا تھا، افسوس کہ تْو سمجھ نہ سکا۔"…
حضرت سلمان فارسیؓ نے بتایاکہ "جب بادشاہ نے اپنے بیٹے اور میرے اْستاد کو اْن لوگوں کے پاس جانے سے روک دیا تو میں نے اْس سے کہا کہ "تم اللہ سے ڈرو! یہ جانتے ہوئے کہ یہی سیدھا راستہ ہے اِس کے باوجود تم خوف زدہ ہوگئے" اْس نے جواب دیا کہ "سلمان! بات توکچھ ایسی ہی ہے جیسا آپ نے کہا لیکن کیا یہ بہتر نہیں کہ میں اِن لوگوں کے شاگرد کے طور پر پیچھے رہ جاؤںکیونکہ اگر میں اِن کے ساتھ گیا تو میرا باپ سب ہی کو قتل کرا دے گا اور یہ گھاٹے کا فیصلہ ہوگا"اْس کی یہ دلیل سننے کے بعد میں اپنے بھائی کے پاس گیا، اْ س کو ساری حقیقت بتائی اور ساتھ چلنے کو کہا لیکن اْس کا نفس تلاشِ معاش کی لذتوں کا عادی تھا، چنانچہ اْس نے انکار کردیا۔
میں اْن لوگوں کے پاس واپس گیا اور اْن سے کہا کہ "میں آپ لوگوں کو نہیں چھوڑ سکتا، آپ جہاں جائیں گے، میں ساتھ جاؤں گا "اْنہوں نے مجھے غور سے دیکھا اور پھریوں گویا ہوئے کہ "اے سلمان! ہم دن میں روزہ رکھتے ہیں، درختوں کے پتے کھا کر گذارا کرتے ہیں اور رات بھرکھڑے رہ کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں، آپ سے یہ سب نہیں ہوسکے گا، آپ یہیں رک جائیے"…مگر میرے شوق کے آگے بالاخر اْنہیں ہتھیار ڈالنا ہی پڑے۔
(جاری ہے…اگلی قسط جمعے کو ان شااللہ)