مسلمانوں کو دو عیدیں عطا کی گئیں، ایک "عیدالفطر" اور دوسری "عیدالاضحی" عیدالفطر ماہ رمضان کے بعد شوال کی پہلی تاریخ کو واقع ہوتی ہے، اس دن کا محبوب عمل صدقہ دینا اور دوگانہ نماز ادا کرنا ہے، عیدالاضحی ماہ ذی الحجہ کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو واقع ہوتی ہے، ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کی صبح کو دوگانہ نماز ادا کرنے کے بعد جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے، عید کی نماز سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں، قربانی کا یہ عمل تین دن تک جاری رہتا ہے۔
قربانی کے لیے جس جانور کا انتخاب کیا جائے وہ صحت مند ہونا چاہیے اونٹ، بھینس وغیرہ میں سات حصے کیے جاتے ہیں، لیکن بکرا یا بکری میں صرف ایک شخص ہی قربانی کرسکتا ہے۔
قربانی مستقل عبادت ہے جو صاحب نصاب پر واجب ہے اور جو صاحب نصاب نہ ہو اس کے لیے مستحب ہے، لیکن حج میں اس کی فضیلت اور بھی زیادہ ہے اور اس کی کثرت سے مرغوب ہے، خود نبی کریمؐ نے اپنے حج میں 100 اونٹ قربان کیے تھے۔ حضور اکرمؐ کا پاک ارشاد ہے کہ قربانی کرنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اور قربانی کے جانورکے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ قربانی کا جانور جب ذبح ہوتا ہے تو پہلے قطرے پر قربانی کرنے والے کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور مع اپنے خون اور گوشت وغیرہ کے لایا جائے گا اور ستر درجے زیادہ وزنی بناکر اعمال کی ترازو میں رکھا جائے گا۔ (کنز)
حضور اقدسؐ نے اپنی اور اپنی تمام امت کی طرف سے قربانی کی تو امت کو بھی زیبا ہے کہ اپنی قربانی کے ساتھ حضور اقدسؐ کی طرف سے بھی ایک قربانی کیا کریں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ ایک بکرا اپنی طرف سے قربانی کرتے تھے اور ایک حضورؐکی طرف سے۔ کسی نے آپ سے دریافت کیا تو آپؓ نے فرمایا مجھے حضورؐ کا ارشاد ہے کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کروں، اس لیے میں ہمیشہ کرتا رہوں گا۔ (کنز)
قربانی کا یہ عمل اللہ رب العزت کو بہت پسند ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ قربانی کرنے والے کو بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے، رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا "جو شخص قربانی کے دن اپنی قربانی کے پاس جاتا ہے اور اسے اللہ کی راہ میں قربان کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بہشت کے قریب کردیتا ہے، جب قربانی کے خون کا پہلا قطرہ گرتا ہے تو قربانی کرنے والا بخش دیا جاتا ہے، قیامت میں یہی قربانی اس کی سواری ہوتی ہے، جانورکے بال اور پشم کے برابر اسے نیکیاں ملتی ہیں۔ " ایک اور موقع پر آنحضورؐ نے ارشاد فرمایا "قربانی دو اور خوشی خوشی دو، جو شخص جانورکا منہ قبلے کی طرف کرکے قربانی دے، اس قربانی کے تمام بال اور خون کے سب قطرے قیامت کے دن تک محفوظ رکھے جائیں گے۔ "
اسلام میں قربانی کو عظیم عمل قرار دیے جانے کے بعد یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ انسان اللہ کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہے، چاہے وہ وقت کی قربانی ہو، یا مال کی قربانی ہو، جانورکی قربانی ہو یا جان کی قربانی، قربانی کا عمل اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند ہے، اگر اللہ کے لیے انسان کوکسی پریشانی سے گزرنا پڑے، اپنا وقت قربان کرنا پڑے، اپنا مال خرچ کرنا پڑے تو اسے یہ قربانی خوشی خوشی دینی چاہیے اور اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ رب العزت نے اسے قربانی کی توفیق عطا فرمائی۔ یقینا اللہ رب العزت انسان کو ہر اس قربانی کے عوض جو اللہ کے لیے ہوگی، اجر عظیم عطا فرمائے گا۔
عیدالاضحی تمام مسلمانوں کے لیے خوشی و مسرت اور ذخیرۂ آخرت جمع کرنے کا شان دار موقع ہے، اس لیے تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ عید کی نماز ادا کریں اور جو لوگ صاحب استطاعت ہیں وہ قربانی کریں۔ قربانی کیے ہوئے جانوروں کا گوشت وہ خود بھی کھائیں، اپنے اعزا و اقارب اور احباب کو بھی کھلائیں۔ ساتھ ہی اس موقع پر غریبوں کا خیال رکھیں۔ کیونکہ یہ عید ان کے لیے بھی ہے۔
اگر استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے وہ قربانی کرنے یا قربانی کے گوشت سے محروم رہ جائیں گے، تو انھیں اس بات کا احساس ہوسکتا ہے، چنانچہ ایسے لوگوں کا پورا دھیان رکھنا چاہیے جو اپنی غربت کی وجہ سے قربانی نہ کرسکیں۔ جو لوگ قربانی کریں وہ اس بات کو ضرور ملحوظ رکھیں کہ کہیں ان کے پڑوسی یا احباب و رشتے دار قربانی نہ کرنے کی وجہ سے قربانی کے گوشت سے محروم تو نہیں رہ جائیں گے، اگر کہیں اس طرح کی صورت حال پائی جائے تو اس کا پورا خیال رکھیں۔ ایسا کرنے سے محلہ اور بستی کے سبھی لوگ یکساں طور پر عید منا سکیں گے۔
شہروں میں صاحب حیثیت لوگوں کی بڑی تعداد ہوتی ہے، اگر وہ کوئی ایسا نظم کرنا چاہیں کہ کم ازکم عید کے دن ہر جگہ کے مسلمان قربانی کے گوشت سے محظوظ ہوسکیں تو ایسا کیا جاسکتا ہے۔
عید قرباں کے موقع پر اس بات کا بھی پورا خیال رکھنا چاہیے کہ قربانی کے گوشت کی ناقدری نہ ہو، ان مقامات پر جہاں صاحب ثروت لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، وہاں عام طور سے گوشت کی ناقدری ہوتی دکھائی دیتی ہے، کیونکہ ایک شخص بڑے اور پورے جانورکی قربانی کرتا ہے بلکہ بعض توکئی کئی جانوروں کی قربانی کرتے ہیں، ایسے میں ان کے لیے گوشت کی قدر دانی مشکل ہوجاتی ہے، پڑوسیوں، رشتے داروں اور محلہ داروں کے یہاں گوشت بھیجا جاتا ہے تو وہ لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے کیونکہ ان کے یہاں خود یہی کیفیت ہوتی ہے، ایسے حالات میں بہتر یہ ہے کہ وہ لوگ جو کئی کئی جانوروں کی قربانی کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ قربانی کے جانوروں کا گوشت یا قربانی کے جانور ایسے محلوں، گاؤں یا علاقوں میں پہنچائیں جہاں غربت زیادہ ہوتی ہے اور عام طور سے لوگ قربانی نہیں کرپاتے، اگر پاکستان میں ایسے علاقوں کو تلاش کیا جائے تو اس کی ایک طویل فہرست تیار ہوسکتی ہے۔
اگر ایک سے زائد جانوروں کی قربانی کرنے والے لوگ ان علاقوں میں پہنچا دیں تو انھیں قربانی کا ثواب تو ملے گا ہی، ساتھ ہی ان کے قربانی کے جانوروں کا گوشت بھی ضایع نہ ہوگا اور غریب و نادار لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔ بعض لوگ ایسے مقامات یا آبادیوں میں رہتے ہیں جہاں قربانی کے لیے کوئی اطمینان بخش جگہ نہیں ہے۔ وہ قربانی کرنے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اس خطرے کی وجہ سے قربانی نہیں کرتے انھیں چاہیے کہ وہ اس خطرے کی وجہ سے قربانی کو موقوف نہ کریں بلکہ وہ ان علاقوں میں قربانی کا انتظام کرسکتے ہیں جہاں کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور جہاں ان کے قربانی کے جانوروں کا گوشت قدر کے ساتھ مسلمان بھائی استعمال کرسکیں۔
عید الاضحی کے موقع پر صفائی ستھرائی پر بھی خاص دھیان دینے کی ضرورت ہے، گوشت، ہڈیاں یا دیگر آلات راستوں، نالوں اور سڑکوں پر نہ پھینکیں۔ عید کے دن چونکہ بعض علاقوں میں گوشت کی بہتات ہوتی ہے، اس لیے ذرا سی لاپرواہی سے گندگی کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے، جس کا ایک نقصان تو یہ ہے کہ اس سے طرح طرح کی بیماریاں و تعفن پھیلنے کا اندیشہ رہتا ہے، دوسرا ان لوگوں کے لیے جو غیر مسلم ہیں یہ صورت حال باعث تکلیف ہوسکتی ہے، خاص طور پر ہمارے ملک میں تقریباً ہر جگہ ملی جلی آبادی پائی جاتی ہے۔ اس لیے برادران وطن کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے، یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں غیر مسلموں کے حقوق بھی بیان کیے گئے ہیں، عید قرباں پر صفائی ستھرائی نہ رکھنے کا ایک اور نقصان یہ بھی ہے کہ اس صورت حال میں غیر مسلم قوموں میں اچھا پیغام نہیں جاتا ہے، مسلمانوں کی شبیہ خراب ہوتی ہے اور دوسرے لوگ مسلمانوں کو گندی قوم خیال کرنے لگتے ہیں، جب کہ اسلام میں صفائی ستھرائی اور پاکی کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔