Sunday, 24 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Well Informed

Well Informed

شیخ صاحب کو ہر وہ خبر اچھی اور سچی لگتی ہے جو ان کے مزاج کے عین مطابق ہو۔ دن میں ان کی طرف سے اتنے واٹس ایپ میسج آتے ہیں کہ میرا سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ سورس پوچھ لوں تو آگے سے طنزیہ میسج آتا ہے"کچھ دن صبر کرو، خود ہی پتا لگ جائے گا،۔ میں بھی دانت پیس کر لکھ دیتا ہوں کہ "یہ صبر آپ سے کیوں نہیں ہورہا؟،۔ سار ی زندگی شیخ صاحب کریانہ اسٹور سے وابستہ رہے۔ نہ کبھی اخبار پڑھا نہ کوئی کتاب۔ لیکن فیس بک پر آتے ہی ہر دو نمبر نیوز سائٹ جوائن کی اور اب اتنے پختہ ہوچکے ہیں کہ نیوز سائٹ کی محتاجی بھی نہیں رہی، کوئی ان کی مرضی کا ٹیکسٹ رنگ برنگے باکس میں ڈیزائن کرکے لگادے تو اسے ہی خبر تصور کرکے آگے پھیلانے میں لگ جاتے ہیں۔ کچھ روز پہلے ان کی طرف سے مجھے ایسی ہی ایک ڈیزائن نما خبرملی جس میں لکھا ہوا تھا"مبارک ہو، عافیہ صدیقی خیرخیریت سے وطن واپس پہنچ گئی ہے۔ ، میں نے فوری طور پر نیوز چینلز دیکھے، انٹرنیٹ پر غیر ملکی اخبارات کھولے لیکن ایسی کوئی خبر نظر نہیں آئی۔ فوراً پوچھا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے لیکن پلیز آگاہ کیجئے کہ یہ خبر نیشنل یا انٹرنیشنل میڈیا پر کیوں نہیں آرہی؟۔ حسب معمول میسج آیا"سارا میڈیا بکائو ہے اسی لیے یہ خبر نہیں چلائی جارہی لیکن مجھ تک یہ خبر پہنچ گئی ہے،۔ میں نے انہیں فون کیا اور پوچھا کہ کس نے میڈیا کو پیسے دے کر یہ اہم خبر رکوائی ہوگی؟ ان کی طرف سے بہترین جواب موصول ہوا"امریکہ نے سب کو خرید لیا ہے،۔ میں نے پورے احترام سے پھر پوچھا"یعنی آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ امریکہ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا بھی کر دیا ہے اورپوری دنیا میں یہ خبر بھی روک لی ہے؟،۔ وہ پورے یقین کے ساتھ بولے"ہاں! کیونکہ امریکہ کا سب پر کنٹرول ہے،۔ میں نے اپنے ایک دوست کے ذریعے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی فیملی سے بات کنفرم کی تو پتا چلا کہ خبر سو فیصد جھوٹی ہے۔ تاہم شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ عافیہ صدیقی کی فیملی بھی امریکہ کے دبائو کی وجہ سے خبر کی تصدیق نہیں کر رہی ورنہ عافیہ ان کے پاس پہنچ چکی ہے۔ ڈھٹائی کا کوئی علاج نہیں۔

شیخ صاحب چونکہ تحقیق سے سخت نفرت کرتے ہیں لہٰذا کبھی ضرورت محسوس نہیں کی کہ جو خبر ان تک پہنچی ہے وہ سچ ہے یا جھوٹ۔ ان کا اپنا اسٹائل ہے۔ ہر وہ خبر سچی ہے جسے وہ سچ سمجھیںاور ہر وہ خبر جھوٹی ہے جسے ان کے علاوہ ساری دنیا تسلیم کرے۔ شیخ صاحب خبر شیئر کرنے سے پہلے یہ پوچھنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ کیا یہ خبر دوسرے کو معلوم ہے یا نہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ جو چیز وہ شیئر کر رہے ہیں وہ ان کے علاوہ کسی کے باپ کو بھی پتا نہیں ہوسکتی۔ خیر اس معاملے میں وہ ٹھیک ہیں۔ پچھلے مہینے مجھے کچھ کتابیں خریدنا تھیں، ابھی میں بک اسٹور میں داخل ہی ہوا تھا کہ شیخ صاحب کی کال آگئی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی بادل نخواستہ سن لی لیکن دوسری طرف سے ان کی بات سن کر بے اختیار چونک اٹھا۔ فرمانے لگے"جتنی جلدی ہوسکتا ہے زیادہ سے زیادہ گندم ذخیرہ کرلو، انڈیا اور پاکستان کی جنگ شروع ہونے والی ہے۔ اشیائے ضرورت کا ذخیرہ کرلو کیونکہ پھر مارکیٹ سے کچھ نہیں ملے گا۔ " میں نے مٹھیاں بھینچیں"یہ خبر بھی یقیناً صرف آپ تک ہی پہنچی ہوگی کیونکہ ابھی دس منٹ پہلے تک تو میڈیا میں ایسی کوئی خبر نہیں تھی،۔ وہ چہکے"بالکل ٹھیک کہا، میں چونکہ ویل انفارمڈ ہوں اس لیے ہر اہم خبر سب سے پہلے مجھ تک ہی پہنچتی ہے،۔ میں نے سخت لہجے میں کہا"شیخ صاحب ! اب کی بار طے کریں، اگر آپ کی خبر غلط نکلی تو آپ کو کتنا جرمانہ کیا جائے،۔ بے نیازی سے بولے"ایک ماہ تک اگر میری خبر درست ثابت نہ ہوئی تو میں دس ہزار روپے جرمانہ دوں گا.لیکن اگر صحیح ثابت ہوگئی تو تمہیں دس ہزار دینا ہوں گے۔ ، میں نے فوراً ہامی بھر لی۔ اس کے بعدشیخ صاحب نے زنانہ انداز کے طعنے شروع کر دیے"تمہیں کیا پتا خبر کیا ہوتی ہے.بندے کو ویل انفارمڈ ہونا چاہیے.اندر کی خبر لینا سیکھو.وغیرہ وغیرہ،۔ یہ سن کر اندازہ ہوا کہ کریانہ اسٹور شاید شیخ صاحب کا پارٹ ٹائم بزنس ہے ورنہ اصل میں تو وہ کسی انٹرنیشنل نیوز ایجنسی سے وابستہ ہیں۔ حسب معمول ایک ماہ گزر گیا۔ میں بھی ہر روز شیخ صاحب کو بطور خاص یاد دلاتا رہا کہ باقی کتنے دن رہ گئے ہیں۔ تین دن باقی رہ گئے تو شیخ صاحب کی طرف سے میسج ملا" جنگ کے حوالے سے میرا موقف تھا کہ 90 فیصد چانسز ہیں،۔ میرا بے اختیار قہقہہ نکل گیا۔

انٹرنیٹ پر موجود زیادہ تر ویب سائٹس شیخ صاحب جیسے لوگوں کے اندھا دھند کلک کے سبب ہی چل رہی ہیں۔ یہ سائٹس سادہ سی خبر کو بھی اس انداز سے پیش کرتی ہیں کہ شیخ صاحب ٹائپ لوگ اصل خبر پڑھے بغیر صرف ہیڈنگ پر ہی ایمان لے آتے ہیں۔ مثلاًاگر اداکار شان یہ کہے کہ "انڈیا سے مجھے فلموں میں کام کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا ہے، تو اِن ویب سائٹس کی ہیڈنگ ہوگی"اداکار شان نے انڈیا سے رابطے کا ہولناک انکشاف کرلیا،۔ اس کے بعد شیخ صاحب جیسے لوگ دھڑا دھڑہیڈنگ کاا سکرین شاٹ لے کر شیئر کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ دیکھو! آخر نکلا نا غدار۔ ایسی ویب سائٹس کو عموماً چار یا پانچ لوگ چلاتے ہیں جن کا صحافت سے اتنا ہی تعلق ہوتاہے جتنا ان کے قارئین کا۔ عالمی میڈیا میں کوئی خبر آئے نہ آئے، اِن سائٹس پر ضرور آجاتی ہے اور شیخ صاحب خوش ہوجاتے ہیں کہ بیٹھے بٹھائے "ویل انفارمڈ، ہوگئے۔ سیاسی خبریں اِن ویب سائٹس کا پٹرول ہوتی ہیں لہٰذا یہ اپنی ذاتی خواہشات کو خبر کا نام دے کر سائٹ پر چڑھا دیتے ہیں اوراول جلول لوگوں کی اکثریت کو اپنی راہ پرلے چلتے ہیں۔ ایسی سائٹس کے اسٹاف میں عموماً کمپوزر رکھنے کا تکلف نہیں کیا جاتا لہٰذا ہیڈنگ کے علاوہ ساری تفصیل کاپی پیسٹ ہوتی ہے۔ نہ ان کا کوئی ایڈیٹوریل اسٹاف ہوتاہے، نہ کوئی دفتر، نہ رپورٹر، نہ دیگر خرافات۔ بس گوگل سے تصویر یں لے لیں، قومی اخبارات کی سائٹس سے خبریں کاپی کرلیں اور اپنا ڈیزائن بنا کر دھڑلے سے لگا دیں۔

About Gul e Nokhaiz Akhtar

Gul e Nokhaiz Akhtar

Gul Nokhaiz Akhtar is a Pakistani columnist and writer for various TV shows. He is the author of 12 books and writer of over 2000 TV scripts and plays.