اگرچہ سیاست کے میدان میں ہم نووارد تھے ممکن ہے لوگ حسد میں نو آموز بھی کہتے ہوں لیکن متعدد پراڈکٹس کی ایکسپورٹ کے حوالے سے دنیا میں ہماری پہچان تھی کہ ہمیں شہر کے کاروباری لوگوں کے ہجوم میں بھی یکے از ایکسپورٹر سمجھا جاتا تھا۔ اگر یورپ کے دو چار شہروں میں نام تھا تو جنگل میں مور ناچا والی مثل ہی ہوئی نا۔ اگرچہ بڑے سیاسی گھرانے میں رشتہ داری کی وجہ سے ہمیں کاروباری رکاٹ کسی جگہ نہ آتی لیکن اخباروں میں ان اپنوں کی خبریں اور تصویریں دیکھ کر دل ضرور مچلتا۔ ہمارے خواہش کرنے کی دیر تھی کہ رشتہ داروں نے اشارے کر دیے، الیکشن قریب تھے، بس پھر کیا تھا۔
اسمبلی کی ممبر شپ ہی نہیں وزارت اور نظامت بھی ہماری جھولی میں پکے پکائے سیبوں کی طرح آ گری۔ آپ نے ٹھیک کہا کہ ہمارے بڑوں نے ساری عمر ملک کی خدمت کی اور جان کا نذرانہ بھی پیش کیا تو ہم کیوں ان کے نقش قدم پر نہ چلتے۔ ہم اپنے بزرگوں سے یہ حقیقت پا گئے ہیں کہ اپنی ذاتی معیشت مستحکم ہو تو آپ ووٹ سے لے کر دوسرے ملکوں کی بندرگاہیں تک خرید سکتے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں جواب دیتے ہوئے ہم ہم کہہ کر جمع کا صیغہ کیوں استعمال کر رہا ہوں۔ سیدھی سی بات ہے، یہ صرف میں نہیں ہوں یہ ہم ہیں۔
میرے پاس پیسہ بہت تھا جو میں نے افسروں اور بڑے لوگوں میں سر بلند رہنے کے لیے پانی کی طرح بہایا، کئی بار الیکشن جیتا ہوں اور انھی صاحب لوگوں کو چکر لگوانے کا مزہ اٹھایا ہے۔ سائلوں کو انتظار میں ذلیل کرنے کی لذت بھی عجیب نشہ ہے۔
میں آیا نہیں بلایا گیا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ڈپٹی کمشنر صحیح معنوں میں حاکم ضلع کہلاتے تھے۔ انھوں نے مجھے بلا بھیجا اور کہا کہ عام انتخابات قریب ہیں، اوپر سے حکم آیا ہے کہ ٹھیک قسم کے لوگوں کو ٹھونک بجا کر دیکھ کر پارٹی ٹکٹ دے کر ان کو الیکشن میں کامیاب کر اکر اسمبلی میں بھیجوایا جائے۔ ڈی سی صاحب کی عنایت تھی کہ انھوں نے مجھ جیسے خاکسار تابعدار فرمانبردار کو چن کر متوقع امیدواروں کے پینل میں ڈال دیا ورنہ میں تو اس قابل نہ تھا کہ اپنے گھر سے بھی ووٹ کی توقع رکھتا۔ مردم شناس حاکم ضلع کو البتہ اپنے عرصہ تعیناتی میں مجھ سے کئی بار ملنے کے بعد اندازہ ہو گیا تھا کہ میں جناب عالی حضور بندہ پرور کے القاب صرف زبان سے ادا ہی نہیں کرتا دل و جان کی گہرائیوں سے ان کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہوں۔ اس پہلی لاٹری کے نکلنے کے بعد سے اب تک میں ہر حکومت میں شامل رہا، سرکاری پارٹی کا وفادار رہا۔
آپ کے اس سوال کے جواب میں کہ میں سیاست میں کیسے آیا، پہلے ہنسی آئی ہے اور پھر رونا۔ دونوں آپ کی عقل پر۔ یہ سوال ہی لغو ہے کیا آپ سے کسی نے آج تک پوچھا ہے کہ آپ پیدا کیسے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے ہمارے والد سیاستدان تھے، دادا سیاستدان تھے، ان کے بزرگ جاگیردار تھے۔ ہمارے خاندان نے اس ملک کے وجود میں آنے سے پہلے انگریز کے ساتھ مل کر ہندوستان پر حکومت کی ہے۔ سیاست ہمارے گھر کی لونڈی ہے۔
والد صاحب نہایت تجربہ کار اور گھاک سیاست دان تھے۔ بدقسمتی سے صرف پرائمری جماعت تک تعلیم پائی تھی، اس لیے الیکشن کے نئے ضوابط پر پورے نہ اترتے تھے اگر انھیں صرف ایک سال قبل پتہ چل جاتا تو بی اے کی ڈگری ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ میں دو بار بی اے میں فیل ہو چکا تھا لیکن جیسے ہی نئی پالیسی بنی والد صاحب نے میری تعلیم کی خاطر دن رات ایک کردیے اور میں بی اے کے امتحان میں امتیاز کے ساتھ کامیاب ہو گیا۔ یوں والد صاحب نے مجھے الیکشن کی آگ میں جھونک دیا اور میں پالنے سے نکلا تو سیدھا ایوان سیاست میں داخل ہو گیا۔
ہمارے بزرگوں نے دین کی بھی بہت خدمت کی ہے، لوگوں کو سیدھے رستے پر چلنے کی تعلیم دی۔ بزرگوارم کی بہت بڑی گدی ہے، ان کی اولاد نے ان کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے سیاست میں قدم رکھ دیا۔ ہمارے لاکھوں عقیدت مند ہیں۔ بہت سے اللہ والوں نے اپنی اراضی گدی کے نام وقف کر دی ہوئی ہیں۔ مجھے والد صاحب کے حکم کے تحت الیکشن لڑنا اور سیاست میں آنا پڑا۔ ماشاء اللہ میرے بیٹے نے ابھی سے سرکاری پارٹی زندہ باد کا نعرہ لگا دیا ہے۔
ڈسٹرکٹ لیول کی سیاست میری ہابی تھی، ایک سیاسی پارٹی سے ذہنی مطابقت ہو گئی تو انھوں نے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا۔ پارٹی کا زور تھا کامیابی بھی ہو گئی، صوبائی اسمبلی کا ممبر بن گیا، ایک وزارت بھی مل گئی، یہ سب آناً فاناً ہوا۔ میں نے عہد کیا کہ میرے محکمے میں ہر کام سینیارٹی قابلیت اور میرٹ پر ہو گا۔
کچھ عرصہ پریشانی رہی پھر میں سکھی ہو گیا۔ ہر جگہ میری عزت ہوئی۔ وزارت ختم ہوئی۔ نئے الیکشن ہوئے میں نے انصاف اصول اور میرٹ کے وعدوں سے تقریریں کیں اور الیکشن میں بری طرح پٹ گیا۔ اب لوگ ووٹ بھی اسے دیتے ہیں جو جائز و ناجائز کا فرق مٹا کرکام کرنے کا وعدہ کرے خود بھی کھائے دوسروں کا پیٹ بھی بھرے۔
پچیس سال محکمہ مال میں ملازمت کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ حرام کی کمائی کو خدمت خلق پر لگا دینا کار ثواب ہو گا لہٰذا گریڈ 17کی نوکری پر لات ماری۔ اپنے حلقہ میں جا کر ایک عبادتگاہ کا سنگ بنیاد رکھا اور برادری کے دوستوں رشتہ داروں کو اکٹھا کرکے پروگرام دیا اور حلقے کے اتھرے نوجوانوں کو کام پر لگا دیا۔
دوسروں کے کامیاب الیکشن کروانے کا وسیع تجربہ میرے کام آیا اور ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی خدمات اس پارٹی کے سپرد کرنے کا اعلان کر دیا جسکے سر پر ہما کا سایہ تھا۔ میں نے نوکری کے پچیس سال ضایع نہیں کیے تھے۔ اب میں ممبر ہوں اور غصے میں کبھی کبھی اپنی ہی پارٹی پر کڑی تنقید کر دیتا ہوں یا حزب مخالف کے گھر کھانے پر چلا جاتا ہوں نتیجتاً اگلی ہی شام مجھے اوپر سے بلاوا آ جاتا ہے اور خدمت خلق کے کئی پھنسے ہوئے کام IN RELAXATION OF RULES فٹافٹ ہو جاتے ہیں۔ میری زندگی کے روپ بہروپ بھی کمال رہے۔