Thursday, 12 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Saqoot e Damishq Ki Kahani

Saqoot e Damishq Ki Kahani

اس بار 27 نومبر کوجب انہوں نے حز ب اللہ کی خالی پوسٹوں کو کرد باغیوں سے آزاد کروایا توپتہ چلا کہ آگے کوئی مزاحمت ہی نہیں ہے۔ وہ کوئی گولی چلائے بغیر شہر کی طرف بڑھتے گئے۔ حلب کو فتح کرنے کے بعد حماہ کی طرف بڑھتے ہوئے، ان کو شامی اور روسی ایئر فورس کی بمباری کا سامنا کرنا پڑا، مگر افغانستان میں 2022 میں جس طرح طالبان کو زمینی سطح پر کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور گولی چلائے بغیر ہی وہ کابل کے درازے پر دستک دے رہے تھے، بالکل وہی صورت حال شام میں بھی پیش آئی۔ حلب کو فتح کرکے ایچ ٹی ایس کے ایک کمانڈر نے دعوی کیا تھا کہ وہ عیدالفطر دمشق میں منائیں گے، جس کو کئی صحافیوں نے دیوانے کی بڑ بتادیا تھا۔ مگراس سے چار ماہ قبل ہی ا بو محمد الجولانی کو دمشق کی اموی مسجد، جس کی دیوار کے پاس پیغمبر حضرت یحییٰؑ اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی قبریں ہیں، میں شکرانے کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا گیا۔

ایران کی داخلی الجھنوں اور حز ب اللہ کی لبنان میں مصروفیت نے یقیناََ سقوط دمشق میں مدد دی۔ سفارتی ذرائع کے مطابق کئی ماہ سے ایران نے روس کی نیت کے بارے میں شکوک و شبہات پالے ہوئے تھے۔ تہران کو خدشہ تھا کہ ماسکو ترکیہ کے مقابلے میں ایران کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایران اور اسد نے عراق میں شیعہ مزاحمتی گروپوں کو شام میں تعینات کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر عراق میں ان کی پوزیشنوں پر امریکی فضائی حملوں کے خطروں کے پیش نظر عراقی حکومت نے اس کی منظوری نہیں دی۔ ایران نے افغان فاطمیون بریگیڈ کے جنگجوؤں کو بھی متبادل کے طور پر متحرک کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، سیریا ٹی وی کے مطابق، حلب کے ارد گرد اہم فوجی اڈوں کے حالیہ نقصان کے بعد ان کی تعیناتی مشکل ہوگئی تھی۔

بہر حال دمشق پہنچ کرسوشل میڈیا پر نشر کیے گئے ایک بیان میں، جولانی نے نظم و ضبط پر زور دیا۔ انہوں نے جنگجووں کو خبردار کیا کہ وہ عوامی اداروں کے قریب نہیں جائیں گے اور وہ بشار الاسد کی حکومت میں وزیر اعظم محمد غازی الجلالی کی نگرانی میں رہیں گے جب تک متبادل حکومت کا انتظام نہیں ہوتا ہے۔ جولانی کا چونکہ ماضی میں القائدہ کے ساتھ رابطہ رہا ہے، اسلئے مغربی دنیا کو اس سے خدشات لاحق ہیں۔ مگر اس وقت آئی ایس ایس کے خلاف جو محاذ بنا تھا، اس میں چونکہ القائدہ کا مقامی نیٹ ورک بھی شامل تھا، اس لئے ا ن کے اس ماضی کے رابطہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کے ساتھ انہوں نے کئی بار اظہار لاتعلقی کیا ہے۔

2017 سے ادلب صوبہ پر حکومت کے دوران انہوں نے انتظامیہ میں تمام نسلی اور مذہبی گروہوں کو جگہ دی اور طالبا ن کے برعکس خواتین کیلئے کوئی ڈریس یا کوئی اور کوڈ نافذ نہیں کروایا۔ حلب میں عیسائی گرجا گھر میں جاکر انہوں نے اقلیتی آبادی کو تحفظ کا یقین دلایا۔ اس طرح انہوں نے اس کے علوی فرقہ کے افراد کے جان و مال کی گارنٹی دی اور اپنے حامیوں کو کہا کہ وہ اب درگزر سے کام لیں۔ یہ تو طے ہے کہ جولانی کوآزادی کے لیے ترستے شامیوں کی امیدوں اور بین الاقوامی برادری کی تشویش کے درمیان توازن قائم کرنا ہوگا۔ ان کے لیے، یہ لمحہ ایک موقع اور ایک امتحان ہے۔ آئندہ مہینوں میں ان کے اقدامات طے کریں گے کہ شام امید کی مثال بن کر ابھرتا ہے یا افراتفری میں غرق ہو جاتا ہے۔

سب سے دل کو چھو لینے والے مناظر میں سے ایک سیدنایا جیل سے قیدیوں کی رہائی ہے، جو استبداد اور جبر کا ایک مرکز تھا۔ اس کو انسانی قتل گاہ کہا جاتا تھا۔ چند قیدی جو آزاد ہوگئے، ان کی موت کی سزا اسی دن دوپہر کومقرر کی گئی تھی۔ کیلس قصبہ کے کیمپ میں عائشہ کو اسی دن پتہ چلا کہ اس کا بھائی زندہ ہے اور قید سے آزاد ہوگیا ہے۔ اس نے کہا کہ "آج صرف ایک حکومت کے زوال کا دن نہیں ہے، یہ انسانیت کی واپسی کا دن ہے"۔

بدنام زمانہ جیلوں کی سیاہ راہداریوں سے ظلم و جبر سے دبی ہوئی دکھ بھری داستانیں باہر آ رہی ہیں۔ جن کو مردہ سمجھا گیا تھا وہ اب زندہ سامنے آرہے ہیں۔ دل کو چھو لینے والی کہانی علی حسن العلی کی ہے، جو تقریباً چار دہائیوں تک شامی جیل میں قید رہے۔ انہیں 1986 میں، جب وہ 18 سال کے تھے، گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اب 57 سال کے ہیں۔ ان کے بھائی معمر علی نے تین دہائیوں تک مختلف سکیورٹی برانچوں کا دورہ کیا، جہاں انہیں اپنے بھائی کے بارے میں متضاد معلومات ملیں۔ "شام میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں ہم نہ گئے ہوں۔ ہم نے پورے ملک کا چکر لگایا تاکہ معلوم کر سکیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ ایک دن وہ تسلیم کرتے کہ وہ جیل میں ہیں، اگلے دن وہ انکار کر دیتے"علی نے کہا۔ انہوں نے امید چھوڑ دی تھی۔ ان کا بھائی جب جیل گیا تھا، تو جوا ن تھا اب وہ ایک بوڑھے آدمی کے طور پر باہر نکلے ہیں۔

شامی نیٹ ورک برائے انسانی حقوق (SNHR) کے اندازوں کے مطابق، 2011 سے1.2 ملین سے زیادہ شامیوں کو حراست میں لیا گیا ہے یا غائب کر دیا گیا ہے۔ اعداد و شمار میں کم از کم 135,253 افراد شامل ہیں، جن میں 3,691 بچے اور 8,473 خواتین شامل ہیں، جو حکومت کی جیلوں میں غائب ہو گئے۔ یہ اعداد و شمار اسد کے دور حکومت میں ہونے والی وسیع تر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی صرف ایک جھلک ہیں۔

اگست 2013 میں غوطہ پر کیمیکل حملہ جنگ کے سب سے تاریک بابوں میں سے ایک ہے۔ اسد کی افواج نے سرین گیس استعمال کرتے ہوئے 1,400 سے زیادہ لوگوں، بشمول بچوں اور خواتین کو ہلاک کر دیا۔ حملے نے، جس میں صبح کی ٹھنڈی اور ساکن ہوا کا فائدہ اٹھایا گیا تھا، خاندانوں کو ان کے گھروں میں دم گھوٹ کر مارا۔ عالمی برادری کے غصے کے باوجود، حکومت کی تشدد کی مہم جاری رہی، جس نے بین الاقوامی برادری کی بے بسی کو اجاگر کیا۔ ڈیٹا بیس کے مطابق، 2012 سے 222 بار شام میں کیمیکل حملوں کا دستاویزی طور پر ثبوت موجود ہے۔ ان تمام حملوں میں تقریباً 98 فیصد شامی حکومتی افواج کی طرف سے کیے گئے، جبکہ تقریباً دو فیصد ISIS کی طرف سے کیے گئے۔

شام کی یہ دکھ بھری کہانیاں سن کر میں اب کیلس سے انقرہ کی طرف واپسی کا ارادہ کر رہا تھا۔ سرحد کی دوسری طرف جشن مناتے ہوئے ہوا میں فائرنگ کا سلسلہ تھم ہی نہیں رہا تھا۔ مہاجر کیمپ میں موجود یاسمین اپنے بچے کو گود میں لئے سرحد کے پار دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر امید اور غیر یقینی کا امتزاج تھا۔ "ہم اتنا عرصہ اس کا انتظار کر رہے تھے، "اس نے کہا۔ "لیکن آزادی تو صرف ایک شروعات ہے۔ اب ہمیں ایک ایسا شام تعمیر کرنا ہے جہاں ہمارے بچے دوبارہ خواب دیکھ سکیں"۔

یقیناََ جنگ زدہ ملک میں تعمیر نو بنیادی ڈھانچے کو کھڑ ا کرکے عارضی راحت کا لمحہ ہوسکتا ہے مگر اصل چیلنج معاشرہ کے زخموں کا مداوا کرنا اور اس کو متحد کرنا ہے۔ بچ جانے والوں کی کہانیاں ہمیں یاد دلاتی رہیں گی کہ جنگ انسانی زندگیوں پر کس قدر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ اس سے قبل کہ دنیا کی توجہ کسی اور طرف مبذول ہو، شام کے عوام پر پچھلی ایک دہائی کے دوران جو بیتی، یا جو اس وقت غزہ پر بیت رہی ہے، ہمیں بتاتی ہے کہ اکیسویں صدی کے مہذب معاشرہ میں بھی چنگیز خان یا ہٹلر کی روح کو شرمندہ کرنے والے موجود ہیں۔ ایک انسان کس قدر انسانیت سے عاری اور حیوانوں سے بھی بد تر ہوسکتا ہے۔