رات تاریک تھی۔ ریل کے ڈبے میں دو ہی مسافر تھے۔ خاموش، منتظر کہ کوئی ایک گفتگو کا آغازکرے۔ آخر ایک شخص کھنکارکر اپنا گلا صاف کرتا ہے، سامنے والے سے پوچھتا ہے "جناب کیا آپ بھوتوں پر یقین رکھتے ہیں؟"
دوسرا شخص اطمینان سے جواب دیتا ہے " نہیں" اور اگلے ہی پل غائب ہو جاتا ہے۔
اگر زندگی کے کسی موڑ پر ملنے والا کوئی شخص اِس طرح، اچانک، جدا ہو جائے تو آپ مرتے دم تک اسے نہیں بھولیں گے، لیکن ایسا خال خال ہی ہوتا ہے کہ ملاقاتی آپ کے ذہن پے نہ مٹنے والے نقوش چھوڑ جائے۔ عام طور پر ملاقاتیں، عام سی ہوتی ہیں۔ لوگ تقریبات میں ملتے ہیں، گپ شپ کرتے ہیں، فون پر طویل مکالمہ ہوتا ہے اور پھر وہ، کچھ عرصے بعد، ایک دوسرے کو بھول جاتے ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ وہ کس تقریب میں ملے تھے، کس موضوع پر انھوں نے گپ شپ کی، مکالمے کا موضوع کیا تھا اور یہ قابل فہم ہے۔
عام زندگی میں، عام ملاقاتوں میں کبھی کوئی شخص یوں پراسرار، چونکا دینے والے انداز میں غائب نہیں ہوتا۔ ہاں، اگر وہ شخص صاحب کتاب ہو، ایک لکھاری، ایک تخلیق کار ہو، تو اس کے پاس ایک ایسا ذریعہ بہ ہرحال ہوتا ہے ہے، جس سے وہ اپنی یاد آپ کے ذہن کے محفوظ ترین گوشے میں پہنچا دے۔ اور ایسا وہ اپنی کتاب کے وسیلے سے کرتا ہے۔
جی، کتاب کے وسیلے۔ جب آپ اسے بھول بھی جاتے ہیں، تب بھی وہ کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے، آپ کے شیلف میں، آپ کے بستر کے سرہانے، گھر میں کہیں بہت سی کتابوں کے نیچے دبا ہوا یا پھر اس ڈبے میں بند، جسے آپ نے ایک سے دوسرے مکان میں منتقل ہونے کے بعد تاحال نہیں کھولا۔ تو وہ موجود رہتا ہے، آپ کے پاس۔ خاموش۔ انتظار کرتا ہوا۔ ٹھیک ویسے ہی، جیسے آدم شیر میرے ساتھ موجود ہے، اپنی کتاب"اک چپ سو دکھ" کے وسیلے سے۔ ایک ایسی کتاب جسے پڑھ کے ہمیں یہ ادراک ہوتا ہے کہ اس کا لکھنے والا تلخی حیات کا ترجمان ہے۔
ایک سچا، کھرا صحافی ہے۔ وہ صحافی، جس کی زبان پرگرفت متاثرکن ہے، فکشن لکھنے کے لیے موزوں۔ کہانی سے انصاف کرنے کو تیار۔ اور پھر اس کے پاس ایک حساس دل ہے، جو اوروں کا کرب، اوروں کی تکالیف یوں محسوس کرتا ہے، جسے وہ اس کی اپنی تکلیف ہو۔ اوروں کے المیوں سے اس کا قلم خوب انصاف کرتا ہے، بالخصوص جب موضوع معصوم بچے ہوں۔
بیماری، ہراسگی، زیادتی جیسے سانحوں کے آس پاس منڈلاتے معصوم بچے۔ آدم کے دل میں بھی ایک بچہ چلتا پھرتا ہے، جسے وہ ایک فکشن نگارکی نگاہ سے دیکھ سکتا ہے، اسے لکھ سکتا ہے۔ اس کے فکشن میں حساسیت کے ساتھ ساتھ ہمارا سامنا یاسیت سے بھی ہوتا ہے، جو اگرچہ قاری کے لیے دل پذیر نہیں، مگر بہ ہرحال زندگی کا حصہ ہے۔ اچھا، اسی ٹرین میں ہم ایک اور افسانہ نگار سے ملتے ہیں، جس کا نام ہے، ظفر عمران۔ قلم اس کا رواں۔ انداز میں شوخی اور شرارت۔ زندگی کا تجربہ بھی، اور مشاہدہ بھی۔
’ آئینہ نما، کی صورت عمران اپنا فن ہمارے سامنے لاتا ہے۔ اس کے پاس سنانے کو کہانیاں ہیں، ان کرداروں کی کہانیاں، جنھیں اس نے اپنے ارد گرد شناخت کیا، جن سے وہ ملا، جن کے ساتھ جیا، جن کے ساتھ سفر کیے۔ اور اُن حقیقی کرداروں کی افسانوی کہانی ہمارے سامنے آتی ہے۔ جمی ہوئی زبان میں، جہاں املا کی صحت کا خاص خیال رکھا گیا۔ اتنا کہ کبھی کبھی پڑھنے والے کو کھلنے لگتا ہے۔ جنس اس کے بیش تر افسانوں کا موضوع ہے، عورت بیش تر افسانوں کا کردار۔ یوںجنس اور عورت کے وسیلہ وہ پہلے ہی مرحلے میں اپنی توجہ ہماری جانب مبذول کرا لیتا ہے۔ افسانوں کے عنوانات توجہ مہمیز کرتے ہیں۔
اسکرپٹ رائٹنگ میں ہمارے دوست کی خوب گرفت۔ ان افسانوں میں بھی اسکرپٹ رائٹنگ کا ڈھب کار فرما۔ تکنیک کے بھی تجربات ملتے ہیں، جو چند افسانوں کی اہمیت کو دو چندکر دیتے ہیں۔ ہاں، ان افسانوں کو پڑھتے ہوئے یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر بار بار افسانہ نگار (ظفر عمران کی صورت) ہمارے سامنے کیوں آ جاتا ہے؟ بہ ظاہر اس میں کوئی خامی نہیں، لیکن یہ چیز قارئین کو متوجہ ضرورکرتی ہے۔
قصہ مختصر، جنس، عورت اور مصنف ایک تکون بناتے ہیں، جس کی چوتھی جہت دل چسپ کہانیاں ہیں، جن کی رفتار تیز ہے۔ یہ پیپر بیک کتاب بڑی دل کش ہے۔ بھلی لگتی ہے۔ ٹرین آگے بڑھ رہی ہے، ایک کے بعد دوسرا اسٹیشن، دوسرے کے بعد تیسرا۔ شام اتر آتی ہے، آسمان پر تارے ہیں اور پھر ڈبے میں ایک ایسا فکشن نگار داخل ہوتا ہے، جس کے ماتھے پر دانائی کی چمک ہے۔ یہ کراچی کا باسی ہے، جس کا نام ارشد رضوی ہے۔ یہ کئی برس پہلے کی بات ہے، کراچی پریس کلب میں ہونے والی ایک تقریب میں، جناب زیب اذکار حسین صاحب نے راقم کو افسانہ پڑھنے کی دعوت دی۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب افسانہ نگاری شروع کیے تین چار برس ہوئے تھے، ترقی پسند رنگ غالب تھا۔ اس روز اے خیام کی صدارت تھی۔ تقریب میں پہنچے، دھڑکتے دل کے ساتھ افسانہ سنایا۔
پھر ہم نے دیگر کو سنا۔ ان ہی لکھنے والوں میں، پڑھنے والوں میں ڈاکٹر ارشدرضوی بھی موجود تھے۔ ان کے افسانے میں ایسا رنگ تھا، جو پوری مجلس پر چھاگیا۔ سننے والوں کو انھوں نے گرویدہ بنا لیا۔ تجریدی افسانے لکھنے والے اس شخص سے یہ میرا پہلا تعارف تھا، اور متاثر کن تھا۔ بعدازاں روزنامہ ایکسپریس کے لیے ان کا ایک انٹرویوکیا، جس میں ان کے افسانے اور ان کی شخصیت کے درمیان ایک ربط دریافت ہوا۔ ایک اداس ربط۔ افسانے میں دانش کی جھلک شرط تو نہیں ہیں، مگر اس کی موجودگی فکشن کو ایک نئی جہت ضرورت عطا کرتی ہے، یہ حقیقت ڈاکٹر ارشد رضوی کی تازہ کتاب " بے ترتیب کہانیاں" میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ آج کراچی میں اخلاق احمد، اجمل اعجاز، محمد امین الدین اور جناب ارشد رضوی جیسے افسانہ نگار موجود۔ رفاقت حیات اور سید کاشف رضا بھی اپنے ناولزکے ساتھ ہمیں میسر۔ اسد محمد خان، ڈاکٹر حسن منظر، زاہدہ حنا اور اے خیام جیسے ناموں کی فہرست تو معتبر ٹھہری، اگر ارشد رضوی اسی ڈھب پر مسلسل لکھتے رہے، تو وہ ان بزرگوں اور نئی نسل کے درمیان پل کا کا کردار دار ادا کر سکتے ہیں۔ صاحب، آج کا سفر تمام ہوا۔ آج کی کہانی اختتام کو پہنچی۔ پھر ملیں گے، کسی ریل کے ڈبے میں، ایک اجنبی سے، جو صاحب کتاب ہوگا اور یوں ایک مختصر سی ملاقات بھی اپنے اختتام کے بعد۔ ۔ ۔ جاری رہے۔