آج تین سال مکمل ہو گئے۔ حسن بن صباح کی خود ساختہ جنت الفردوس کی طرح، عہد حاضر کی خانہ ساز "ریاست مدینہ" میں جب 26 جولائی 2019 کی صبح جمیل طلوع ہوئی تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آنے والی رات مجھے رمنا تھانے کی حوالات اور اس سے اگلی شب اڈیالہ جیل کی قصوری چکی میں گزارنا ہوگی۔ رات ساڑھے گیارہ بجے کے لگ بھگ درجنوں ڈالوں پر سوار پولیس، اینٹی ٹیررسٹس فورس اور مسلح سفید پوشوں کے بھاری دستوں نے مجھے گھر سے اٹھا لیا، جب میں رات کے لباس میں تھا اور میرے پاؤں میں رف چپل تھے۔
مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ مجھ سے ایسا کون سا گھناؤنا جرم سرزد ہو گیا ہے۔ اگلی صبح رمنا تھانے کے ایک اہلکار نے مجھے بتایا کہ آپ کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے باعث تعزیرات پاکستان کی دفعہ 188 کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ آپ نے کوئی مکان کرائے پر دیا ہے لیکن کرایہ دار کے کوائف تھانے میں جمع نہیں کرائے۔ میں نے نہ کوئی مکان کرایہ پر دیا تھا اور نہ کسی کرایہ دار کے کوائف تھانے میں جمع کرانا تھے۔ تسلی ہوئی کہ رانا ثناء اللہ جیسی کوئی واردات نہیں ڈالی گئی۔
کوئی گیارہ بجے ایک پرزن وین تھانے کے اندرونی احاطے میں لگی۔ مجھے چلنے کا حکم ہوا۔ میں خاموشی سے قدم اٹھاتا پرزن وین کے پاس کھڑا ہوگیا۔ پہلے ایک جواں سال لڑکے کو ہتھکڑی بندھے ہاتھوں کے ساتھ وین میں دھکیل دیا گیا۔ میں سوار ہونے کے لیے پرتول ہی رہا تھا کہ ایک اہلکار نے بازو پکڑ کر روک لیا۔ ایک افسر کے اشارے پر دوسرا اہلکار آگے بڑھا اس نے میرے دائیں ہاتھ میں ہتھکڑی ڈالی اور گاڑی میں سوار ہونے کا حکم دیا۔ چھ اہلکار اندر بیٹھ گئے۔ عقبی ٹاٹ نیچے گرا دیا گیا۔ جانے کہاں کہاں چکر کاٹتی، میڈیا والوں کو جُل دیتی پرزن وین ایک عمارت تک پہنچی۔
آہنی گیٹ کھلا، وین اندر داخل ہوگئی۔ چار چھ وکلاء جانے کیسے پہنچ گئے تھے۔ مجھے ہتھکڑی سمیت ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر کے سامنے کھڑا کر دیا گیا جو اس وقت مجسٹریٹ کا کردار ادا کر رہی تھیں۔ وکلاء نے کہا کہ ایف آئی آر میں جس گھر کا ذکر ہے وہ گھر عرفان صدیقی کا نہیں، اُن کے بیٹے کا ہے اور اسی کے نام ہے۔ معاہدہ بھی اِنکے بیٹے اور کرایہ دار کے درمیان ہوا ہے اور کرایہ دار کو آئے آج تیسرا دن ہے۔ عدالت نے فیصلہ سنایا کہ ملزم کو چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جائے۔
جیل میں میرے لیے ایچ ایس بی (HSB) یعنی ہائی سیکیورٹی بلاک کا انتخاب ہوا جہاں دہشت گردوں اور سنگین جرائم میں ملوث خطرناک قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ آٹھ بائی آٹھ کی اس کھولی میں پہلے سے پانچ قیدی ٹھسے ہوئے تھے۔ میں کھولی کے ایک گوشے میں بنے بیت الخلا کی دو فٹ اونچی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر نیم دراز ہوگیا۔
اس روداد کی تفصیل میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔
شعوری کوشش کرتا ہوں کہ اس تلخ واقعہ کی اذیّت ناک یادوں کو ذہن سے کھرچ ڈالوں۔ بڑی حد تک اس کوشش میں کامیاب بھی ہو رہا ہوں۔ لیکن کچھ منظر، کچھ یادیں میرے دل و دماغ سے چپک کر رہ گئی ہیں۔ ہزار کوشش کے باوجود نہیں بھول پاتا کہ کس طرح نصف شب کو مجھے دھکیلتے ہوئے گاڑی میں ڈالا گیا تھا اور کس طرح میری گلی کے مکین، گیٹ کھول کر اور بالکنیوں سے میری تذلیل کا یہ منظر دیکھ رہے تھے۔
میں آج بھی سوچتا ہوں کہ جب میں ہاتھ پاؤں نہیں مار رہا تھا تو مجھے دبوچنے کی کیا ضرورت تھی؟ نہیں بھول پاتا کہ جب میری بیوی اور میری بیٹی کو پولیس نے دھکے دیے تو وہ سڑک پر گر پڑی تھیں۔ دونوں زخمی ہو گئی تھیں۔ میری بیٹی اُٹھ کرایک بار پھر اس گاڑی سے آچمٹی تھی جس میں مجھے بٹھایا گیا تھا۔ وہ چیخ چیخ کر کُچھ بول رہی تھی۔ اُسے ایک بار پھر دو پولیس والوں نے جکڑا اور زمین پر پٹخ دیا۔
"بخشی خانہ" (جہاں جیل لے جانے سے قبل قیدیوں کو عارضی طور پر رکھا جاتا ہے) اسلام آباد کے ایف 8 سیکٹر کے عین وسط میں ہے۔ میری پرزن وین کچھ فاصلے پر رکی۔ مجھے اب پیدل چل کر بخشی خانے کے پھاٹک تک جانا تھا۔ ہتھکڑی لگی تھی۔ اسکی زنجیر تھامے سپاہی کے علاوہ چار پانچ اور اہلکار بھی ساتھ تھے۔ لوگوں کی بھیڑ مجھے دیکھ رہی تھی۔ نہ جانے ایک نوجوان کہاں سے آیا اور زندہ باد کا نعرہ لگا کر غائب ہوگیا۔ مجھے وہ نوجوان پولیس اہلکار بھی نہیں بھولتا جس نے اڈیالہ جیل کے اندرونی رجسٹریشن ہال میں اپنی کلائی پر میرے دستخط لیے تھے۔
یہ واردات "ریاست مدینہ" تخلیق کرنے اور "امر بالمعروف" کا درس دینے والے "تسبیح بدست" حکمران کے عہد پارسائی میں ہوئی۔ گزشتہ تین برس کے دوران مقامی پولیس سے لے کر وزیر اعظم تک، کسی نے بھی مجھ سے افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ عدلیہ آج بیحد متحرک اور آتش زیر پا رہتی ہے۔ میں بھی جھوٹی ایف آئی آر ختم کرانے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ گیا تھا۔
پانچ ماہ بعد انتظامیہ نے لکھ دیا کہ کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔ عدالت نے حکم دیا کہ اب مزید کارروائی کی ضرورت ہی نہیں۔ جیسے کسی کو گھر سے اٹھانا، خواتین کو زخمی کرنا، ہتھکڑیاں لگانا، جیل میں ڈالنا کوئی جرم نہیں۔ آج محترمہ شیریں مزاری پر تو عدالتی کمیشن بیٹھ گیا ہے۔ میرے ساتھ پیش آنے والی گھناؤنی واردات کسی تحقیق و تفتیش کے لائق نہیں سمجھی گئی۔
مجھے یہ بات دیر تک کھٹکتی رہی کہ اگر آئین کا آرٹیکل 175 واضح طور پر عدلیہ اور انتظامیہ میں ایک لکیر کھینچ رہا ہے تو ضلعی انتظامیہ کے ڈی-سی، اے-سی کس طرح جج بن بیٹھتے، اور حکومتی دباؤ میں جسے چاہیں گھر سے اٹھا لیتے، ہتھکڑی ڈالتے اور جیل بھیج دیتے ہیں۔ 2021 میں سینیٹ کا رکن منتخب ہوتے ہی میں نے 1898 کے سامراجی ضابطہ فوجداری ایکٹ (CRPC) میں ترمیم کی کوششیں شروع کر دیں۔
سینیٹ کے متعلقہ سٹاف نے میری مدد کی، میں نے اپنے قانون دان رفقاء، سینیٹر فاروق ایچ نائیک، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ، سینیٹر رضا ربّانی، سینیٹر شہادت اعوان اور سینیٹر علی ظفر سے رہنمائی لی۔ میرا بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ (جس کے چیئرمین سینیٹر محسن عزیز کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے) سے متفقہ طور پر منظور ہوا۔ سینیٹ میں بھی اتفاق رائے سے منظور ہوا اور قومی اسمبلی نے بھی کسی اختلافی ووٹ کے بغیر منظور کر لیا۔ قواعد کے مطابق گزشتہ ماہ، 21 جون کو یہ بل صدر کی رسمی توثیق کے لیے بھیج دیا گیا۔
سینیٹ میں میرے بیشتر رفقاء نے کہا تھا کہ تم کس مافیا سے پنجہ آزمائی کر رہے ہو؟ بل منظور ہو گیا تو سب نے مبارک دی۔ اسلام آباد کی حد تک انتظامی افسران کے عدالتی اختیارات سلب کر لیے گئے تھے۔ ہسپتال میں زیر علاج دانیال عزیز نے ایک ٹیکسٹ بھیجا " میں بیس سال سے یہ جدوجہد کر رہا تھا لیکن ناکام رہا آپ نے یقیناً ایک معجزہ کر دکھایا ہے"۔
ایک ماہ پانچ دن گزر جانے کے بعد بھی کچھ سراغ نہیں مل رہا کہ یہ "معجزہ" پارلیمنٹ ہاؤس سے ایوان صدر تک، چند سو میٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے کن بھول بھلیوں میں کھو گیا ہے؟ پاس پڑوس میں ہی ہے یا ہتھکڑیوں میں جکڑا کسی قصوری چکی میں پڑا ہے؟