Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Hazoor Wala Kahani Abhi Khatam Nahi Hui

Hazoor Wala Kahani Abhi Khatam Nahi Hui

یاد رہے کہ وہ کتاب جس کا نام پاکستان، اگر ہم سب اِس کتاب کے ایک Page پر نہ آئے تو دشمن اس کتاب کا ایک ایک Page پھاڑ دے گا۔

پہلے دیکھئے کیا نہیں ہمارے پاس، دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہم، دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہماری، آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل اور گہرے پانیوں والی بندرگاہ گوادر، کیا نہیں ہمارے پاس، بہترین جغرافیائی محلِ وقوع، آبادی کے لحاظ سے چھٹا اور رقبے کے لحاظ سے 36 واں بڑا ملک، دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان اور کوئلے کے دوسرے بڑے ذخائر، اور کیا نہیں ہمارے پاس، ٹیکسٹائل پیداوار میں چوتھا، آموں اور کھجوروں میں پانچواں، گندم میں آٹھواں، گنے میں نواں، سنگترے، مالٹے پیدا کرنیوالا دسواں اور چاول پیدا کرنیوالا گیارہواں بڑا ملک، دریا، سمندر، صحرا، پہاڑ اور چاروں موسم اور پھر دیکھئے حالات چاہے جیسے بھی رہے، پاکستانی deliver کرتے رہے اور اکثریت چاہے سوئی رہی مگر اقلیت جاگتی رہی جیسے جہاں اپنے لئے جینے کا رواج، وہاں عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر روتھ فاؤ جیسی بیسیوں ہستیاں خدمتِ خلق بھی کرتی رہیں، جہاں حکومتوں کو ایک فرلانگ سڑک یا ایک پل بنانے میں سالوں لگ جائیں، وہاں عمران خان دو شوکت خانم کینسر اسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے ادارے بنا دیں، جہاں انصاف خرید لیاجاتا ہو اور بڑے اپنی مرضی کے فیصلے کروا لیتے ہوں، وہاں کی عدالت نے ہی حکم عدولی اور کرپشن پر دو وزرائے اعظموں کو گھر بھجوایا، جہاں لاکھوں خواتین پابندیوں میں جکڑی ہوئیں، وہاں53 برس پہلے شکریہ خانم جہاز اڑا لے، جہاں 70 فیصد عورتیں گھر سے نہ نکل سکیں، وہاں اکیلی نمرہ سلیم انٹار کٹکا تک پہنچ جائے، جہاں عورتوں کو ڈھور ڈنگر سمجھا جاتا ہو وہاں شرمین عبید ایک نہیں دو آسکر ایوارڈ جیت لے، جہاں بیٹیوں کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے وہاں ملالہ یوسف زئی نوبیل پرائز کی حقدار ٹھہرے، جہاں ڈھائی کروڑ بچے اسکول ہی جا نہ پائیں وہاں علی معین نوازش 21 مضامین میں21 Aلینے کا ریکارڈ قائم کر دے، وہاں ارفع کریم دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سوفٹ انجینئر بن جائے اور وہاں ولید امجد اقوام متحدہ کے مضمون نگاری کے عالمی مقابلے میں اول آ جائے، جہاں نابینائوں کیلئے تعلیم اور روزگار نہ ہو وہاں نابیناؤں کی کرکٹ ٹیم ایک نہیں 2 ورلڈ کپ جیت لائے، جہاں کے پہاڑی لوگ غیر ملکی سیاحوں کا سامان اُٹھا کر پھولے نہ سمائیں وہاں انہی لوگو ں میں سے نذیر صابر اور حسن صد پارہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرلیں اور پھر جس کے پاس جوتے خریدنے کے پیسے نہ ہوں وہی ہاشم خان اسکواش کا ورلڈ چیمپئن بن جائے، جو ایک اسنوکر ٹیبل نہ خرید سکتا ہو وہی محمد یوسف اسنوکر کا عالمی چیمپئن ہو جائے، جو ٹریک سوٹ خریدنے کی سکت نہ رکھتا ہو وہی محمد وسیم باکسنگ کا ورلڈ چیمپئن بن جائے اور جس کے پاس گراؤنڈ جاتے ہوئے بس کا کرایہ نہ ہو وہی نسیم حمید جنوبی ایشیا کی تیز رفتار اتھلیٹ قرار پائے۔

اب سوچئے کہ اگر پاکستان نہ ہوتا تو کیا یہ سب ہمارے پاس ہوتا اور کیا یہ سب کامیابیاں ہمیں مل پاتیں، چلیں یہ چھوڑ دیں، یہی بتادیں کہ اگر پاکستان نہ ہوتا تو ہم کیا ہوتے، ہندوستان کے دوسرے، تیسرے درجے کے، نہیں بلکہ چوتھے درجے کے شہری کیونکہ دوسرے درجے پر تو سکھ اور عیسائی اور تیسرے پر ہندو دلّت، ہم تو چوتھے درجے کے شہری ہوتے ہمیں مسلمان کی بجائے مُسلا کہہ کر تمسخر آمیز لہجے سے پکارا جاتا ہمارے مذہبی تہواروں سے اذان تک سب پر طرح طرح کے اعتراض کئے جاتے، ہم جس مسجد میں نماز پڑھتے وہاں شروع شروع میں کوئی ہندو انتہاپسند تنظیم باقاعدگی سے خنزیر کا سر یا کوڑا کرکٹ، گندگی اور غلاظت پھینکتی، اگر ہم پھر بھی نمازیں پڑھنے سے باز نہ آتے تو ریاستی حکومت کی ملی بھگت سے مسجد کو تاریخی ورثہ قرار دے کر یا تو تالہ لگا دیا جاتا یا کوئی ہندو تاریخ دان اس مسجد کی بنیادوں میں کوئی چھپا مندر ڈھونڈ لیتا اور یوں مسجد ہی مسمار کر دی جاتی۔ اگر ہم پاکستانی نہ ہوتے تو ہمارے گھر میں پڑے مرغی کے گوشت کو گائے کا گوشت قرار دے کر ہمیں مار دیا جاتا یا نوید پٹھان کی طرح سرعام قتل کر دیا جاتا، ہمیں ہر جگہ کوٹہ سسٹم کا سامنا کرنا پڑتا اور بہنوں بیٹیوں کے اچھے رشتوں کیلئے مذہب کی قربانی دینا پڑتی، اگر ہم پاکستانی نہ ہوتے تو ہمیں ہندوستانی فلموں میں چُھرے، خنجر اور بندوقیں اُٹھائے دہشت گردوں کے روپ میں دکھایا جاتا، میڈیا میں جنونی اور دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جاتا، ہم کاروبار کرتے تو حیدر آباد کے تاجروں کی طرح ہر چیز چھین کر ہمیں زندہ جلا دیا جاتا، سیاست میں ہوتے تو گجرات کے ایم ایل اے اقبال احسان کی طرح بیٹیوں سمیت برہنہ ذبح کر کے آگ لگا دی جاتی، یا پھر کوئی بھی بہانہ بنا کر دن دیہاڑے سب کے سامنے ہمارے گھر اور عزتیں لوٹ لی جاتیں، اگر ہم پاکستانی نہ ہوتے تو ہم جان کے خوف سے حلال چیزوں کو حرام کر لیتے، ہمیں ہندو پنڈتوں کو مجبوراً اپنا بھائی بنانا پڑتا اور ہمارے سب فتوے مسلمانوں کے خلاف اور ہندوؤں کے حق میں ہوتے، ہمیں اپنا مذہب چھوڑ کر سیکولر بننے کے ڈرامے کرنا پڑتے اور ہر اسپورٹس کی ٹیم میں بمشکل ایک مسلم کھلاڑی ہوتا، قصہ مختصر اگر ہم پاکستانی نہ ہوتے تو نہ کوئی ہمیں انسان سمجھتا اور نہ کوئی سکون سے جینے دیتا اور عالمی سطح پر مسلمانوں کو اتنے مواقع ملتے اور نہ اتنی کامیابیاں، لیکن الحمدللہ ہمیں پاکستان ملا اور شکر الحمدللہ ہم پاکستانی۔

مگر کیا کسی نے پاکستان پلیٹ میں رکھ کر ہمیں پیش کیا، کیا کسی نے پاکستان تحفے میں دیا، کیا پاکستان لاٹری میں نکلا یا پھر پاکستان ایسے بیٹھے بٹھائے ہی مل گیا، نہیں حضور… بالکل نہیں… یہ ہمارے بڑوں کی انتھک قربانیوں اور مسلسل جدوجہد کا نتیجہ، اس کیلئے ہمارے آبا نے خون کے دریا عبو ر کئے، اس کیلئے ہمارے اجداد نے خونی سفر طے کئے اور اس کیلئے ہمارے بڑوں نے وہ ظلم برداشت کئے کہ جس کی روداد سن کر پتھر دل بھی کانپ اُٹھیں یہ لہو لہو داستان یاد دلائے کہ پاکستان کیلئے جوانوں کی جوانیاں، بہنوں کی عزتیں اور بزرگوں کی بزرگی سمیت نجانے کیا کیا قربان ہوا یہ لہو لہو داستان یہ بھی یاد دلائے کہ پاکستان کیلئے بڑے بڑے زمیندار دربدر کی خاک چاٹنے پر مجبور ہوئے، بڑی بڑی حویلیوں والے کھلے آسمان تلے دو وقت کی روٹی کیلئے ترستے پائے گئے، سینکڑوں، ہزاروں گھروں کا خرچہ اُٹھانے والے زکوٰۃ لینے پر مجبور ہوئے اور بڑے بڑے سفید پوشوں کی سفید پوشی کا بھرم سرِبازار کھل گیا، حضورِوالا! یہ ہمارے بڑوں کی قربانیاں ہی جو ہمیں چوتھے درجے کے شہری سے اول درجے کا شہر ی بنا گئیں، ہمیں غلامی سے نکال کر آزاد ملک اور آزادی دلا گئیں اور اللہ کے فضل کے بعد انہی قربانیوں کی بدولت نہ صرف ہم آج آزاد فضاؤں میں پُرسکون رہ رہے، کسی خوف و ڈر کے بنا جی رہے بلکہ آج بڑے فخر سے سب کو یہ بتا رہے کہ ’’ہم پاکستانی‘‘ مگر حضورِ والا! کہانی ابھی یہیں ختم نہیں ہو ئی اور صرف یہ کہہ دینے سے کہ ’’ہم پاکستانی ہیں‘‘ بات نہیں بنتی کیونکہ صرف گزرے کل کی قربانیوں کو یاد کر کے آزادی کی حفاظت نہیں کی جاسکتی بلکہ جیسے آزادی کیلئے تن من اور دھن وارا جائے ویسے ہی آزادی کو قائم رکھنے کیلئے بھی تن من اور دھن وارنا پڑے، لہٰذا اب ہماری باری تن من اور دھن وارنے کی، ہر دشمن کو منہ توڑ جواب دینے اور بزرگوں کی اس امانت پاکستان کو اگلی نسل تک بحفاظت پہنچانے کی، دوستو! اگر ہم اِردگرد نظر دوڑائیں تو معلوم پڑے کہ بے حساب اور بے مثال قربانیوں کے بعد ملا یہ پاکستان آج پھر سے مشکل میں، چاروں طرف سے دشمن کے گھیرے اور اندرونی و بیرونی محاذ پر سازشوں میں، لہٰذ ا یہ سوچ کر پاکستان ہے تو ہماری چوہدراہٹیں بھی ہیں، پاکستان ہے تو ہماری شناخت بھی ہے اور پاکستان ہے تو یہ سب نعمتیں اور یہ سب کامیابیاں، آیئے سب اختلافات بھلا کر ایک ہو جائیں، کیونکہ وہ کتاب جس کا نام پاکستان، اگرہم سب اِس کتاب کے ایک Page پر نہ آئے تو دشمن اس کتاب کا ایک ایک Page پھاڑ دے گا۔