کیا کیا بتایا جائے، ملک، ملکی ادارے، سب کچھ خسارے میں، شریفس سے زرداریز تک، بلاول سے حسن، حسین نواز، سلمان شہباز تک، سب سونے کی کانیں، انہیں چھوڑیں، انور مجید کو لے لیں، 2002ء میں پہلی شوگر مل لگائی، آج 2018ء میں 16 شوگر ملیں، 19 پاور جنریشن منصوبے اور 96 کمپنیاں، 2006 میں 25 لاکھ قرضہ لینے کیلئے نیشنل بینک گئے، کاروباری ساکھ ایسی کہ سفارشوں کے باوجود قرضہ نہ ملا، آج 50 ارب قرضہ لیا ہوا، 90ارب قرض لے کر واپس کر چکے، یہ علیحدہ کہانی کہ قرض لیا خود، واپس اوروں نے کیوں کیا، 2002 میں پلّے نہ تھا دھیلا، آج صرف پاکستان میں اثاثے 110ارب کے، بیرون ملک جو وہ علیحدہ، کاروبار کس انوکھے طریقے سے ہو رہا، بظاہر شوگر ملیں نقصان میں لیکن capacityاگر 3 ہزار ٹن چینی کی، ایکسپورٹ ہو رہی 10ہزار ٹن، کیوں اسلئے کہ فی کلو چینی پر 26روپے سبسڈی مل رہی، جس میں سے ساڑھے 9 روپے وفاقی حکومت، باقی سندھ گورنمنٹ دے رہی، شوگر ملوں میں لگے پاور پلانٹس سے 2012-13ء تک 12 سے 14 روپے فی یونٹ بجلی بیچی جا رہی تھی، نیپرا بنی تو کہا گیا 8 روپے فی یونٹ بیچیں، یہ سندھ ہائیکورٹ چلے گئے، کیس ہار گئے، سپریم کورٹ جانے کے بجائے سندھ اسمبلی چلے گئے، قرارداد پاس ہوئی کہ 8 روپے فی یونٹ ہی بجلی بیچیں گے، باقی 5چھ روپے فی یونٹ عوامی فلاح کی خاطر سندھ حکومت سبسڈی دے گی، یہ عوامی فلاح، سبحان اللہ۔
کیا کیا بتایا جائے، اب تک 42 جعلی اکاؤنٹس سامنے آچکے، ان میں 47 ارب آئے اور گئے، بے نامی اکاؤنٹس 107، ان میں 54 جمع کروائے، نکلوائے گئے، کراچی کی بیوہ، لاڑکانہ، جھنگ کے طالبعلم، ریڑھی، رکشے والے، یہ جعلی اکاؤنٹس کہانیاں سب سن چکے، حلیم فروش، فالودے والے کے اکاؤنٹ سے اربوں نکلنے کے قصے بھی سب کو معلوم، پچھلے ماہ پتا چلا کہ 9 مئی 2014ء کو فوت ہو کر کراچی کے سخی حسن قبرستان میں دفن اقبال آرائیں نے مرنے کے بعد سندھ بینک سمیت 3 بینکوں میں 4 ارب 60 کروڑ کی ٹرانزیکشن کی، پوری دنیا میں یہ اعزاز سندھ کو کہ بندہ مر کر بھی بینکوں میں پیسے جمع کروا، نکلوا سکے، پاکستان کھپے...بلکہ مرُدوں کو ارب پتی کرتی ٹیکنالوجی کھپے، ابھی دو چار روز پہلے ٹنڈو محمد خان کے دھوبی طارق غوری کی کمپنی، "اسٹیل آئرن، نکل آئی، خود دھوبی، کمپنی لوہے کی اور دھوبی نے ایک کروڑ 40 لاکھ کا لوہا بھی خریدا، نوٹس ملا تو دھوبی چیخ اٹھا "میں 2 سو روزانہ کمانے والا، 25 ہزار قرض لے کر دکان بنائی، میرا بینک اکاؤنٹ نہ کمپنی" اس ننھے منے دھوبی کو کیا معلوم کہ چیف دھوبی اپنے گندے کپڑے دھو رہے، دو چار چھینٹے اس پر بھی آن پڑے۔
کیا کیا بتایا جائے، ایل این جی ٹرمینل کہانی بھی سن لیں، منصوبہ تھا 3 ارب کا، راتوں رات ہوا 13 ارب کا، پھر کراچی کے سیٹھ سے ٹرمینل معاہدہ کرتے ہوئے یہ سنہری شق بھی رکھ دی گئی کہ پیمنٹ ہوگی ڈالروں میں، مطلب معاہدہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی کمپنی کے مابین، مگر ادائیگی ڈالروں میں، ٹرمینل استعمال ہو یا نہ ہو مگر 15 سال تک 2 لاکھ 72 ہزار ڈالر روزانہ دینے اور پھر پوری دنیا میں ایسے منصوبوں پر شرح ریٹرن 18 سے 20 فیصد، اس معاہدے میں 44 فیصد، ابھی معاہدے کو 4 سال ہی ہوئے اور کراچی کا سیٹھ 35 ارب کما چکا، یعنی منصوبے پر لگی لاگت سے ڈبل ٹرپل کمائے جا چکے اور ابھی 11 سال باقی، آگے سنئے:یہ ٹرمینل استعمال ہو رہا تھا صرف 56 فیصد، مطلب یہ ٹرمینل بھی مکمل استعمال نہیں ہو رہا تھا، فیصلہ ہوا دوسرا ٹرمینل لگانے کا اور یہاں لاہوری لاڈلے کو نوازا گیا، یہ معاہدہ بھی ڈالروں میں، 2 لاکھ 40 ہزار ڈالر روزانہ، 22 فیصد منافع پر، اب جہاں حکومت کشکول لئے ایک ایک ڈالر مانگتی پھر رہی، وہاں ٹرمینلز استعمال ہوں یا نہ ہوں، حکومت کو روزانہ 5 لاکھ ڈالر دینا پڑ رہے، یہ بھی سن لیں کہ دوسرا ٹرمینل جسے دیا گیا وہ کئی مقدموں میں نیب کا ملزم، نیب سے پلی بارگین بھی کر چکا اور بینکوں کا نادہندہ بھی۔ کیا کیا بتایا جائے، نواز دور، چیئرمین ایف بی آر طارق باجوہ نے ایک سمری کابینہ کو بھجوائی کہ میرے مصدقہ ذرائع کے مطابق ہمارے 2 سو ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے، اسحاق ڈار نے یہ بات اسمبلی میں کر دی، ملک میں بھونچال آگیا، وفاقی کابینہ نے منظوری دی کہ جاؤ سوئس حکام سے بات کرو، اشفاق احمد خان کی سربراہی میں 3رکنی وفد بنا، یہ جنیوا پہنچا، مذاکرات ہوئے، سوئس حکام نے رضا مندی ظاہر کردی کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے کو تیار، مطلب تمام پاکستانیوں کے نام، بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات دیں گے، معاہدے کے بدلے سوئس حکام نے کہا کہ ہمیں موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دیدیں اور جو سوئس کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہیں انکے منافع پر 10 کے بجائے 5 فیصد ٹیکس لگا دیا جائے، تب سوئس کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری دو، ڈھائی ملین ڈالر تھی، مطلب ایک ڈیڑھ لاکھ ڈالر ٹیکس رعایت دینا تھی، بدلے میں سوئس حکومت نے ہمیں 2سو ارب ڈالر کی معلومات دینا تھیں، وفد خوشی خوشی واپس آیا، مگر حیرت انگیز طور پر طارق باجوہ نے نہ صرف ٹیکس رعایت کو بنیاد بنا کر فرمادیا کہ یہ معاہدہ منظور نہیں بلکہ چند دنوں بعد الٹا وفد کے تینوں اراکین کو شوکاز نوٹسز دیکر کھڈے لائن لگا دیا۔ آگے سنئے:نواز حکومت کے ایف بی آر چیئرمین طارق باجوہ جو آج گورنر اسٹیٹ بینک، اب اسد عمر سے کہہ چکے کہ "کوئی 2 سو ارب ڈالر نہیں پڑے ہوئے سوئٹزر لینڈ میں، بس اس وقت مجھ سے غلطی ہو گئی تھی، اندازہ لگائیں چیئرمین ایف بی آر ایک حکومت سے کہے کہ ہمارے 2 سو ارب ڈالر پڑے ہوئے سوئٹزر لینڈ میں، دوسری حکومت سے کہہ دے "غلطی ہو گئی، وہاں پیسے نہیں پڑے ہوئے" اور موصوف کل بھی مزے میں، آج بھی موجیں کر رہے، کیا قسمت پائی طارق باجوہ نے، پچھلی حکومت خوش، موجودہ حکومت خوش اور وہ کرپٹ مافیا جنہوں نے وہاں پیسے رکھے ہوئے وہ بھی خوش، ہے نا فلمی بلکہ ویری فلمی کہانی۔
کیا کیا بتایاجائے، ن لیگ کو آج بھی دکھ کہ گاڈ فادر، سسلین مافیا کیوں کہا گیا مگر "ڈیلی میل، نواز شریف کو "پینٹ ہاؤس بحری قذاق، کہہ چکا، کسی کو کوئی اعتراض نہیں، عمران خان الزام لگا دے تو شہباز شریف 10 ارب ہرجانے کا نوٹس بھجوا دیں مگر "وال اسٹریٹ جنرل، کمیشن، کک بیکس کا الزام لگا دے تو لمبی چپ، کیا کیا بتایا جائے، دبئی میں 2583 پاکستانیوں کی جائیدادوں کا ریکارڈ بتائے کہ علیمہ خان سے فریال تالپور تک سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے، فرق صرف اتنا عمران خان کی بہن کی جائیداد اپنے نام پر جبکہ فریال تالپور کی دبئی جائیدادیں گھریلو ملازمین کے ناموں پر، کیا کیا بتایا جائے، نواز شریف سے سوال ہو، آصف زرداری سے کچھ پوچھ لیا جائے، کسی کا کوئی طوطا پکڑا جائے، خطرے میں پڑ جائے جمہوریت، یعنی جمہوری چوغے پہن کر چوری کرو، ڈاکے مارو، دھوکے، فراڈ کرو، کوئی بات نہیں، کوئی پروا نہیں، سب جائز، بلکہ الٹا نیب کو ڈانٹو، اسٹیبلشمنٹ کو اِن ڈائریکٹ دھمکیاں دو، حکومت پر چڑھ دوڑو، کیا کیا بتایا جائے، قصہ مختصر اور ہزار باتوں کی ایک بات، ہمارا قومی کھیل موقع ملے تو جی بھر کے لُٹّو، کڑا وقت آئے تو ڈیل فرما کر پھٹو، آج پھر دو چار گھاگ کھلاڑی وہی کھیل کھیلنے کے چکر میں، مطلب لُٹنے والے پھر سے پھٹنے کے چکر میں، جاگدے رہنا۔