نبی ؐ نے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جیسا گمان کرو گے ‘اللہ کو ویسا پاؤگے ‘‘بلاشبہ ہی بھلائی اسی میں کہ ہم پاک پروردگار سے ہمیشہ اچھا گمان رکھیں۔
ایک بدو نے صحابی رسول ؐ سے پوچھا ’’مرنے کے بعد ہم کہاں جائیں گے ‘‘بتایا گیا ’’اللہ کے پاس‘‘ بدو خوشی سے جھوم کر بولا’’ آج تک جو کچھ ملا، اللہ سے ملا، جو خیر بھی پائی، اسی سے پائی، اس کے پاس جانا تو سعادت اور خوش نصیبی، میں تو اب ملاقات کیلئے ترس رہا‘‘، کسی بزرگ سے سوال کیا گیا ’’ کیا آپ کسی انسان کو جانتے ہیں جس کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی ‘‘ جواب ملا’’میں ایسے انسان کو تو نہیں جانتا، ہاں البتہ اس ذات کو ضرور پہچانتا ہوں جو دعائیں رد نہیں کرتی ‘‘، ابن عباسؓ سے کسی شخص نے سوال کیا’’ہم سے حساب کون لے گا‘‘ جب آپؓ نے کہا ’’ اللہ ‘‘تو وہ شخص مسکرا کر بولا’’ اس جیسا تورحیم اور کریم کوئی ہے ہی نہیں، ہم تو نجات پاگئے ‘‘، ایک بظاہر گناہ گار آدمی کا وقتِ آخر آیا تو اس کی ماں اس کے گناہوں اور اللہ کی پکڑ کو یاد کرکے رونے لگی ‘اس نے ماں سے کہاکہ’’ امی جان اگرمیرا حساب کتاب آپ کو کرنا ہو تو آپ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گی‘‘ماں روتے روتے بولی ’’ میں تو تیرے گناہ معاف کرکے تجھے جنت بھجوانے میں ایک منٹ بھی نہیں لگاؤں گی‘‘ یہ سن کر وہ بولا’’تو پھر امی خوش ہو جائیں کیونکہ میں جس کے پاس جارہا وہ آپ سے بھی زیادہ محبت کرنے والا’ مہربان اور شفیق ‘ و ہ یقیناً مجھے مایوس نہیں کرے گا‘‘۔
دوستو !ہاں رب تو دینے والا، مسلسل دینے والا بلکہ دے دے کر نہ تھکنے والا، وہ ہر لمحے، ہر گھڑی اور ہرپل عطا کر رہا، آپ ذرا سی دیر کیلئے اس کے باقی سب کرم وفضل اور اس کی ہر عطا کو ایک طرف رکھ کر صرف اس کی دی ہوئی نعمت صحت پر ہی نظر ڈال لیں ‘ یہ ایسی نعمت کہ اگر آپ سر کے بالوں سے پاؤں کی انگلیوں تک اپنے اجزا کی مارکیٹ میں قیمت لگوائیں تو پتا چلے کہ آپ تو ارب پتی ’ آگے سنئے‘کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ ہماری نیند موت کا ٹریلر اوراونگھ ‘نیند ‘ بے ہوشی اور موت یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ‘ ہم روزانہ جب گہری نیند میں جائیں تو ہمارے اور موت کے درمیان صرف ایک قدم کا فاصلہ رہ جائے، میڈیکل سائنس کنفرم کر چکی کہ ’’ جب ہم سو کر اُٹھیں تو مطلب موت کی دہلیز سے واپس آئیں ‘‘ یہ اللہ کا فضل ہی کہ ہم روزانہ موت کے منہ سے واپس زندگی کی طرف لوٹ آئیں۔
کیا کبھی آپ نے سوچا کہ ہم اُن ساڑھے 4 ہزار بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوئے جو ہر گھڑی اور ہر پل ہم پر حملہ آور، مگریہ اللہ تعالیٰ کا ہی قائم کردہ ’’قوت مدافعت‘‘ کا نظام جو ہر لمحے ان ساڑھے 4 ہزار بیماریوں کے جراثیموں کے حملے ناکام بنا کر انہیں روکے رکھے، ذرا دیکھئے دنیا کا پہلا بائی پاس تو مئی 1960 میں ہوا مگررب نے لاکھوں، کروڑوں سال پہلے ہی بائی پاس میں استعمال ہونے والی ’’نالی‘‘ ہماری پنڈلی میں رکھ دی، گردوں کی پیوند کاری تو1954 کو شروع ہوئی مگر اللہ نے پہلے دن سے ہی گردوں کے درمیان وہ خالی جگہ رکھ دی کہ جہاں تیسرا گردہ فٹ ہو سکے اور ایک وہ وقت تھا کہ ہماری پسلیوں کے آخر میں انتہائی چھوٹی چھوٹی اور باریک ہڈیاں فالتو سمجھی جاتی تھیں لیکن پھر ایسے بچے پیدا ہونے لگے کہ جن کے نرخرے جڑے ہوئے، جو عام بچوں کی طرح نہ بول سکتے، نہ کچھ نگل سکتے حتیٰ کہ گردن تک نہ ہلا پاتے، جب اس عجیب وغریب بیماری پر تحقیق ہوئی تو پتا یہ چلا کہ پسلیوں کی وہ باریک ہڈیاں جنہیں سب فضول سمجھ رہے تھے یہ ہڈیاں بچوں کے نرخوں جیسی اور یہی ان مریض بچوں کا علاج لہٰذا اب ڈاکٹر ان ہڈیوں کو کاٹ کر بچوں کے حلق میں فٹ کر رہے اور بچے دھڑا دھڑ صحت یاب ہو کر نارمل زندگی گزاررہے۔
کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ بازو، ہاتھ حتیٰ کہ ایک انگلی کٹنے پردوبارہ نہ اُگ سکے، مگر جگر کٹنے کے بعد بھی دوبارہ اُگ جائے کیوں۔ ۔ اس لئے کہ بازو، ہاتھ اور انگلی کٹنے کے باوجود انسان زندہ رہ سکے مگر جگر کام کرنا چھوڑ دے تو انسان آہستہ آہستہ موت کے منہ میں چلاجائے، اگر اللہ تعالیٰ جگر میں یہ flexibility نہ رکھتے کہ وہ دوبارہ نشوونما پاسکے تو نجانے کتنی مخلوق مرجاتی ’آگے سنئے ‘ہمارا منہ روزانہ ایسے جراثیم پیدا کرے جو ہمارے دل کیلئے نقصان دہ، لیکن اللہ نے ہمارے جسم میں ہی ایسا سسٹم فٹ کردیا کہ واک کرتے، دوڑتے یا ورزش اور کام کرتے ہوئے جب ہمار ا سانس پھولےاور جب پھولے سانس کے ساتھ ہم منہ کھول کر تیز تیز سانسیں لیں تو ان سانسوں کی زد میں آکر دل کو کمزور کرنے والے جراثیم خود بخود ہی مر جائیں ’آگے بڑھیے ‘ پلکوں کے وہ مسلز جو مسلسل پلکوں کو اُٹھاتے اور گراتے ہیں اگر یہ مسلز جواب دے جائیں تو انسان آنکھیں کھولنے سے بھی قاصر، اس وقت دنیا کے امیر افراد کی ایک بڑی تعداد اس مرض میں مبتلا، لہٰذا دنیا کے یہ سب کھاتے پیتے مریض اپنے پیسوں سے اس مرض کی تحقیق کروا رہے، سوچئے اگر میں یا آپ اس مرض میں مبتلا ہوتے یعنی اپنی مرضی سے نہ ہم پلکیں اُٹھا سکتے اور نہ پلکیں جھپکا سکتے تو زندگی کیسی ہوتی، لیکن اتنی بڑی نعمت پر ہم اللہ کے کتنے شکرگزار یہ بھی سوچ لیجئے گا’ آگے پڑھئے ‘ ہمارے کانوں میں کبوتر کے آنسو کے برابر پارے جیسا وہ لیکوڈ(مائع) جو ہمیں سیدھا چلنے میں مدد دے اگر یہ مائع ضائع ہو جائے تو نہ صرف ہم چلتے ہوئے چیزوں سے ٹکراتے پھریں اِدھر اُدھر گرتے رہیں بلکہ درست سمت کا تعین تک نہ کر پائیں، یہ بھی سنتے جایئے کہ مغرب میں آج کل ایک بیماری عام ہورہی جسم میں ایک خاص قسم کے جراثیم ہونے کی وجہ سے منہ سے مسلسل بدبو آنے لگے، چاہے جتنی مرتبہ ٹوتھ پیسٹ کر لیں، چاہے جتنی مسواک کر لیں اور چاہے گھریلو ٹوٹکوں سے لے کر جس قابل ڈاکٹر سے بھی چیک اپ کروا لیں منہ کی بدبو نہ جائے، اس وقت منہ کی یہ بدبو ختم کرنے کیلئے 5 مغربی ممالک نے اس مرض کی تحقیق کیلئے 5 ارب ڈالر رکھے ہیں جی ہاں صرف ایک بیماری کیلئے5 ارب ڈالر، ذراسوچئے اگر یہ بیماری ہمیں لگی ہوتی، ہمارا منہ بدبو اُگل رہا ہوتا تو۔ ۔ ۔ ، اگر ایسا نہیں ہے توسوچئے آپ پر اللہ کا کتنا بڑا کرم، یہ تو منہ کی بدبو آپ شوگر، کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کے مریضوں سے کبھی پوچھئے گا کہ ان کے شب وروز کیسے گزر رہے چلو یہ بھی بڑی بیماریاں، آپ دانت درد، آدھے سر کے درد اور مہروں کے لیفٹ رائٹ ہونے پر کمریں پکڑے خواتین وحضرات سے حال احوال پوچھ لیں آپ کو خود پر رحمان کے رحم اور کریم کے کرم کا احساس ہو جائے گا۔
دوستو! یہ جو ہم روز اُٹھ کر اپنی مرضی سے کہیں آجاسکیں، اپنے ہاتھ سے اپنی من پسند خوراک کھا کر ہضم کرلیں، یہ جو ہمارا دل، دماغ، گردے اور جگر سمیت جسم کا ہر عضو ٹھیک کام کررہا اوریہ جو ہماری دیکھنے، سننے، چھونے، سونگھنے اور چکھنے سمیت سب حسیں ٹھیک کام کر رہیں تویقین جانئے ہم ارب نہیں کھرب پتی، مگر یاد رہے یہ صرف صحت کی بات ہورہی، اللہ نے اس کے علاوہ ہمیں کیا کچھ دے رکھا، یہ مجھ سے بہتر آپ جانتے ہیں، لیکن صرف صحت جیسی افضل ترین نعمت کے ہوتے بھی اگر ہم شکر گزار نہیں اور صحت مند ہو کر بھی اگر اللہ سے اچھا گمان نہیں کر رہے تو یہ کسی بدنصیبی سے کم نہیں، یاد رہے کہ ہمارا اللہ تو وہ جو حشر (روزِقیامت) کی منظر کشی کرتے ہوئے بھی یہ فرمائے۔
ترجمہ:اور اس دن سب آوازیں دب جائیں گی رحمان کے سامنے، مطلب حشر کی گھڑیوں میں بھی رحیم، اور اللہ تو وہ جو ماں سے بھی زیادہ پیار کرے اور پھر اس اللہ کے بارے میں جب نبی ؐ یہ فرمادیں کہ ’’اللہ کے بارے میں جیسا گمان کرو گے، اسے ویسا پاؤ گے ‘‘ تو پھر یقیناً ہماری بھلائی اسی میں کہ ہم اپنے اللہ سے ہمیشہ اچھا گمان رکھیں۔