انہیں ہر کام میں جلدی تھی ،ان کو ربیع الاوّل پسند تھا اور ان کی سب سے بڑی خواہش شہادت تھی اور پھر وہ جلدی چلے گئے ،ربیع الاوّل میں گئے اور انہیں ملی بھی شہادت ہی !
جب گرمیوں کے ایک اتوار کی شام گھر کی گھنٹی بجنے پر میں نے دروازہ کھولا اور اپنے محلے کے ہر دلعزیز تبلیغی طارق بھائی کو سات آٹھ افراد کے ساتھ کھڑ ے دیکھا ، جب طارق بھائی سے ہاتھ ملاتے ہوئے میری نظر ان کے ساتھ آئے باریش افراد سے پھسلتی ہوئی سب سے پیچھے کھڑے سفید شلوار قمیض میں سر پر سفید ٹو پی پہنے جنید جمشید پر پڑی ، جب سب کو نظر انداز کرتے ہوئے میں نے جنید جمشید کی طرف بڑھتے ہو ئے کہا ’’جے جے بھائی آپ یہاں ‘‘ اور جب ہاتھ ملانے کی بجائے وہ آگے بڑھ کر مسکراتے ہوئے بغل گیر ہوئے تب یہ جپھی اُس رشتے میں ڈھلی کہ جو آگے چل کر سب رشتوں پر بھاری پڑا ، مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد کہ اس روز محلے کی مسجد میں عشا ء کی نماز پڑھانے اور گھنٹہ بھر بیان کے بعد جنید بھائی نے ایسی دعا کروائی تھی کہ اڑھائی تین سولوگوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا کہ جس کی آنکھیں نہ بھیگیں ۔
پھر پچھلے سال نومبر کی ابر آلود سہ پہر ، ہفتے میں 2تین بار فون کرنے والے جنید بھائی کی کال آئی ،علیک سلیک کے بعدبولے ’’کہاں ہو ‘‘ میں نے کہا’’جنید بھائی اپنے دفترمیں ‘‘کہنے لگے ’’کتنی بار کہا ہے کہ No جنید بھائی ،صرف جے جے بھائی ، خیر ایک ایڈریس میسج کر رہاہوں ، یہاں آجاؤ،مولانا طارق جمیل آئے ہوئے ہیں‘‘، عصر کے وقت جے جے بھائی کے بتائے ہوئے ایڈریس پر جب میں اسلام آباد کے پو ش سیکٹر میں ایک محل نما گھر کے وسیع وعریض ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو 20پچیس افراد کے گھیرے میں قالین پر بیٹھے مولانا طارق جمیل کا درس جاری تھا ، میں ایک طرف بیٹھ گیا اور ابھی مجھے بیٹھے 5منٹ بھی نہ ہوئے ہوں گے کہ اچانک جے جے بھائی کی نظر مجھ پر پڑی ، وہ اٹھے اور مسکراتے ہوئے آکر ایک گرم جوش Hug مار کر بولے ’’غائب نہ ہوجانا،بہت باتیں کرنی ہیں ‘‘،مغرب سے تھوڑی دیر پہلے مولانا طارق جمیل کے درس ختم ہونے اور حاضرین کے سوال وجواب کے بعد مولانا طارق جمیل کی امامت میں نماز پڑھ کر جب میزبان وہیں قالین پر سفید چادریں بچھا کر رات کا کھانا لگا رہے تھے تو اُسی دوران جے جے بھائی جب یہ بتا چکے کہ’’ گرین ٹی اورکافی مسلمانوں کی ایجاد ‘‘اورجب وہ باسی روٹی کھانے کی تلقین کرتے ہوئے یہ سنا چکے کہ ’’جس روٹی پر رات گذر جائے ، اللہ اس میں نور بھر دیتا ہے ‘‘ تب میں نے ایک بے تکا سا سوال کر دیا کہ ’’جے جے بھائی شوبز کی دنیا یاد نہیں آتی‘‘ ، میری پلیٹ میں مرغی کا سالن ڈال کر خود دال کھاتے جے جے بھائی نے پہلے حیرانگی سے میری طرف ایسے دیکھا کہ جیسے میں نے کوئی’’ آؤٹ آف سلیبس‘‘ سوال پوچھ لیا ہو،پھر وہ لقمہ منہ میں ڈال کر بولے ’’شوبز کی دنیا بالکل یاد آتی ہے مگریوں کہ اتنا قیمتی وقت وہاں کیوں ضائع کر دیا ‘‘ میں نے انکی بات کاٹی ’’لیکن وہ چکا چوند روشنیاں ، وہ آٹو گراف اور فون نمبر مانگتی لڑکیاں ‘‘، لقمہ چباتے جے جے بھائی نے منہ کے آگے ہاتھ رکھ کر ہنسنے کے بعد کہا ’’بھائی یہ سب تو ابھی بھی ہورہا ، گذشتہ رات ہی ایک بھلی مانس کا فون آیا ’’ کہنے لگی کہ آپ کی یاد راتوں کو سونے نہیں دیتی ‘‘میں نے کہا’’بی بی جب بھی میری یاد سونے نہ دے تو وضو کر کے نفل پڑھ لیا کرو اور ہو سکے تو تہجد بھی ‘‘اتنا کہہ کر زیرِ لب مسکراتے جے جے بھائی میری طرف جھکتے ہوئے شرارتی انداز میں بولے ’’میرا یہ جواب سن کر اس بھلی مانس نے انگریزی میں ایک بڑی سی گالی دے کر فون ہی بند کردیا‘‘ اس سے پہلے کہ میں اگلا سوال کرتا مولانا طارق جمیل کی آواز آئی ’’ جنید آج بہت ہنس رہے ہو ، کیا بات ہے ‘‘، جے جے بھائی نے ہنستے ہوئے ہی یہ کہہ کر کہ ’’ طار ق بھائی یہ باتیں بتانے والی نہیں ‘‘ پھر سے سر جھکا کر کھانا کھانے اور مجھ سے باتیں کرنا شروع کر دیں ۔
دوستو! کیا کیا بتاؤں اور کیا کیا سناؤں ،وہ جے جے بھائی جو فائٹر پائلٹ بننا چاہتے تھے نہ بن سکے ،جو ڈاکٹر بننا چاہتے تھے نہ بن سکے ، جو انجینئر بننا چاہتے تھے نہ بن سکے اور کبھی کبھار اپنے بھائی ہمایوں کا گٹار بجانے والے جنہیں گلوکاری پسند نہ تھی مگر وہ گلوکار بن گئے ، وہ جے جے بھائی جنہوں نے شوبز ’’بائی چانس ‘‘ نہیں ’’بائی چوائس ‘‘چھوڑااور ایسا چھوڑا کہ جب وہ شوبز کی تمام کمائی خیرات کر چکے اور جب وہ ملٹی نیشنل کمپنی کا 3کروڑ سالانہ کا کنڑیکٹ ٹھکرا چکے تب مالی حالت یہ تھی کہ انکے پاس بچوں کی فیس اور والدہ کے علاج کیلئے پیسے نہ تھے ، وہ جے جے بھائی سوشل میڈیا پر جن کی ایک خاتون کے ساتھ تصویر دیکھ کر جب میں نے ان کے موبائل پر ایک سخت میسج بھیجا تو چند لمحوں بعد ہی جواب آیا ’’اللہ سے معافی مانگ چکا ، بھائی سے معافی کاطلب گار ہوں ‘‘ ،وہ جے جے بھائی جن کے سامنے جب بھی میں کسی کے خلاف بات کرنے کی کوشش کرتا تو فوراً میرے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہتے ’’ یہ غیبت ہے اور غیبت گناہ کبیرہ‘‘، ایک مرتبہ تنگ آکر جب میں نے کہہ دیا ’’ شیطان کی برائی کر سکتا ہوں ‘‘ تو ہنس کر بولے’’ ہاں مگر اپنی برائیاں اس کے کھاتے میں نہ ڈالنا‘‘ ، وہ جے جے بھائی جو قبرستان میں گھنٹوں بیٹھ کر کہا کرتے ’’قبرستان والے میرے سچے دوست ، اسی لیئے میں یہاں ان سے دل کی باتیں کرنے آتا ہوں ‘‘، وہ جے جے بھائی جن کا تکیہ کلام تھا کہ ’’ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے اپنی آخرت کی فکر کر لو ‘‘جو ہر ایک سے درخواست کیا کرتے ’’ اپنی قوم کے اتحاد کیلئے کچھ کروکیونکہ اُمت کو آپس میں جوڑنا آج کی بڑی نیکی ‘‘ ، جوبار بار یہ دہرایا کرتے ’’ہمارے سیدھے کام بھی الٹے اس لیئے ہورہے کہ اللہ ہم سے ناراض، جب ہم اللہ کو راضی کرلیں گے توہمارا سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ‘‘ ، جن کی آنکھیں یہ بتاتے ہوئے بھیگ جاتیں کہ ’’ ایک اللہ ،ایک رسولؐ اور ایک قرآن کو مان کر بھی نجانے کیوں ہم ایک نہیں ہور ہے ‘‘ ، جو کہاکرتے کہ’’ مجھے پاکستان سے اتنی ہی محبت ، جتنی اپنے ماں باپ سے‘‘ اور جنہیں میں نے گالیاں اور دھکے کھا کر بھی دعائیں دیتے ہی دیکھا ، صاحبو ! اسی جے جے بھائی کے اچانک چلے جانے سے اب تک میں یہی سوچ رہا کہ جب 14 ہزار فٹ بلندی پر محو پرواز ان کا طیارہ پہلی بار ڈگمگایاہوگا ، جب مسلسل نیچے آتے طیارے کو سنبھالتے پائلٹ کی 11 کوششیں ناکام ہوگئیں ، جب 7ہزار فٹ نیچے آکرطیارے کے انجن نے آگ پکڑی اور جب لڑکھڑاتے اور ڈگمگاتے طیارے میں موجود چیختی چلاتی زندگیوں کی آخری ایک منٹ 25 سکینڈ کی الٹی گنتی شروع ہوئی،تب ان جان لیوا لمحوں میں سڑک کے کنارے زخمی بلی کو دیکھ کر روپڑنے اور کسی کو انجکشن لگتا نہ دیکھ سکنے والے نرم دل اورنرم مزاج جے جے بھائی پر کیا بیتی ہوگی ،انہوں نے آخری بار کیا سوچا ،کیا دیکھا اور کیا کہا ہوگا اورپھر روزانہ ٹی وی سکرینوں پر حکمرانوں کی روایتی آنیاں جانیاں اور گھسی پٹی بیان بازی دیکھ اور سن کر میرے ذہن میں یہ خیال بھی بار بار آرہا کہ جس ملک میں 3 سالوں میں 300 ریل حادثوں پر نہ وزیرِ ریلوے سے کوئی پوچھے اور نہ وہ خود ٹس سے مس ہوں اورجس دیس میں کسی حادثے او ر کسی سانحے کا کبھی کوئی نتیجہ نہ نکلا ، وہاں اس بار بھی بھلا کیا ہونا ، دوستو! جہاں ایک طرف یہ سب کچھ میرے دماغ میں چل رہا وہاں دوسری طرف جے جے بھائی کی جدائی کے غم میں ڈوبے دل کومیں مسلسل یہ کہہ کر حوصلے اور تسلیاں دے رہا کہ اے دل دُکھی نہ ہو کیونکہ انہیں خود ہی تو ہر کام میں جلدی تھی ، انہیں ربیع الاوّل ہی تو پسند تھا او ران کی سب سے بڑی خواہش ہی شہادت تھی اسی لیئے وہ جلدی چلے گئے ، وہ ربیع الاوّل میں گئے اور انہیں ملی بھی شہادت ہی ۔