اس زندگی کے بھی کیا کہنے، سفرشروع ہو تو ایک کارواں، لیکن جب موت چالیں چلنے لگے تو پھر دیکھتے ہی دیکھتے آخر کار سارا کارواں ہی وہاں جا پہنچے کہ جہاں سے واپسی ناممکن اور کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوکہ دن چڑھتے ہوئے جو محفلوں کی جان اور زمانہ جن کا معترف شام ڈھلنے سے پہلے وہ تن تنہا ہزاروں من مٹی تلے، یقین جانئے اب تو یہ سوچ کر ہی دل ڈوب ڈوب جائے کہ کیسے کیسے لوگ چلے گئے اور کیا کیا چہرے مٹی کھا چکی، جیسے یہ بھی کل ہی کی بات لگے کہ ڈیڑھ درجن زبانوں پر عبور رکھنے والے 50 سے زیادہ کتابوں کے مصنف اور ایم اے کے امتحان میں پورے ہندوستان کا ریکارڈ توڑنے والے تاریخ کے کھوجی وہ ڈاکٹر احمد حسن دانی جنہیں انگریزوں نے وانی سے دانی بنادیا اور جو شکل وصورت سے شنگھاؤ غاروں کے انسان ہی لگتے جب بولنا شروع کرتے تو پھر وہی بولتے، کوئی اور بول نہ پاتا بلکہ سب کی خواہش ہوتی کہ وہی بولیں، مجھے آج بھی یاد کہ ایک شام سرخ وسفید رنگت والے دانی صاحب اچانک اسٹارٹ ہوئے تو پھر 3 ساڑھے تین گھنٹے کی اس نشست میں ہم 8 دس لوگ بس ’’ہوں ہاں‘‘ کے علاوہ کچھ نہ کہہ پائے، اس شام جو کچھ کہا، دانی صاحب نے ہی کہا اور کوئی دوسرا کچھ کہتا بھی کیسے کہ جب ڈاکٹر دانی یہ بتا رہے کہ ’’پاکستانی آبادی کا 62 فیصد خون وسط ایشیاء سے، جبکہ 38 فیصد زمانہ قدیم کے مقامی لوگوں کا اور یہ پینٹ شرٹ، شلوار قمیض، کلے والی ٹوپی اور یہ پلاؤ کباب سب کچھ وسطِ ایشیائی ریاستوں سے یہا ں آیا، ہمارے ہاں جو فارسی رائج وہ بھی ایران سے نہیں بلکہ وسطِ ایشیاء سے ہم تک پہنچی، بہت کم لوگوں کے علم میں کہ وسطِ ایشیاء کی سرکاری زبان پہلے فارسی ہی ہواکرتی تھی، دونوں ہاتھو ںسے قہوے کاکپ پکڑے ڈاکٹر دانی کہہ رہے تھے کہ ’’افغانستان پہلے آزاد ریاست یا الگ ملک نہیں تھا، احمد شاہ ابدالی سے پہلے تو افغانستان کا کوئی وجود تک نہ تھا، بلکہ اس وقت تو کوئی لفظ افغانستان سے بھی واقف تک نہ تھا، تاریخ بتاتی ہے کہ انگریزوں کے آنے تک افغانستان ہندوستان کا حصہ اور یہ صوبہ کابل کہلاتا تھا، پھر اسی طرح آج کے روس کے زیادہ تر مکین 12 ویں صدی میں وہاں آباد ہوئے، یہ سب پہلے منگولیا میں رہتے تھے اور یہاں رہنے والے وہ قدیم لوگ جنہیں آریا کہاجائے وہ ازبکستان اور روس سے ہجرت کر کے وادی سندھ آگئے‘‘۔
ڈاکٹردانی بول رہے تھے اورہم دم سادھے سن رہے تھے ’’دنیا کی تین تہذیبیں کبھی بہت ترقی یافتہ تھیں، پہلی میسو پوٹومیا یعنی عراق، دوسری مصری تہذیب اور تیسری موہنجوداڑو، آج سے 5 ہزار سال پہلے یہ تینوں تہذیبیں اپنے عروج پر تھیں، آریا ئی بنیادی طور پر دیہاتی تھے، جبکہ موہنجوداڑو تہذیب کے لوگ شہری اورایسے تہذیب یافتہ کہ انہوں نے دنیا میں پہلی دفعہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت شہر آباد کیا اور شمالی افریقہ کی قدیم مصری تہذیب دریائے نیل کے کنارے یہیں آباد تھی کہ جہاں آج مصر ہے۔ ہمارے ہاں ایک تاثر یہ بھی کہ وادی کیلاش کا کیلاش قبیلہ یونانی، حالانکہ ان کا تعلق آریا ئی نسل سے اور آریائی لوگوں کی طرح یہ آج بھی سورج پرست، ایک وقت تھا کہ جب وادی سندھ سمیت موجودہ پاکستان کے اکثر علاقے یونانی تہذیب کے زیراثر تھے، یہاں 39 یونانی بادشاہوں اور ایک ملکہ نے حکومت بھی کی، یہی وجہ کہ جیسے یہاں آج انگریزی بولی جاتی ہے، 5 سوسال پہلے یہاں یونانی بولی جاتی تھی اورسکندرکے آنے تک یہاں کی سرکاری زبان یونانی ہی رہی، اس وقت کے یونانی حکمراں گرمیوں میں کابل کے پاس بلگرام قلعے میں قیام کیا کرتے جب کہ سردیوں میں یہ سب سیالکوٹ کے قلعے میں آجاتے۔ ڈاکٹر دانی نے یہ بتا کرتو حیران ہی کر دیا کہ جب تک حکومتی سرپرستی رہے گی ہمارے ہاں اردوز بان رہے گی ورنہ یہاں یہ وقت بھی آ سکتا ہے کہ پورے خطے میں اردو بولنے والا کوئی نہ ملے، لیکن پنجابی، بلوچی، سندھی اور پشتو زبانیں ختم نہیں ہو ں گی کیونکہ یہ عام آدمی کی زبانیں ہیں۔
اس شام ڈاکٹردانی نے مستقبل میں اردو زبان کے ختم ہونے کی وجوہات بتاتے ہوئے بات کچھ اس طرح سے سمجھائی کہ ایک وقت تھا جب یہاں سنسکرت بولی جاتی تھی، یہ آریائی قوم کی زبان تھی مگر چونکہ صرف پڑھے لکھے لوگ ہی سنسکرت بولتے تھے اور عام آدمی کی زبان پر اکرت تھی، لہٰذا آہستہ آہستہ سنسکرت ختم ہوتی گئی جبکہ گلی محلوں کی زبان پراکرت جو گو کہ بعد میں بگڑ کر پنجابی، سندھی اور پشتو میں ڈھل کر بالکل ہی تبدیل ہوگئی مگریہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود، جبکہ سنسکرت کا آج نام ونشان تک نہیں، اگر ہم بھی یونانی دورمیں ہوتے توہماری زبان بھی پراکرت ہی ہوتی کیونکہ ایک تویہ عام فہم اور دوسر ا یہ عام آدمی کی زبان، بقول ڈاکٹر دانی الفاظ سے پہلے علامتیں ہوا کرتی تھیں جنہیں رسم الخط کہا جائے، ہمارے ہاں رسم الخط شام سے آیا، گو کہ اس سے پہلے بھی دنیا میں اشکال کی صورت میں رسم الخط رائج ہو چکا تھا، مگر ہمارے ہاں وہ رسم الخط جو شام سے آیا اسے براہمی اورخروشتی کہا جائے اوران میں فرق بس اتنا سا کہ فروشتی میں دائیں سے بائیںکی طرف لکھا جاتا، جبکہ براہمی بائیں سے دائیں کی طرف، گو کہ یہاں بعد میں یونانی رسم الخط بھی رائج ہوا لیکن ہمارے زیادہ تر الفاظ شامی رسم الخط سے ہی ایجاد ہوئے۔
دوستو! مجھے اچھی طرح یاد کہ اُس رات ایک لمبی نشست کے بعد اپنے گھر کے دروازے پر الوداع کرتے ڈاکٹر دانی نے قہقہوں کے درمیان یہ بتا کر حیران ہی نہیں بلکہ پریشان بھی کر دیا کہ ’’میں نے جس حکمراںسے بھی ہاتھ ملایا وہ اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھا، 2 بار نواز شریف سے ہاتھ ملایا، دونوں باروہ چند دنوں میں ہی اقتدار گنوا بیٹھے، افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ سے ہاتھ ملا یا تو اس سے بھی اقتدار چھن گیا، ایران کے شہنشاہ سے ہاتھ ملایا توجلد ہی اسے بھی اقتدار چھوڑنا پڑا، تھائی لینڈکے حکمراں سے ایوارڈ وصول کرتے وقت ہاتھ ملایا تو وہ بھی رخصت ہوگیا اور بحیثیت جنوبی افریقہ کے صدر نیلسن منڈیلا سے ہاتھ ملایا تو چند ہفتوں بعد منڈیلا نے بھی حکومت چھوڑ دی‘‘۔ دانی صاحب کی بات مکمل ہوئی تو میں نے کہا ’’اپنے اس ہاتھ کی ایک فوٹوکاپی ہمیں بھی عنایت کردیں، کبھی ہمیں بھی اسکی ضرورت پڑ سکتی ہے‘‘، یہ سن کر دانی صاحب اتنے زور سے ہنسے کہ نہ صرف ان کا سویا ہوا موٹا کتا جاگا بلکہ اس نے ہمارے اردگرد گھوم گھوم کر یوں بھونکنا شروع کر دیا کہ پھر نہ دانی صاحب کوئی جواب دے پائے اور نہ ہم کچھ اور پوچھ پائے، لیکن دوستو ان دنوںمسلسل یہ سوچ رہا کہ کاش آج ڈاکٹر دانی زندہ ہوتے تو 2 چار حضرات جو جانے کا نام ہی نہیں لے رہے، ان کا ڈاکٹر دانی سے ’’سُٹ پنجہ‘‘ کروا دیتا یوں ملک و قوم مزید ’’ٹمپرنگ‘‘ سے بچ جاتی، جے آئی ٹی کا کام جلد سمٹ جاتا اور قطری کہانی کا بھرم بھی رہ جاتا۔