28 فروری 1948سے 11جون 2019 تک، غلام محمد سے حماد اظہر تک، 9 ہزار الفاظ والی پہلی بجٹ تقریر سے 48صفحات کی 71 ویں بجٹ تقریر تک، 10 کروڑ 11 لاکھ خسارے والے پہلے بجٹ سے 3151 ارب خسارے والے 71 ویں بجٹ تک، چند بجٹ نکال دیں، باقی سب جھوٹ، دو نمبری، اعداد و شمار کا گورکھ دھندا، سامنے کچھ، پیچھے کچھ، پہلے پھر بھی یہ محنت ہوتی کہ جھوٹ سچ لگے، اب تو یہ تکلف بھی نہیں کیا جاتا، خاص طور پر 1988 کے بعد جب میاں، بی بی کی باریاں لگیں، ملک نااہلوں، نکموں کے ہتھے چڑھا، قرضوں، کمیشنوں، کرپشن، لوٹ مار کا دور آیا تو بجٹ، بجٹ تقریریں جھوٹ کا پلندہ ہوئیں، وعدے، خواب، امیدیں سب کاغذوں میں، عملی طور پر مہنگائی، ٹیکسوں کی بھرمار، نتیجہ 2 فیصد طبقے کی موجیں ہی موجیں، 98 فیصد کی زندگیاں مشکل سے مشکل۔
باقی چھوڑیں، موجودہ بجٹ پر آجائیں، ہزاروں باتیں کی جا سکتی ہیں، بلکہ پُر مغز گفتگو کے دریا بہائے جا سکتے ہیں مگر فائدہ، جو کچھ بجٹ تقریر میں وہ کچھ اور، جو ہونا، وہ کچھ اور، وہ ملک جس پر 97 ارب ڈالر کا قرضہ ہو، جس کا ہر سرکاری ادارہ خسارے میں ہو، جہاں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بلند ترین سطح پر ہو، زرمبادلہ 10 ارب ڈالر تک سمٹ چکا ہو، جہاں پچھلے پانچ سال میں ایکسپورٹ میں اضافہ صفر ہو، جہاں منی لانڈرنگ، بجلی، گیس چوری، کرپشن، کمیشن 24 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچی ہوئی ہو، جہاں پاناما، دبئی لیکس بتائیں کہ ہر بڑے، بااختیار، صاحب حیثیت کا پیسہ باہر پڑا، جہاں کا تاجر ڈاکے مارے، ایکسپورٹر ٹیکس چوری کرے، جہاں کا نظام ایسا، 15 کروڑ عوام 42 قسم کے ان ڈائریکٹ ٹیکس دیں مگر اس ٹیکس کا 50 فیصد پہلی سطح پر، 25 فیصد دوسری سطح پر ہڑپ کر لیا جائے اور حکومت تک پہنچے صرف 10 فیصد، مطلب 100 روپے میں سے 10 روپے، جہاں ٹیکس چوری ایسی کہ 3 سو کمپنیاں ملک کے مجموعی ٹیکس کا 85 فیصد دے رہیں، جہاں 22 کروڑ آبادی والے ملک میں صرف 20 لاکھ ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والے، چلو 22 کروڑ میں سے غربت کی لکیر کے نیچے والے 12 کروڑ نکال دیں، باقی رہ گئے، 10 کروڑ، اس میں سے مزید 5کروڑ ٹیکس دینے کی استطاعت نہ رکھنے والے نکال دیں، باقی 5 کروڑ میں سے ایک کروڑ اور نکال دیں، پھر بھی جہاں 4کروڑ میں سے ٹیکس ریٹرن فائل کریں 20 لاکھ، ٹیکس دیں 12 سے 14 لاکھ، جہاں بجلی کے کمرشل کنکشن رکھنے والے 31 لاکھ تاجروں میں سے 90 فیصد ٹیکس سسٹم سے باہر ہوں، جہاں صنعتی کنکشن ہوں 3لاکھ 41ہزار مگر سیلز ٹیکس دینے والے ہوں صرف 40 ہزار، جہاں ایک لاکھ رجسٹرڈ کمپنیوں میں سے 50 فیصد کمپنیوں کے انکم ٹیکس گوشوارے ہی نہ ہوں، قصہ مختصر جہاں ایک فیصد لوگ پوری ریاست کا بوجھ اُٹھائے بیٹھے ہوں، وہاں گنجی نہائے گی کیا، نچوڑے گی کیا، وہاں کیا بجٹ، کیا بجٹ تقریریں۔
اندازہ کریں، اس سال 30 مئی تک، مطلب صرف 5 مہینوں میں 15 لاکھ 90 ہزار 731پ اکستانی عمرہ کرنے گئے جبکہ سالانہ ٹیکس دینے والے 12سے 14 لاکھ، پھر بھوکے ننگوں کے کیا بجٹ، کشکول والوں کی کیا منصوبہ بندیاں، فقیروں کی کیا معیشت، جو ملک آئی ایم ایف کی ہدایات پر چل رہا ہو، جہاں حتمی بات آئی ایم ایف کی ہو، جہاں ہر دورمیں رضا باقروں، حفیظ شیخوں کے پاس خزانے کی کنجیاں ہوں، جہاں اٹھارہویں ترمیم کی بر کت سے وفاقی حکومت سال کا آغاز 7سو ارب خسارے سے کرے، جہاں صوبے وسائل کا 53 فیصد لے رہے ہوں مگر ملکی قرضوں سے ان کا کوئی سروکار نہ ہو، جہاں صوبے وسائل میں حصہ دار مگر مسائل حل کرے مرکز، وہاں کیا بجٹ، کیا بجٹ تقریریں، یہ بھی سنتے جائیے، 70 سالوں میں جن 11 سو خاندانوں کی لاٹری نکلی، مطلب جنہوں نے پاکستان پر حکمرانیاں کیں، ان میں سے 90 فیصد کے بجٹ ہر خسارے سے پاک، ان کے کاروبار مسلسل ترقی کررہے، ان کی نسلیں پاکستان سے زیادہ امیر، خوشحال، ہے نا مزے کی بات، ملک چلانے والے امیر سے امیر تر، ملک غریب سے غریب تر، بلاشبہ کرپشن، کمیشن امریکہ، برطانیہ، یورپ میں بھی، قرضے ان ممالک پر بھی، بجٹ خسارے وہاں بھی، مگر ایسی لوٹ مار نہیں، نظام اتنا کرپٹ، یوں پانامے، اقامے، منی لانڈرنگ، جعلی اکاؤنٹس کہانیاں نہیں، وہاں جزا، سزا کا نظام ایسا جو پکڑا گیا وہ انجام تک پہنچا، جس پر الزام لگا اس نے فوراً عہدہ چھوڑ دیا، یہاں جزا، سزا نہ اخلاقیات، رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والوں کی بھی لیڈریاں قائم، ذرا اپنا نظام تو دیکھیں ایک سیدھے سادے کیس میں زرداری صاحب کو گرفتاری تک پہنچتے پہنچتے ساڑھے 4 سال لگ گئے، اگر سپریم کورٹ از خود نوٹس نہ لیتی تو عین ممکن 10 سال مزید گزر جاتے مگر بات زرداری صاحب تک نہ پہنچتی۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ذکر ہو رہا تھا بجٹ کا، ویسے تو آئے روز بجٹ بھگت بھگت کر اب آپ کو بجٹ کہانیوں کی حقیقت حال معلوم پڑھی چکی ہو گی لیکن بات سمجھانے کیلئے عرض ہے کہ ایک گھر، جس کے برتن تک گروی رکھے جاچکے ہوں، جس کے ہر مکین کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہو، جس کا خرچہ چلانے کیلئے روزانہ ادھار مانگے جاتے ہوں، جس کی چھتیں ٹپک رہیں، دیواریں گر رہیں مگر مرمت کیلئے ایک پیسہ نہ ہو، اس گھر کا کیا بجٹ ہو گا اور کیا بجٹ تقریریں، یہی حال پاکستان کا، مگر مایوسی نہیں، یہ سب کچھ بدل سکتا ہے، کیسے؟ ایسے، جزا، سزا کا نظام، امیر غریب کیلئے ایک ہو، قانون بڑے پیٹوں سے بھی مال نکلوانے کے قابل ہوجائے، کرپشن، کمیشن، منی لانڈرنگ، مالی، اخلاقی ہر قسم کی دونمبری ریلوں کے آگے بند باندھ لئے جائیں، ہر ایک ایمانداری سے ٹیکس دے، حکومتیں عوامی پیسہ ایمانداری سے خرچ کریں، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف سمیت ہر قسم کے کشکول سے جان چھوٹ جائے، کام مشکل مگر ناممکن نہیں، اگر یہ ہو جائے تو پھر بجٹ، بجٹ تقریریں سب کچھ بامعنی، ورنہ یہی ہوتا رہے گا کہ سال میں ایک بجٹ ظاہری، سو بجٹ خفیہ، اب تو یہ حال ہو چکا کہ جس دن منی بجٹ کی کوئی قسط نہ آئے، اُس روز سب ایک دوسرے سے پوچھتے پھریں، خیر تو ہے حکومت نے آج کا کام، کل پر کیسے چھوڑ دیا۔