کیا کہا جائے، ایسی لُٹ مار، نااہلیاں، نالائقیاں، یوٹرنز کہ لگے پاکستان یتیم کا مال، دعوے، وعدے بڑے بڑے، اقتدار ملے تو کوئی محمد شاہ رنگیلا تو کوئی بچہ سقہ، کوئی ہلاکو خان تو کوئی بحری قزاق، باہر باہر سے پارلیمنٹ کی سپریمسی، سویلین بالادستی، جمہوریت کی سربلندی کے نعرے، اندر اندر سے لٹو پھٹو، پھر لٹو اور پھٹو۔
کیا کہا جائے کل تک زرداری صاحب فرمایا کرتے "گاڈ فادر لندن سے مفاہمت کے پیغام بھیج رہا، مغل بادشاہ کو بتا دو مومن ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا، شریف فیملی کا "وی آئی پی، احتساب ہو رہا، فوری گرفتار کرکے ہمارے جیسا احتساب کیا جائے"، جب گاڈ فادر گرفتار ہوا تو پی پی کی مامتا جاگ گئی، پوری پارٹی بولی "یہ کیا، یہ سازش، یہ تو سیاسی انتقام" کل تک بلاول فرما رہے تھے کہ "چھوٹے میاں سوچ رہے کہ بڑے میاں نے گرفتار ہو کر سب گناہوں کا حساب چکتا کر دیا، نہیں! آپ کو اپنے گناہوں کا حساب دینا ہو گا، آپ کو اپنی کرپشن کا حساب دینا ہو گا، آپ کو حساب دینا ہو گا ملتان میٹرو کرپشن کا، آشیانہ ہاؤسنگ کرپشن کا، آپ کو حساب دینا ہو گا ماڈل ٹاؤن قتلوں کا، اورنج ٹرین کمیشن کا"، پھر شہباز شریف گرفتار ہوئے تو وہی بلاول بولے "اپوزیشن لیڈر گرفتارکر لیا، دنیا میں کیا تاثر جائے گا" اور خورشید شاہ کو تو جمہوریت، ملکی سالمیت ہی خطرے میں نظر آئی، کل کپتان کہا کرتے آئی ایم ایف سے قرضے نہیں لوں گا، عمران خان مر جائے گا، بھیک نہیں مانگے گا، یہ کیسے ممکن آپ کا وزیراعظم عمران خان ہو اور پیسے مانگتا پھرے، خود کشی کر لوں گا پیسے نہیں مانگوں گا، آج جو ہو رہا، وہ سب کے سامنے۔
کیا کہا جائے 28 ہزار ارب قرضوں، 13 سو ارب کے ادارہ جاتی خسارے اور 12 سو ارب کے سرکلر ڈیٹ والے ملک میں "بچہ سقوں، نے ایسے حکومتیں کیں کہ ایک تھا پیپلز ورکس پروگرام، یہ بند ہو گیا لیکن 6 سال سے 36 افسر گھر بیٹھے 35 لاکھ ماہانہ تنخواہیں لیتے رہے، کسی نے کوئی پروا ہی نہ کی، 2008 میں ثمر مبارک مند کی سربراہی میں "تھرکول گیس، منصوبہ شروع ہوا، پیسہ پانی کی طرح بہا کر ایک دن اچانک منصوبہ ختم کر دیا گیا، اب اربوں کی مشینری اور تنخواہوں کے منتظر چار سو ملازمین کا کوئی والی وارث نہیں، پی آئی اے، اسٹیل ملز، ریلوے، پوسٹ آفس کی تو روز ہی بات ہو، 1971 میں بھٹو صاحب نے غریبوں کیلئے یوٹیلٹی اسٹورز کا رپوریشن بنائی، 20 اسٹوروں سے شروع ہونے والا یہ ادارہ 5 ہزار 5 سو 76 اسٹورز تک پہنچا، 2013 میں اس کا سالانہ منافع تھا سوا ارب، لیکن آج یہ ساڑھے 13 ارب کے خسارے میں، حالت یہ کہ اسٹوروں کا بچا کچھا سامان بیچ کر تنخواہیں دی جا رہیں، اوپر سے اب رزاق داؤد انچارج وزیر، ماشاء اللہ ان کا اپنا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا، اربوں کی گیس، بجلی چوری اور منی لانڈرنگ چھوڑیں، لوٹ کھسوٹ ایسی کہ ایک چینی ٹھیکیدار نے چین میں 3 ارب کا منافع ظاہر کیا، چینی حکام نے پوچھا پیسہ کہاں سے لائے، ٹھیکیدار بولا "پاکستان کے ملتان میٹرو منصوبے میں ایک ٹھیکیدار سے ٹھیکہ ملا، ٹھیکہ 3 ارب 75 کروڑ کا، مجھے منافع ہوا 3 ارب" چینی حکام دنگ رہ گئے، 3 ارب 75 کروڑ کے ٹھیکے میں 3 ارب منافع، انہوں نے ہمیں خط لکھے، چیخے چلائے کہ بندہ پکڑا جو آپ کے 3 ارب چرا لایا، ہم نے پہلے توجہ ہی نہ دی، بات میڈیا تک پہنچی تو کہہ دیا ہمارا پیسہ ہی نہیں، چینی آج تک سوچ رہے کہ کتنی دریا دل اور سخی قوم۔
کیا کہا جائے غریبوں کی زندگیاں ایسی کہ دھوتی، بنیان ہی رہ گئی، لوگ دفتروں، تھانے، کچہریوں میں رُل رُل مر رہے، قدم قدم پر بے عزتیاں، رسوائیاں ہو رہیں، عزتیں لٹ رہیں، جبکہ بڑوں کی جیلیں بھی ایسی کہ شہد، زیتون تک میسر، جیل میں پارٹی اجلاس ہوں، گھر کے کھانے، صبح وشام کی واکیں الگ، غریب پر بھینس چوری کا جعلی مقدمہ بن جائے، جان چھڑانا مشکل، امیروں کے گھر سے کروڑوں نکلیں، فالودے والے کے اکاؤنٹ سے اربوں نکل آئیں، ایون فیلڈ فلیٹوں کی رسیدیں ہی نہ ہوں، سرے محل کی ملکیت سے مکر کر پھر 40 لاکھ پونڈ کا بیچ دیا جائے، ترک وزیراعظم کی بیگم کا سیلاب زدگان کیلئے دیا گیا ہار شور پڑنے پر 3 سالوں بعد لوٹا دیا جائے، سرکاری ہیلی کاپٹروں پر آلو گوشت اور نہاریاں آتی جاتی رہیں اور وہ ملک جہاں آبی مارشل لاء لگنے والا، وہاں بڑوں کی کمپنیاں ماہانہ اربوں کا پانی زیر زمین سے مفت نکال لیں، کوئی پروا نہیں، ٹھنڈ پروگرام۔
کیا کہا جائے غریب کے بچے کو کلرکی بھی نہ ملے، امیروں کا ہر زرداری مقدر کا سکندر، سارے شریف قسمتوں کے دھنی، بڑوں کو چھوڑیں، 5 جون 2013 میں نواز شریف وزیراعظم بنتے ہیں، 16 جولائی 2013 کو مشاہد اللہ کے بھائیوں کی پروموشن ہو اور کہا گیا پروموشن تصور کی جائے 2007 سے، پی آئی اے کے خرچے پر مشاہد اللہ کا 1 کروڑ کا علاج کروانا تو اب سامنے آیا، نواز شریف کے پہلے دور میں مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی ضیاء الرحمٰن "کے پی کے صوبائی سروس" میں افسر لگیں، پی ٹی سی ایل میں آئیں، ڈپٹی کمشنری خوشاب بھگتائیں اور پانامہ کے دنوں میں کمشنر افغان مہاجرین ہو جائیں۔
کیا کہا جائے آشیانہ اسکینڈل کو لے لیں، دوست رؤف کلاسرا ثبوتوں بھری کہانی سنائیں کہ منصوبہ جان بوجھ کر فلاپ کیا گیا، مقصد پیراگون سوسائٹی کو کامیاب کرانا، ایک طرف شہباز شریف، چوہدری نثار جنرل کیانی سے راتوں کو ملاقاتیں فرما رہے تھے، دوسری طرف جنرل کیانی کے بھائی کامران کیانی آشیانہ پروجیکٹ میں bidding کر رہے تھے، جب پیپرا قوانین کے تحت سب سے کم بولی دینے والی کمپنی "لطیف اینڈ سنز، کو ٹھیکہ ملا اور خبر خادم اعلیٰ تک پہنچی، چونکہ ٹھیکہ کہیں اور دینے کا وعدہ ہو چکا تھا، لہٰذا شہباز شریف کی دبنگ انٹری ہوئی، ٹھیکے کے خلاف تاریخ گزرنے کے بعد اعتراض فائل ہوا، فوراً انکوائری کمیٹی بنا دی گئی، لیکن جب طارق باجوہ نے رپورٹ دی کہ "ٹھیکہ لطیف اینڈ سنز کو ہی ملنا چاہیے تھا، سب پراسیس ٹھیک تو پھر راولپنڈی میں 4 ارب کے پلازے والے بابو بھولے بھالے فواد حسن فواد کی انٹری ہوئی، آشیانہ پروجیکٹ کے سی ای او اور ڈائریکٹر کو اپنے دفتر بلا کر بولے "تم دونوں نے "لطیف اینڈ سنز، کمپنی سے پیسے لئے، یہ ٹھیکہ ملی بھگت کا نتیجہ، تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑوں گا، اس سے پہلے کیس اینٹی کرپشن کو بھیجوں، ٹھیکہ کینسل کرو، مرتے کیا نہ کرتے، طاہر خورشید، معظم علی "لطیف اینڈ سنز، کمپنی والوں کے پاؤں پڑے، ٹھیکہ کینسل ہوا اور باقی کامران کیانی کی فواد کے پلازے میں سرمایہ کاری، 3 کروڑ فواد کے بھائی وقار حسن کے اکاؤنٹ میں آنا اور 2 کروڑ فواد کی بھابی انجم حسن کے اکاؤنٹ میں جمع ہونا، یہ ایک علیحدہ کہانی۔
کیا کہا جائے 50 روزہ حکومت ایسی کہ صبح فیصلہ ہو اور شام کو واپس، معیشت سنبھل نہیں رہی، زبانوں، بیانوں پر کنڑول نہیں، کیا کہا جائے اوپر حالت یہ کہ خواب ہیں، تعبیر نہیں، قول ہے، فعل نہیں، کھوپڑیاں ہیں، مغز نہیں، حرکت ہے برکت نہیں اور نیچے جہالت ایسی کہ بلھے شاہ بھی ہیرو اور احمد شاہ ابدالی بھی، حالانکہ بلھے شاہ، ابدالی کو ڈاکو سمجھتا تھا اور اورنگزیب عالمگیر کے بھی گن گائے جائیں اور اس کے حکم پر قتل ہوئے صوفی سرمد کو بھی شہید مانا جائے، کیا کہا جائے، اللہ ملک کی خیر کرے۔