Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Kya Tareekh Aisay Hi Raqam Hoti Hai

Kya Tareekh Aisay Hi Raqam Hoti Hai

نکلتے ہوئے فوٹو سیشنز، پورے رستے کی لائیو کوریج، وہ پہنچے، وہ گاڑی سے اترے، اُنہوں نے ہاتھ ہلایا، وہ اندر داخل ہوئے، وہ باہرآئے، اُنہوں نے خطاب فرمایااور۔ وہ روانہ ہوگئے، یہ دکھا کر اب رٹایا یہ جارہا کہ تاریخ رقم ہوچکی !

تاریخ کیسے رقم ہوتی ہے، سننا چاہتے ہیں تو سنیں، 16 سال تک جنوبی کوریا کے صدر رہنے والے جنرل پارک چنگ کی بیٹی، انتہائی مقبول سیاسی رہنما اور ملک کی پہلی خاتون صدر پارک گن پر دوست کو سیاسی فائدے پہنچانے اور کرپشن میں مدد دینے کا الزام لگا، اپوزیشن اور میڈیا نے معاملہ عوام تک پہنچایا، لوگ سٹرکوں پر آئے اورایسے آئے کہ جنوبی کوریا میں 1980ء کی جمہوریت بحالی تحریک کے بعد یہ سب سے بڑے مظاہرے ثابت ہوئے، عوامی دباؤ بڑھا، تحقیقات شروع ہوئیں، 31 اکتوبر 2016ء کو صدر پارک گن کی 60 سالہ دوست چوئی سون سل گرفتار ہوئیں، کورین پارلیمنٹ نے صدر کے مواخذے کی تحریک منظور کی، معاملہ سپریم کورٹ میں آیا، 10 مارچ 2017ء کو سپریم کورٹ نے صدرکو برطرف کیا، 31 مارچ کی صبح سابق صدر بھی گرفتار ہوئیں، سیول کے حراستی مرکز میں 14 گھنٹے تک پوچھ گچھ ہوئی، عام قیدیوں کا لباس پہناکر، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگا کر اور بازو رسیوں سے باندھ کر تصویریں کھینچیں، تصویریںمیڈیا کودی گئیں اور انہیں جیل بھجوا دیا گیا، تاریخ رقم ہوتے دیکھئے کہ ان تک سابق صدر اور ان کی دوست خود پر لگے الزامات سے انکاری اور ابھی تک بہت کچھ ثابت کرنا باقی مگر یہ سب کچھ ہو چکا اوروہ بھی صرف 6 ماہ میں، لیکن وہاں تاریخ رقم تو ہونی ہی تھی کہ جہاں صدارت سے ہٹنے کے بعد ہر صدر کی تحقیقات قانون کا حصہ، جہاں ابھی چند سال پہلے 2003ء سے 2008ء تک صدر رہنے والے روموہیون پر ایک تاجرسے 6 ملین ڈالر رشوت کا الزام لگا تو اس نے خود کشی کر لی اورجہاں 15 سال تک صدر رہنے والے کم ڈائے ینگ کے دوبیٹوں پر رشوت خوری کا الزام لگنے پر انہیں گرفتار کر لیا گیا، یہاں ذرا جنوبی کوریا کی ان دو سہیلیوں کی دوستی کا بیک گراؤنڈ بھی سن لیں تا کہ پوری کہانی سمجھ آجائے، 1998ء سے 2012ء تک گرینڈ نیشنل اسمبلی کی ممبر، ملک کی بڑی سیاسی پارٹی کی سربراہ اور 25 فروری 2013ء کو جنوبی کوریا کی صدربننے والی 65 سالہ پارک گن اور پراپرٹی بزنس کا ایک بڑانام چوئی سون سل کالج دور کی دوست، دونوں نے 1977ء میں نیشنل کالج میں اکٹھے پڑھا لیکن کالج کے بعد اپنے کاروبار میں لگی چوئی اور سیاسی سرگرمیوں میں الجھی پارک دوبارہ تب قریب آئیں جب 2006ء کی ایک شام بحیثیت اپوزیشن لیڈر پارٹی امیدوار کی الیکشن مہم پر آئی پارک گن پر ایک عادی مجرم نے بلیڈ سے حملہ کیا، چہرے کے دائیں طرف آئے زخم کی دوگھنٹے کی سرجری اور 60 ٹانکے لگنے کے بعد جب انہیں وارڈ میں شفٹ کیا گیا تو اگلی صبح چوئی سون سل ان کی عیادت کیلئے آئی اور یوں نہ صرف دونوں پرانی سہیلیاں پھر سے ملیں، بعد میں بھی مسلسل رابطے میں رہیں، قریب سے قریب تر ہوئیں بلکہ چند سالوں بعد جب پارک صدر بنیں تو چوئی سون سل ایسی بااختیار دکھائی دی کہ جیسے اصل صدر وہ، خیر کہانی میں Twistتب آیا جب صدر پارک گن نے گزشتہ سال جولائی میں جنوبی کوریا کی 17 بڑی کمپنیوں کے سربراہوں کو ظہرانے پر بلا کر انہیں ایک غیر منافع بخش فنڈ قائم کرنے کیلئے پیسے دینے پر راضی کیا لیکن جونہی کمپنیوں نے پیسے دیئے تو صدر کی دوست نے نہ صرف یہ پیسے اپنی ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کر لئے بلکہ ان کمپنیوں سے عطیات کی صورت میں اور بھی بھاری رقمیں لیں۔ مگر جیسا کہ پہلے بتاچکا کہ ابھی جنوبی کوریا کی سابق صدر خودپرلگے الزامات سے انکاری اور ابھی تفتیش بھی جاری لیکن ایوانِ صدر سے جیل جانے تک کسی لمحے بھی کوریا کی سابق صدر نے یہ شعلہ بیانی نہیں کی کہ ’’سنو میں تو اتنی اہم کہ مجھ پر الزام لگانے یا مقدمہ چلانے کا مطلب آئین، جمہوریت اور ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا، سنو مخصوص ایجنڈے کی فیکٹریاں بندکروورنہ میں سب کو سب کچھ بتادوں گی ‘‘ نہیں ہرگز نہیں بس سرجھکا ئے مسلسل روتی پارک گن نے تو یہ کہا کہ ’’ یہ سوچ سوچ کر میری نیندیں حرام ہو چکیں کہ چاہے اب میں جوبھی کرلوں دوبارہ عوام کا اعتماد حاصل نہیں کر پاؤں گی، مجھے بہت شرم آرہی ہے ‘‘۔

یہاں تاریخ پرتاریخ رقم کرتے اپنے سب سے بڑے اتحادی چین پر بھی ایک نظر مارلیں، چین میں ایک عرصے تک چوری کی سزا موت اور چور کے سر پر گولی مار کر لاش تب تک ورثا کے حوالے نہ کی جاتی کہ جب تک ورثاچوری کا مال واپس اور گولی کامعاوضہ نہ دیدیتے۔

خیراصل بات جو سنانی وہ یہ کہ یہ بات تب کی جب لیاقت علی خان وزیراعظم اور ایوب خان کمانڈر انچیف، واہ آرڈیننس کمپلیکس نئی نئی تعمیرہوئی، ایک چینی وفد دورے پر آیا اور معائنے کے دوران جب عمارت تین چار جگہوں سے ٹپکتی ملی توپاکستانی میزبان نے شرمندہ سا ہو کر یہ کہا کہ ’’ دراصل عمارت ابھی نئی بنی، اس لئے ٹپک رہی ‘‘یہ سن کر چینی وفد کا سربراہ ہنس کربولا’’ شروع شروع میں ہماری عمارتیں بھی ٹپکا کرتی تھیں لیکن جب سے ہم نے ایک ٹھیکیدار کو گولی ماری تب سے عمارت نئی ہو یا پرانی، کبھی نہیں ٹپکی‘‘ چلویہ تو سپر پاور چین تھا، تاریخ تو مالٹا کے وزیراعظم نے رقم کی کہ جس نے پانا مالیکس میں اہلیہ کانام آنے پر اقتدار چھوڑ کر قبل ازوقت انتخابات کروادیئے، تاریخ تو آئس لینڈ کے وزیراعظم نے رقم کی کہ جس کی آف شور کمپنی نکلنے پر عوام جب سڑکوں پر آئے تواس نے اقتدار سے علیحدہ ہو کر خود کوتفتیش کیلئے پیش کردیا، تاریخ تو آسٹریلیا نے رقم کی کہ دوست کو نوازنے پر اپنے وزیر معدنیات کو جیل بھجوادیا، تاریخ تو فرانس نے رقم کی کہ ٹیکس فراڈ پر اپنے وزیر بجٹ کو 3 سال اور اسکی بیگم کو 2 سال کیلئے اندر کر دیا اور تاریخ تو ا سپین نے رقم کی کہ ایک کرپشن ا سکینڈل میں گواہی کیلئے آنے والے وزیراعظم سے کہا گیا کہ ’’ وزیراعظم بن کر نہیں ایک عام آدمی کی طرح عدالت میں آنا ‘‘۔

اور پھر کیا تاریخ ایسے رقم ہوتی ہے کہ حسین نواز کی تصویر لیک ہونے پر شور ہی شور جبکہ وزیراعظم ہاؤس سے گفتگو لیک ہونے پر چپ ہی چپ، سانحہ ماڈل ٹاؤن پر اپنے حق میں آئی پولیس جے آئی ٹی کی رپورٹ لیک کروا دی جائے جبکہ ماڈل ٹاؤن پر ہی اپنے خلاف آئی جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ دبا دی جائے اور ڈاکٹر عاصم کی جے آئی ٹی کی ریکارڈنگ ٹی وی پر چلوا دی جائے جبکہ پاناما پر جے آئی ٹی کی ریکارڈنگ جمہوریت کیلئے ہی خطرہ بنادی جائے، کیا تاریخ ایسے رقم ہوتی ہے کہ باہر سے آئے میمو گیٹ پرتو آرٹیکل 6 لگوانے کی کوشش کی جائے جبکہ باہر سے ہی آئے پاناما لیکس کو جھوٹ کا پلندہ کہہ کر جھٹلا دیا جائے اور منی لانڈرنگ سوئٹرزلینڈ میںہو تو ’’پیٹ چیر کر‘‘ نکالنے کے دعوے کئےجائیں جبکہ منی لانڈرنگ قطر، جدہ، لندن یا پانامامیں ہو توپھر سب کچھ ہی قانونی ہوجائے، کیاتاریخ ایسے رقم ہوتی ہے کہ ایک طرف پرامن احتجاج کرتے علامہ اقبال کے پوتے کو سٹرکوں پر گھسیٹ کر بنا پرچے کے تھانے میں بند، جبکہ دوسری طرف انتظار اور پوچھے گئے اوکھے سوال بھی ناپسند، کیا تاریخ ایسے رقم ہوتی ہے کہ صاحب بہادر کی تشریف آوری کیلئے ایک رات پہلے سے ہی رستے سیل، چھتوں پر سنائپر، کیمروں سے مانیٹرنگ اورپانچ سات کلومیٹر کا سفر بھی پولیس، ایف سی اور رینجرز کے 25 سو اہلکار وںکی حفاظت میں، حضورِ والاکبھی وقت نکال کر ایک آدھ دن کیلئے عوام میں گھلیں ملیں تو پتا چلے کہ یہاں ہر روز 22 کروڑ کیسے تاریخیں رقم کر رہے، مجھے تو پچھلی گرمیوں کی وہ دوپہر ہی نہ بھولے کہ جب وفاقی دارالحکومت کی ایف ایٹ کچہری میں حبس و گھٹن زدہ قیدیوں کی وین سے جانوروں کی طرح ٹھسے قید ی نکلے تو نجانے کب سے دیوار کے سائے میں بیٹھی ایک بوڑھی اماں پانی کی بوتل لے کر 3 بار اپنے قیدی بیٹے کی طرف بڑھی اور تینوں بار ہی شیر جوانوں کے دھکے کھا کر پیچھے جا گری۔

آخرکار یہ منظر دیکھتے لوگوں کی منت سماجت کے بعد پولیس مانی تو جس طرح زاروقطار روتے اس بوڑھی ماں نے بیٹے سے لپٹ لپٹ کر اور منہ چوم چوم کر اسے اپنے ہاتھوں سے پانی پلایا وہ نہ لکھا اور نہ بیان کیا جا سکے، کیا کیا سناؤں اور کیا کیا بتاؤں، حیرت تو یہ ہو رہی کہ بات توصرف اتنی سی کہ ایک شخص اپنے اور بچوں کی خاطر جے آئی ٹی میں پیش ہونے آیا لیکن نکلتے ہوئے فوٹو سیشنز، پورے رستے کی لائیو کوریج، وہ پہنچے، وہ گاڑی سے اترے، اُنہوں نے ہاتھ ہلایا، وہ اندر گئے، وہ باہرآئے، اُنہوں نے خطاب فرمایااور وہ روانہ ہوگئے، یہ دکھا کر اب رٹایا یہ جارہاکہ تاریخ رقم ہوچکی، کیا تاریخ ایسے ہی رقم ہوتی ہے؟