ٹاٹا بائی بائی کرتے اچانک مجھے یاد آگیا، اس سے پہلے میرا واک فیلو اپنی گاڑی کی طرف بڑھتا، میں نے کہا’’باس۔ ۔ کیا خیال ہے آج ماسٹر اللہ دتہ کی اگلی قسط نہ ہو جائے ‘‘ 85 سالہ نوجوان مسکرایا، مجھ سے وقت پوچھا، لمحہ بھر کیلئے سوچا اورپارک میں واک کرتے لوگوں پر اک نظر ڈال کر بولا ’’اوکے۔ ۔ ٹھیک ہے، کیا یاد کرو گے ‘‘ہم واپس مڑے، لوگوں سے بچتے بچاتے مارگلہ پہاڑیوں سے جڑے پارک کے کونے میں بنچ پر جابیٹھے، تازہ پینٹ شدہ بنچ پر بڑی احتیاط سے بیٹھ کر آہستگی سے ٹیک لگاچکے اپنے وقتوں کے اس کنگ میکر نے چند لمحے سانسیں درست کرنے کے بعد بولنا شروع کر دیا۔
مجھے ا چھی طرح یاد کہ اقبال کے پیروکار اور شہر شہر، گاؤںگاؤں اگلی نسل کی تربیت کرتے ماسٹر اللہ دتہ پانچویں روز دوپہر کے بعد کلاس روم میں آئے، سلام دعا اور حال احوال کے بعد بولے ’’ اگر زندگی میں آگے بڑھنا اورکچھ بننا ہے تو 40 سال کی عمر سے پہلے کچھ چیزیں کرنا بہت ضروری، جیسے 40 سال سے پہلے اپنی battlefield ڈیفائن کر لیں، مطلب اپنے شعبے یا پروفیشن کے حوالے سے رتی بھر کنفیوژن نہ ہو، 40 سال سے پہلے اپنے دماغ سے سوچنا اور اس پر عمل شروع ہو چکا ہو، یعنی اپنے فیصلے خود کرنا، اچھے بُرے کے ذمہ دار خود، 40 سال سے پہلے ’’نالج آف ٹریڈ‘‘ آچکا ہو مطلب جس شعبے میں ہوں، اس پر دسترس ہو، 40 سال سے پہلے ذاتی اصول، ضابطے well define ہو چکے ہوں، زندگی میں کیا اہم اور کیا غیر اہم، یہ طے ہو چکا ہو، 40 سال سے پہلے emotionally بیلنس ہونا must، ہر نارمل انسان 27 ایموشنز کا مالک، ان میں غصہ اور محبت سرِ فہرست، 40 سال سے پہلے خاص طور پر اپنے غصے اور اپنی محبت پرمکمل کنٹرول ہو، 40 سال سے پہلے اپنی خوبیوں اور خامیوں کا مکمل پتا چل چکا ہو، 40 سال سے پہلے یہ ہنر آچکا ہو کہ کب بولنا اور کہا ں خاموش رہنا، 40 سا ل پہلے معلوم ہو چکا ہوکہ فرد یا معاشرے کو نہیں اللہ کو راضی اور اپنے ضمیر کو مطمئن رکھنا، زمانے کو کبھی خوش نہیں کر سکو گے، چاہے جو بھی کرلو، زمانہ تو خوش نہیں ہوگا البتہ خود ڈی ٹریک ہو جاؤ گے اور 40 سال کی عمر سے پہلے یہ پتاچل جانا چاہیے کہ جتنا بڑا کام، اتنی زیادہ مخالفت اور رکاوٹیں، لہٰذاکبھی گھبرانا اورکہیں رُکنا نہیں ‘‘۔
ماسٹر اللہ دتہ بات کرتے کرتے رُکے، چند لمحوں کیلئے گہری نظروں سے پوری کلاس کا جائزہ لیا، پھر بولے ’’ وہ سب ہاتھ کھڑے کریں جو خوش رہنا چاہتے ہیں، ، سب نے ہاتھ کھڑے کر دیئے، یہ دیکھ کر زیرِ لب مسکراتے ماسٹر صاحب نے کہا ’’ یہ ذہنوں میں رہے کہ خوشی او رغم کے combination کانام زندگی، یہ ذہنوں میں رہے کہ خوشی ذہنی حالت اور سکون دلی کیفیت کا نام، یہ ذہنوں میں رہے مال ودولت سے خوشیاں خریدنا ناممکن، عہدوں سے خوشیاں ملنا مشکل، بلاشبہ روپیہ پیسہ اور عہدے اہم، لیکن یہ سب، سب کچھ نہیں، بہت سارے لوگ بڑی بڑی achievements اور مالدار ہو کر بھی ناخوش، یہ ذہنوں میں رہے کہ ’’اللہ کی مرضی اور تمہاری مرضی میں فرق کا نام غم، یہ فرق مٹے گا تو خوشیاں ہی خوشیاں، مطلب جس دن اللہ کی رضا پر تم راضی، غم ختم، یہ ذہنوں میں رہے کہ خوش رہنا ہے تو اُمید کو مرنے نہیں دینا، چاہے جتنی ویرانی، بیابانی اور خشک سالی ہو، اُمید کا درخت ہرا بھرا رہنا چاہیے، یہ ذہنوں میں رہے زندگی میں جیساہے ویسا قبول کرنا سیکھ جاؤ گے تو خوش رہو گے، اگر کچھ بدل نہ سکو تو جلنے کڑھنے کی بجائے اپنی ایڈجسٹمنٹ کر لو، یہ ذہنوں میں رہے جو مل چکا مزید حاصل کرتے وقت وہ نظروں میں رہے گا تو خوش رہو گے، اگر نظر صرف اسی پر ہو گی جو نہیںتو خوش نہیں رہ پاؤ گے، یہ ذہنوں میں رہے کہ خواہشیں جتنی کم، زندگی میں اتنی زیادہ خوشیاں، یہ ذہنوں میں رہے بانٹنے اور شیئر کرنے سے خوشی بڑھے، جمع اور صرف جمع کرنے والا خوش نہیں رہ سکتا اور یہ ذہنوں میں رہے کہ خوش رہنا ہے تو آخرت انوسٹمنٹ بینک میں اکاؤنٹ کھلا ہونا چاہئے‘‘۔
ماسٹر صاحب نے کھڑے کھڑے ٹیبل پر رکھے جگ سے پانی گلاس میں ڈالا، کرسی پر بیٹھے، پانی پیا، گلاس واپس میز پر رکھا اوربات دوبارہ شروع کر دی، زندگی میں کم سے کم خوف پالیں، بے خوف رہیں، یاکم ازکم نڈر رہنے کی اداکاری ضرور کریں، صرف 3 خوف پیدائشی، پہلا بلندی سے گرنے کا خوف، آپ چند دنوں یا چند ماہ کے بچے کو بھی اوپر اچھالیں یا اچانک بلندی سے نیچے گرانے کی اداکاری کریں تو بچہ ڈر جائے گا، دوسرا سانس بند ہو جانے کا خوف، آپ کسی بھی بچے کی ناک پکڑ کر سانس بند کرنے کی کوشش کریں گے، بچہ مزاحمت کرے گا یارونے لگ جائے گا اور تیسرااچانک دھماکے کی آواز سے خوفزدہ ہو جانا، یہ بتاتا چلوں کہ یہ تینوں خوف ہمارے ساتھ جوان اور بوڑھے ہوتے ہیں، ہم بڑے ہو جائیں تو بلندی سے گرنے کا خوف شکل بدل کر عروج سے زوال کی طر ف آنے، امیر سے غریب ہونے یا اوپر سے نیچے لڑھکنے کے ڈر میں بدل جائے، سانس بند ہوجانے کا خوف بڑا ہو کر روزگار چھن جانے، نوکر ی چلے جانے، کاروبار کے خسارے یا جان جانے کے خوف میں بدل جائے اور دھماکے کی آواز سے ڈرنا آگے چل کر بُری خبر، حادثے یا کسی انجانے وسوسے اور اندیشے میں بدل جائے، نہ صرف یہ تینوں خوف حاوی ہونے دیں بلکہ ان کے علاوہ کوئی اور خوف قریب بھی نہ بھٹکے، لیکن ہاں ذہنی طور پر تیارر ہیں کہ دوست، رشتہ دار خوف دیں گے، معاشرہ اور نظام خوف میں مبتلا کر ے گا مگر جب خواہشیں کم سے کم اور عقیدہ یہ کہ جو بھی ملا، ملے گا، رب کی طرف سے، پروردگار کے علاوہ کوئی کچھ چھین نہ سکے، تب ہر خوف سے چھٹکارا مل جائے گا۔
ماسٹر اللہ دتہ نے یہاں پہنچ کر پوری کلاس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’آج کی آخری بات یہ کہ زندگی میں جو کچھ ہوتا ہے، بہتری کیلئے ہوتا ہے، بس نیت صاف، راستہ سیدھا ہونا چاہئے، ایک مثال دے کر سمجھاتا ہوں، پرانے وقتوں میں کسی گاؤں میں ایک بزرگ ا ور انکا بیٹا رہتے تھے، انکی کل جمع پونجی گھوڑے کا ایک بچہ تھا، وقت گزرا، یہ بچہ جوان ہو ااور ایسا کہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ، گاؤں کے لوگ تعریفیں کر کر نہ تھکتے لیکن ہر تعریف سن کر بابا جی یہی کہتے ’’یقینََا اسی میں بہتری ہوگی ‘‘ پھر یوں ہوا کہ ایک رات گھوڑا چوری ہوگیا، گاؤں والے افسو س کرنے آئے، بابا جی نے اب بھی ہر ایک سے یہی کہا ’’یقیناً اسی میں بہتری ہوگی ‘‘ حیرت انگیز طور پر دوچار دن بعد گھوڑا خودبخود ہی واپس آگیا، گاؤں والوں کو پتا چلا تو مبارکباد دینے آن پہنچے، بابا جی نے اس بار بھی سب سے یہی کہا’’ یقینا اسی میں بہتری ہوگی ‘‘ چند دن گزرے کہ بابا جی کا بیٹا گھڑ سواری کے دوران گرا اور اسکی ٹانگ ٹوٹ گئی، گاؤں والے پھر سے افسوس کرنے آئے تو بابا جی وہی پرانا جملہ دہراتے ملے ’’ یقیناً اسی میں بہتری ہوگی ‘‘ کچھ دنوں بعد ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی، بادشاہ کے حکم پر شہر شہر، گاؤں گاؤں جبری بھرتی شروع ہوئی اور ایکدن اس گاؤں کے سب نوجوانوں کو بھی زبردستی فو ج میں بھرتی کرلیا گیا، صرف بابا جی کا بیٹا بچا کیونکہ اس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی، خانہ جنگی طویل اورہلاکتیں اتنی ہوئیں کہ اس گاؤں کے سب نوجوان بھی مارے گئے، اب گاؤں میں ایک جوان تھااور وہ بابا جی کا بیٹا، یہ سنا کر ماسٹر اللہ دتہ نے کہا ’’ ہم جن چھوٹی چھوٹی پریشانیوں یا مصیبتوں پر گھبرا جاتے ہیں، دراصل وہ ہمیں بڑے دُکھوں اور مصائب سے بچانے کیلئے آتی ہیں، لہٰذا جو کچھ بھی ہو ہماری بہتری کیلئے ہو ‘‘۔
یہ سنا کر ٹھہر ٹھہر کر بولتے میرے واک فیلو نے مجھ سے پھر وقت پوچھا، میں نے گھڑی دیکھی تو حیران رہ گیا، دوگھنٹے گزر گئے، پتاہی نہ چلا، شام رات میں ڈھل چکی تھی اور اب پارک میں واک کرنے والے دوچارہی رہ گئے تھے، میرے سدا بہار دوست نے اُٹھتے ہوئے کہا’’ ماسٹر صاحب کی آخری قسط پھر سہی، ، میرے منہ سے نکلا’’یقیناً اسی میں بہتری ہوگی ‘‘ قہقہہ لگا، پھر سے ٹاٹابائے بائے ہوا اورہم اپنی اپنی گاڑی کی طرف چل پڑے۔