آج موضوع 3، کالم ایک، ابتدا سپہ سالار سے، مجھے اچھی طرح یاد، پچھلے سال سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا، میری دو خواہشیں، ایک نومبر 2019میں مقررہ وقت پر ریٹائر ہوکر گھر والوں کے ساتھ وقت گزاروں، ریٹائرڈ لائف کتابیں پڑھتے، کرکٹ دیکھتے، پوتے، پوتیوں کے ساتھ کھیلتے گزاروں، دوسری خواہش پاکستان سیکورٹی فری ملک بن جائے، میں پاکستان میں سیکورٹی کے بنا ویسے ہی پھروں جیسے بچپن، لڑکپن میں پھرا کرتا تھا لیکن گزرے ایک سال میں ملک کے اندرونی، بیرونی حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ نومبر 2019کو ریٹائر ہونے والے جنرل باجوہ کو بہ امر مجبوری ایکسٹینشن لینا پڑ گئی، یہ ایک علیحدہ کہانی کہ ایکسٹینشن آفر ہونے کے بعد ان کا ردِعمل کیا تھا، اندرون و بیرون ملک کس کس نے کیا کیا دباؤ ڈالا، انہوں نے فیصلہ کیسے بدلا، مگر اب وہ مزید 3سال کیلئے آرمی چیف، ان کی پہلی خواہش تو پوری نہ ہو سکی بلکہ یہ کہا جائے تو ٹھیک کہ پہلی خواہش ریٹائر ہوکر گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنا، کتابیں پڑھنا، پوتے، پوتیوں کے ساتھ کھیلنا تو 3سال کیلئے مؤخر، ہاں! اب ان 3سالوں میں سپہ سالار اپنی دوسری خواہش پاکستان کو ’سیکورٹی فری، ملک بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں، اللہ کرے وہ کامیاب ہو جائیں، پاکستان پھر سے ساٹھ، ستر، اسی کی دہائی والا ملک بن جائے۔
اب ذکر جسٹس فائز عیسیٰ ضمنی ریفرنس کا، گو کہ سپریم جوڈیشل کونسل یہ کہہ کر کہ "صدر مملکت کو خطوط لکھنا مِس کنڈکٹ نہیں، جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف ضمنی ریفرنس خارج کر چکی" لیکن 10صفحاتی فیصلے میں بڑے سنجیدہ سوالات بھی اُٹھا دیئے"، یاد رہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اہلیہ، بچوں کی برطانیہ میں 3 جائیدادیں انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے اور منی لانڈرنگ الزام پر مبنی اصل ریفرنس موجود، ضمنی ریفرنس خارج کرتے ہوئے فیصلے میں چیف جسٹس لکھیں "جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس آیا، میں نے انہیں بلاکر بتایا آپ کے خلاف یہ ریفرنس، پھر انہیں ریفرنس پکڑا کر کہا، اسے اونچی آواز میں پڑھیں، جسٹس فائز عیسیٰ نے اسے اونچی آواز میں پڑھا، جسٹس فائز عیسیٰ نے مجھ سے ریفرنس کی کاپی مانگی، میں نے کہا قانوناً ریفرنس کی کاپی نہیں دے سکتا، یہ سن کر جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا میں ریفرنس کے اہم پوائنٹس نوٹ کر لوں، میں نے اجازت دیدی"، جسٹس فائز عیسیٰ نے مجھ سے پوچھا "کیا مجھے صدرِ مملکت کو خط لکھنا چاہئے" میں نے جواب دیا "میں کچھ نہیں کہہ سکتا، یہ آپ کی اپنی صوابدید مگر میرے پاس بیٹھ کر اپنے خلاف آیا ریفرنس پڑھنے، نوٹس لینے کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ صدرِ مملکت کو خط لکھتے ہوئے کہیں کہ انہیں ریفرنس کا معلوم نہ ریفرنس کے مندرجات کا علم، جسٹس فائز عیسیٰ نے سچ نہیں بولا"۔
10صفحاتی فیصلے میں یہ بھی، جسٹس فائز عیسیٰ کے صدر کو لکھے گئے خطوط میں وزیراعظم عمران خان، ان کی بیویوں، بچوں کا تذکرہ اچھا اقدام نہیں تھا، فیصلے میں یہ بھی، بدقسمتی سے جسٹس فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس سے اجازت لئے بنا چیف جسٹس سے نجی ملاقات کا ذکر اپنے صدارتی ریفرنس کے جواب میں کر دیا، ملاقات کے وہ حصے بھی بتا دیئے جو انہیں نہیں بتانا چاہئے تھے اور پھر بات بھی مکمل نہ بتائی، سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے میں یہ بھی، جسٹس فائز عیسیٰ کا یہ الزام غلط کہ سپریم جوڈیشل باقی شکایات، ریفرنسز چھوڑ کر آؤٹ آف ٹرن یہ ریفرنس سن رہی، ایسا نہیں، سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس 6شکایات اور، سب پر قانون کے مطابق کارروائی ہو رہی، جسٹس فائز عیسیٰ کا یہ الزام بھی ٹھیک نہیں کہ سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل ان کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھ رہے، جج صاحب اس الزام کے ثبوت نہ دے سکے اور جسٹس فائز عیسیٰ کا یہ کہنا، صدارتی ریفرنس مندرجات حکومت نے لیک کئے، یہ الزام بھی فرضی نکلا، لیکن چونکہ جب ان کے خلاف ریفرنس آیا، تب ان کے سسر، بیٹی بیمار، لہٰذا یہ ممکن انہوں نے جذبات یا ذہنی دباؤ میں آکر صدر کو خطوط لکھ دیئے ہوں، یہ مِس کنڈکٹ نہیں، ضمنی ریفرنس خارج، دوستو! اس حوالے سے بہت باتیں، پھر کبھی۔
اب بات جج ارشد ملک وڈیو کی، آپ کو وہ دن تو یاد ہوگا جب مریم نواز نے چچا شہباز شریف اور پارٹی کی ’اسٹار کاسٹ، کے ساتھ پراسرار منہ بناکر یوں وڈیو بھری پریس کانفرنس کھڑکائی، لگا عالمی سازش بے نقاب ہو گئی، پھر مریم نواز کے سینکڑوں ٹویٹس، جلسے، جلوسوں میں ’نواز شریف کو رہا کرو، کے نعرے اور پھر قمیص پر نواز شریف کی تصویر لگا کر نیب پیشی پر آنا لیکن اب یہ ڈرامہ ڈراپ سین، دی اینڈ کی جانب رواں دواں، وڈیو اصلی یا نقلی، اس پر تحقیق کرتے ایف آئی نے جب 36سوالوں پر مشتمل سوالنامہ شہباز شریف کو بھجوایا تو جواب ملا، مجھے کچھ پتا نہیں، جو کچھ معلوم وہ مریم کو، 41سوالوں پر مشتمل سوالنامہ مریم نواز کو بھجوایا گیا تو جواب ملا، مجھے کچھ پتا نہیں جو معلوم وہ ناصر بٹ کو، وڈیو منصوبہ ناصر بٹ کا، وڈیو بنائی ناصر بٹ نے، وڈیو ہمیں دکھائی ناصر بٹ نے، وڈیو پریس کانفرنس تک پہنچائی ناصر بٹ نے، وڈیو ریکارڈ کس نے کی، وڈیو اصلی یا نقلی، وڈیو کی آڈیو میں کوئی تبدیلی ہوئی یا نہیں، پریس کانفرنس کے بعد وڈیو کون لے گیا، اصل وڈیو کہاں، مجھے کچھ پتا نہیں، سب کچھ ناصر بٹ کو پتا، مطلب شہباز شریف نے سارا ملبہ ڈالا مریم پر، مریم نے سارا ملبہ ڈال دیا ناصر بٹ پر اور ناصر بٹ ملک چھوڑ چکا، وہی پانامہ والا چکر، جو کچھ پتا دادا جی اور حسن، حسین کو، دادا جی فوت ہو گئے، حسن، حسین غیر ملکی ہو کر مفرور، لہٰذا نو منی ٹریل، اب وڈیو کہانی میں جو کچھ پتا، وہ ناصر بٹ کو اور وہ مفرور، لہٰذا نو وڈیو ٹریل۔
بتایا یہ، ایجنسیوں نے جج ارشد ملک کی غیر اخلاقی وڈیو بناکر انہیں بلیک میل کرتے ہوئے نواز شریف کو سزا دلوائی، نکلا یہ، جج کی غیر اخلاقی وڈیو بنائی میاں طارق نے، وہ خرید لی لیگیوں نے اور اس وڈیو کے زور پر من مرضی کی وڈیوز، پریس کانفرنسیں، ٹویٹ، جلسے، جلوس، مگر جھوٹ تو جھوٹ ہی اور مریم کا جھوٹ تو ہمیشہ ہی پکڑا جائے، لہٰذا صورتحال یہ، مریم وڈیو سے انکاری، جسٹس کھوسہ کہہ رہے نواز شریف کی رہائی کیلئے وڈیو فائدہ مند ہو سکتی، مگر کوئی درخواست تو دائر کرے اور جسٹس عمر عطا بندیال کہنے پر مجبور، کیا کریں جنہوں نے کہانی سنائی، وہی کہانی سے لاتعلق ہو گئے۔