Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Practice Zaroor Ker Lain

Practice Zaroor Ker Lain

خیال تھا کہ موسمی بخار ہے، موسم بدلے گا تو اُتر جائے گا، لیکن جب ایک صاحب ِ علم کا کالم ’’نواز شریف کی تاریخ ساز مزاحمت ‘‘ نظر سے گزرا، جب ایک جہاندیدہ، چشم گزیدہ بزرگ کے قلم نے میاں صاحب کو ملک کا نایاب اثاثہ قرار دیدیااورجب چند حریت پسند مسلسل یہ ڈھول پیٹتے پائے گئے کہ میاں صاحب نظریاتی اورمزاحمتی ہو چکے تب پتا چلا کہ یہ موسمی بخار نہیں، یہ تو لا علاج بیماری، وہ بیماری جس میں عقیدت، بصیرت پر بھاری پڑ جائے، تبھی تو دوست کالم نگار نے تاریخ کا لحاظ کیا اور نہ تاریخ ساز مزاحمت کا، محترم بزرگ نے لفظ نایاب کا حلیہ بگاڑ کر اثاثے کا بھی ککھ نہ چھوڑا اور الیکٹرانک میڈیا کے حریت پسند تو یہ بھی بھلا بیٹھے کہ جو بندہ 67 سال کی عمر تک نظریاتی نہ ہوا وہ بھلا چند ماہ میں کیسے نظریاتی ہو سکے، گو کہ بیماری خطرناک، مریض بھی آمادہ علاج نہیں، مگر پھر بھی نظریاتی اور مزاحمتی فلم کی دو چار جھلکیاں دکھارہا، کیا پتا کسی کو چندلمحوں کا افاقہ ہی ہوجائے، میاں صاحب کی مارشل لا میں جم پال کو نظر انداز کر کے بات آگے بڑھاتے ہیں، اگر میاں صاحب نظریاتی اورمزا حمتی ہوتے تو جب ضیا نے جونیجو حکومت برطرف کی تب نگراں وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی بجائے وہ اپنے برطرف وزیراعظم جونیجو کے ساتھ کھڑے ہوجاتے، اگریہ نظریاتی اور مزاحمتی ہوتے تو اقتدار کیلئے آئی جے آئی کی سیڑھی استعمال نہ کرتے، صدر لغاری سے مل کر بی بی کا دھڑن تختہ نہ کرتے، چھانگا مانگا نہ ہوتا، سپریم کورٹ حملے سے بچ جاتی اور وہ ایک جمہوری حکومت کیخلاف عدالت نہ جاتے، ا گر یہ نظریاتی اور مزاحمتی ہوتے تو ڈیل ہوتی اور نہ یہ سرور پیلس کے مکین بنتے، اگر یہ نظریاتی اور مزاحمتی ہوتے تو دباؤ پڑنے پر مشاہد اللہ کو فارغ نہ کرتے، خود فارغ ہوجاتے (یہ علیحدہ بات کہ مشاہد اللہ نے وہ نظریاتی اور مزا حمتی انٹرویو کس کے کہنے پر اور کیوں دیا )، اگریہ نظریاتی اور مزاحمتی ہوتے تو پریشر آنے پر ڈان لیکس کی قربان گاہ پر پرویز رشید اور طارق فاطمی کو قربان کرنے کی بجائے خودکو پیش کرتے (یہ بھی الگ بحث کہ نظریاتی اور مزاحمتی لیکس کیسے، کیوں اور کس نے کروائیں ) اور اگر میاں صاحب نظریاتی اور مزاحمتی ہوتے تو یہ دہائیاں نہ ڈالتے کہ ’’ سازشیں نہ رُکیں تو پچھلے چارسال میں پسِ پردہ ہوئی سب کارروائیاں بے نقاب کردوں گا‘‘ کیونکہ وہ تو چار سالوں کے خود بااختیار وزیراعظم، کسی کی کیاجرأت کہ ایک نظریاتی اور مزاحمتی وزیراعظم کے سامنے پر مارسکے لیکن چلو مان لیا کہ کچھ ہوا تھا تو نظریاتی اور مزاحمتی نے تب سازشوں اور سازشیوں کو بے نقاب کیوں نہ کیا، اگر اس وقت ملک وقوم کی بہتری کیلئے ہونٹ سی لئے تو اب یہ واویلا کیوں، کیونکہ ’’ بھیڑے رون نالوں چپ چنگی‘‘ لیکن چلو یہ بھی مان لیا کہ چار سال سے سویا نظریہ اب جاگا، یہ پہلے نہیں اب مزاحمتی ہوئے تو پھر سب کچھ ثبوتوں کے ساتھ اُس عوامی عدالت میں پیش کیوں نہیں کر رہے جس عوامی عدالت کی یہ روزبات کریں مگر چونکہ نہ ایسا ہے اور نہ یہ ہوگا۔ ویسے تو بچوں کے انٹرویوز، 3 تقریروں، ایک قطری خط، 5 سو صفحات کے فیصلے اور’’ اگر میرے اثاثے ذرائع آمدنی سے زیادہ تو تمہیں اس سے کیا ‘‘ نظریئے اور مزاحمت کی اصلیت بتانے کیلئے کافی لیکن ایک ٹریلر اور بھی ملاحظہ کرلیں، ایک طرف ٹی وی انٹرویو میں مریم صاحبہ فرما ئیں ’’ مخالفین کہہ رہے کہ حسن اور حسین نواز اتنی چھوٹی عمر میں ارب پتی کیسے بن گئے، میں سب کو بتا دوں کہ حسن اور حسین نواز کا دادا ارب پتی تھا اور انہیں یہ سب دادا جان کی طرف سے ملا ‘‘جبکہ دوسری طرف پنجاب اسمبلی میں شہباز شریف کہیں ’’ مجھے فخر ہے کہ میں ایک غریب مگر محنتی باپ کا بیٹاہوں ‘‘ پھر یہ ذہنوں میں رہے کہ نظریاتی او رمزاحمتی لوگ صادق اور امین ہوں، نہ کہ عوام، پارلیمنٹ اور عدلیہ کو بے وقوف بنانے والے، نظریاتی اور مزاحمتی رہنماؤں کا سب کچھ اپنے وطن میں ہو اور وقت پڑنے پر انکی اولادیں غیر ملک بھی نہیں ہوجاتیں۔

لیکن جیسے پہلے بتا چکا کہ عقیدت ’بصیرت پر بھاری پڑ چکی ‘ لہذا نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سارے وہ کچھ کہہ اور کر رہے جو سوچا بھی نہ جا سکے، جیسے ابھی چند دن پہلے میاں برادران کے سعودی عرب جانے پر کچھ یہ کہتے پائے گئے ’’قائدین مسلم امہ کے مسائل حل کرانے سعودیہ گئے ‘‘ ہنس ہنس کر پیٹ دردہوا ‘جو 35 سالہ اقتدار میں ملک اور جو آج اپنے مسائل حل نہیں کر پارہے وہ مسلم امہ کے مسائل کیا حل کریں گے، چند ماہ پہلے مسلم امہ کے اکٹھ ’’ریاض کانفرنس ‘‘میں وزیراعظم نواز شریف کی جوآؤ بھگت ہوئی اور جس طرح انہیں تقریر اور ٹرمپ سے ملاقات کے بنا لوٹنا پڑا اس کے بعد یہ باتیں، اب تو وزارتِ عظمیٰ بھی نہیں اورعدالت عمر بھر کیلئے نااہل بھی کر چکی، اگر پھر بھی کوئی یہ سمجھے کہ مسلم امہ کے مسائل کی کنجی شریف برادران کے پاس تو پھر اس کا اور مسلم امہ کا اللہ ہی حافظ، پھر وہ سعودی عرب بھلا مسلم امہ کے مسائل شریف برادران سے کیوں حل کروائے گا جو یمن کے معاملے پر فوج بھیجنے کا وعدہ کرکے مکرنے اور قطر کا ساتھ دینے پر میاں صاحب سے پہلے ہی ناراض، اب سوال یہ کہ پھر گئے کیوں ’ 2 وجوہات‘ پہلی ممکنہ وجہ یہ کہ شریف برادران کو سعودی قیادت نے اسلئے بلایا کہ پاکستان کو unmanageable ریاست نہ بنائیں، اداروں سے نہ لڑیں یعنی ہتھ ذرا ہولا رکھیں اور عدالتوں کی جنگ عدالتوں میں لڑیں، دوسری ممکنہ وجہ یہ کہ سعودی قیادت نے بڑے میاں کو یہ کہنا ہو کہ شہباز شریف کو آگے لانے اور فری ہینڈ دینے کا وقت آگیا، اصل کہانی کیا‘ چند دن اور انتظار کر لیں۔ جاتے جاتے ایک نظر شہباز شریف کی دو تقریروں پر، پہلی تقریر وہ جس میں چھوٹے میاں طبقہ اشرافیہ کویوں کوس رہے کہ ’’ طبقہ اشرافیہ کے تو نزلے زکاموں کے چیک اپس بھی باہر، اس طبقے نے قائد کے پاکستان کا ستیانا س کردیا اور قائد کی روح تڑپ رہی ‘‘ اب اگر اسے دوعملی منافقت نہ کہیں، چھوٹے میاں کی نیت پر شک نہ کریں تو بھی یہ جعلی کارروائی، کیونکہ شہباز شریف خود اسی طبقہ اشرافیہ کا حصہ، ان کے اپنے نزلے زکاموں کے معائنے بھی باہر ہو رہے انہوں نے کبھی بھول کر بھی اپنے اسپتالوں میں علاج نہ کروایا، ان کے بچے، نواسے نواسیاں اورپوتے پوتیاں سرکاری اسکولوں میں پڑھے اورنہ پڑھ رہے اور موجودہ گھڑی تک وہ شاہی معاملات اور محلات کا حصہ، اگرحبیب جالب کے شعر پڑھنے اور مائیک گراؤ تقریروں سے انقلابی بناجا سکتا تو یہاں سب چی گویرا ہوتے، پھر اسے کیا کہیں کہ کبھی شہباز شریف ہی فرمایا کرتے ’’ سرکاری پیسوں سے ہیلی کاپٹرز خریدنے والو میں موٹر سائیکل پر بیٹھ جاؤں گا مگر یہ جرم نہیں کروں گا‘‘لیکن آج چھوٹے میاں ’’نواں نکور‘‘ ہیلی کاپٹر خرید چکے، خادم اعلیٰ اپنی دوسری جذباتی تقریر میں قرضے لینے کو ذلت اور رسوائی قرار دے رہے تھے، انہیں کون یاددلائے کہ ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے تو آپ اور آپ کے بھائی جان نے لئے، انہوں نے اپنی تقریر میں کشکول توڑنے کی ضرورت پر بھی زوردیا، انہیں کون بتائے کشکول تو آپ اتنا مضبوط کرچکے کہ اب یہ ٹوٹنے والا نہیں اور شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ ’’امریکہ کی امداد نہیں چاہئے، ہم روکھی سوکھی کھالیں گے‘‘ گزارش یہی کہ قوم تو 70 سال سے روکھی سوکھی ہی کھا رہی، مسئلہ آپ کا کیونکہ آپ نے صرف روکھی سوکھی کا سن رکھا، کبھی کھائی نہیں ‘ چونکہ یہ کوئی آسان کام نہیں، لہذا بات آگے بڑھانے سے پہلے حفظِ ماتقدم کے طور پر دو چار روز روکھی سوکھی کھانے کی پریکٹس ضرور کر لیں۔